دہشتگردی کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے

ایڈیٹوریل  اتوار 15 جنوری 2017
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تیز ترین عدالتی نظام اور بروقت فیصلے وقت کی ضرورت بن چکے ہیں ۔ فوٹو: پی آئی ڈی/فائل

دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تیز ترین عدالتی نظام اور بروقت فیصلے وقت کی ضرورت بن چکے ہیں ۔ فوٹو: پی آئی ڈی/فائل

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے ہفتے کوراولپنڈی اسلام آباد کے نواحی علاقے کلر سیداں میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد تنظیموں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے درمیان فرق ریکارڈ پر موجود ہے، دہشتگردوں کے خاتمے کیلیے تیز ترین عدالتی نظام لارہے ہیں، پروفیسر سلمان حیدر سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا، معاملات احسن طریقے سے حل ہو جائیں گے۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کے مابین مشاورت جاری ہے جس کا مقصد دہشت گردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلیے فاسٹ ٹرائل کا نظام متعارف کرانا ہے‘ دہشتگردوں اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں میں فرق ہونا چاہیے اور ان کیلیے علیحدہ قوانین بنانے ہوں گے۔

ملک میں ایک طویل عرصے سے موجود دہشت گردی کے عفریت کے باعث امن و امان کے حوالے سے بہت سے چیلنجز پیدا ہو چکے ہیں جن سے حکومتی سطح پر آپریشن ضرب عضب،نیشنل ایکشن پروگرام،فوجی عدالتوں کے قیام سمیت مختلف حوالوں  سے نبٹنے کی کوششیں جاری ہیں جن کے کسی حد تک بہتر نتائج بھی سامنے آئے ہیں مگر دہشت گردی کی جڑیں اپنے وسیع تناظر میں جس قدر مضبوط ہو چکی ہیں ان کا خاتمہ مزید اور تیز رفتار اقدامات کا متقاضی ہے۔ ملک میں اب تک جو دہشت گردی اور فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات رونما ہوئے ہیں ان کے پس منظر میں شدت پسندی کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فرقہ واریت میں ملوث بعض جماعتوں پر پابندی لگا کر انھیں کالعدم قرار دے دیا گیا لیکن بعدازاں یہ دیکھنے میں آیا کہ کالعدم قرار دی گئی  جماعتوں نے نام بدل اور نیا لبادہ اوڑھ کر اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔

جس پر یہ اعتراضات سامنے آئے کہ کیا صرف نام بدل دینے سے کالعدم قرار دی گئی جماعتوں کی سرگرمیاں درست قرار دی جا سکتی ہیں۔ اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہر مذہبی جماعت نہ تو دہشت گرد ہے اور نہ فرقہ واریت میں ملوث ۔ مذہبی جماعتوں کی بڑی تعداد امن و امان کی حامی اور دہشت گردی کے خلاف ہے اور انھوں نے ہمیشہ دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی ہے۔ اسی جانب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں میں فرق ہونا چاہیے اور ان کے لیے علیحدہ قوانین بنانے ہوں گے۔  معاملہ قوانین بنانے کا نہیں‘ قوانین تو پہلے بھی موجود ہیں اصل مسئلہ ان کے معنی و مفہوم کے مطابق ان  پر فوری اور بروقت عملدرآمد کا ہے۔ فوجی عدالتوں نے اپنی 2سالہ مدت کے دوران دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد کو سزائیں سنائیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا کردار بخوبی ادا کیا۔ بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عدالتوں کی جانب سے دہشت گردوں کو سزائیں نہ دیے جانے کے باعث ہی فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ججز کو دہشت گردوں کی جانب سے باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی تھیں جس کے سبب عدالتیں سیکیورٹی کے ناقص انتظامات اور ثبوتوں کے نہ ہونے کے باعث دہشت گردوں کے خلاف سزائیں سنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہیں۔ ان تاخیری معاملات کے باعث دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوئے جس کی بیخ کنی کے لیے فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس کی گئی۔ فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد ابھی تک ان کی توسیع کے بارے میں حکومت کی جانب سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا‘ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

دہشت گردی کے بارے میں کیے جانے والے اقدامات یقینااپوزیشن کی مشاورت ہی سے طے کیے جانے چاہئیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک نکتہ پر متفق ہونا ناگزیر ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان اختلاف دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹ بن سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ملکی سالمیت اور اس کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے جلد از جلد کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کیونکہ اس سلسلے میں تاخیر سے دہشت گردوں کو نیا حوصلہ ملے گا۔ جہاں تک لاپتہ افراد کا معاملہ ہے تو وفاقی وزیر داخلہ نے یہ یقین دلایا ہے کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا سیکیورٹی اور خفیہ ایجنسیوں نے ذمے داری سونپ رکھی ہے اور کچھ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں جو احسن طریقے سے حل ہو جائیں گے۔ حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوانین بنانے میں تاخیر نہیں کرنا چاہیے خاص طور پر اس امر کا خیال رکھا جائے کہ قوانین میں موجود سقم کا فائدہ ہمیشہ ملزم ہی کو پہنچتا ہے لہٰذا قوانین بناتے وقت اس کا بھی خصوصی خیال رکھا جائے کہ اس میں کوئی سقم موجود نہ رہے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تیز ترین عدالتی نظام اور بروقت فیصلے وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔