سیاسی پہلوانوں کا دور

ظہیر اختر بیدری  اتوار 15 جنوری 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان اپنے قیام کے بعد ہی سے جس روایتی سیاست کا شکار ہوکر رہ گیا ہے اس کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ جو لوگ پاکستان کو ایک جمہوری ملک دیکھنا چاہتے ہیں وہ حیران ہیں کہ روایتی اور موروثی سیاست کے دلدل سے اس ملک کو نکالے بغیر یہ ملک جمہوری کیسے ہو سکتا ہے۔ ہماری جمہوریت میں اشرافیہ کی انتخابی کامیابی رائے عامہ کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ موروثی اور روایتی پس منظر میں ہوتی ہے۔ کراچی میں رہنے والا ایک وڈیرہ سیاستدان کسی ایم این اے، ایم پی اے کو اپنی نشست سے مستعفی کرا کر اس کی جگہ انتخابات ’’لڑ کر‘‘ قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتا ہے۔ جمہوریت میں ووٹ عوامی خدمات کے صلے میں حاصل کیے جاتے ہیں، لیکن ہماری سیاست میں انتخابات روایتی موروثیت کی بنیاد پر لڑے اور جیتے جاتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جو ہماری رائج الوقت جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ دنیا بھر کے جمہوری ملکوں میں بلدیاتی اداروں کا ایک بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قانون ساز اداروں میں جانے سے پہلے نمائندے بلدیاتی اداروں میں عوامی خدمات کا سرٹیفکیٹ حاصل کریں۔

جو طبقات ہماری سیاست اور اقتدار قابض ہیں وہ جمہوریت کے اس بنیادی ادارے بلدیات کو اس قدر مفلوج بنا کر رکھ دیتے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عوامی خدمات کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے دروازے ہی بند کر دیے گئے ہیں اور اس پس منظر میں اشرافیہ کے شہزادے اور شہزادیاں انتخابی میدان میں عوامی خدمات کے ذریعے بلدیاتی سیڑھی پر سے گزر کر نہیں بلکہ ٹارزن کی طرح موروثی ٹہنیوں سے لٹک کر کود پڑتے ہیں اور قانون ساز اداروں میں پہنچ کر اپنے طبقاتی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ عوام کی خدمت موروثی سیاست کے قبرستان میں دفن ہوکر رہ جاتی ہے۔

دنیا بھر میں جمہوریت کا پروپیگنڈہ کرنے والے قلمکار اور اہل علم اس حقیقت پر غور کرنے کے لیے سرے سے تیار ہی نہیں کہ قانون ساز اداروں میں امیدوار کس طرح پہنچ رہے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی کرمفرمائیاں ہیں کہ اس نظام میں انتخابات اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار بن کر رہ گئے ہیں۔ انتخابی مہموں پر امیدوار جو سرمایہ کاری کرتا ہے اس سرمایہ کاری سے وہ بیسیوں گنا زیادہ منافع حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے اہل علم ہی نہیں بلکہ ملک کا بچہ بچہ واقف ہے۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر ہمارے اہل علم اور اہل قلم کا یہ فرض ہے کہ وہ آنکھ بند کر کے اس اندھی بہری جمہوریت کی حمایت کرنے کی بجائے اس اشرافیائی جمہوریت کو پہلے عوامی جمہوریت بنانے کی کوشش کریں تا کہ عوام کے حقیقی نمائندے قانون ساز اداروں اور کابیناؤں میں پہنچ کر عوام کی خدمت اور عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کر سکیں۔

اس حوالے سے سب سے پہلے انتخابی قوانین میں اصلاحات کی ضرورت ہے تا کہ جمہوریت منڈی کی جنس نہ بنی رہے۔ عوام اور میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے الیکشن کمیشن اگرچہ انتخابی اصلاحات کا ڈرامہ رچا رہا ہے لیکن یہ ڈرامہ اس وقت تک بامعنی نہیں ہو سکتا جب تک انتخابی اصلاحات کا کام مڈل کلاس کے مخلص دیانتدار اور پرخلوص عوام دوست افراد کے ہاتھوں میں نہ آ جائے۔ کیا انتخابی اصلاحات کا کام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آ سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں اس لیے آتا ہے کہ پورے جمہوری نظام پر اشرافیہ اور اس کے ایجنٹوں کا قبضہ ہے اور وہ کسی طرح بھی اس 69 سالہ قبضے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس سڑے گلے استحصالی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جو راستے اختیار کیے گئے کیا آج کے بدلے ہوئے حالات میں انھیں راستوں پر چل کر پورے کرپٹ نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ 1917ء میں انقلاب روس اور 1949ء میں چین میں جو انقلاب برپا کیے گئے کیا آج اسی پیٹرن کے انقلابات برپا کرنا ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب بدقسمتی سے نفی میں اس لیے آتا ہے کہ 19 ویں صدی کے نصف اول میں جو سیاسی اور سماجی حالات تھے اب وہ نہیں رہے۔ اب سرمایہ دارانہ جمہوریت کے سرپرستوں نے اس جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایسے ایسے ہتھکنڈے اختیار کر لیے ہیں کہ انھیں کراس کر کے اس استحصالی نظام سے عوام کی جان چھڑانا آسان نہیں ہے۔

سرمایہ دارانہ طبقاتی نظام کے طبقاتی استحصال کو مستحکم بنانے کے لیے سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ عوام کو مختلف حوالوں سے تقسیم کر کے جن میں مذہبی تقسیم رنگ نسل زبان ملک و ملت کی تقسیم سمیت مختلف حوالوں سے عوام کو اتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے کہ تبدیلیوں کے لیے جس اجتماعی عوامی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ مفقود ہے۔ پھر قومی ریاست کا فلسفہ پیش کر کے عوام کو اس کے سحر میں اس طرح مبتلا کر دیا گیا ہے کہ عوام کی ساری طبقاتی طاقت تبدیلی میں استعمال ہونے کی بجائے قوم پرستی میں استعمال ہو رہی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عیارانہ فلسفے نے عوام کو ملک و ملت کے مفادات کے سحر میں اس طرح مبتلا کر دیا ہے کہ وہ اس نظام کی تبدیلی کے لیے اپنی اجتماعی طاقت استعمال کرنے کی بجائے ملک و ملت کے نام پر اپنی اجتماعی طاقت برباد کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔