سوشل میڈیا کے دانشور اور آزادی کا مفہوم

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  اتوار 15 جنوری 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

سوشل میڈیا کی سہولت کا ایک یہ فائدہ تو ہوا کہ معلومات کی ترسیل اور رابطے آسان ہوگئے مگر ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہر کسی کو دانشور بننے اور رہنمائی کرنے کا موقع میسر آگیا، خواہ اس نے زندگی میں کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ہو۔ چنانچہ علم کی کمی کے باعث اس اہم ذریعہ ابلاغ پر اظہارے رائے کی آزادی کا غلط استعمال بھی ہونے لگا اور ’آزادی‘ کے لفظ پر دھواں دھار جنگ بھی شروع ہوگئی کہ کسی کی دل آزاری کرنے کا حق بھی آزادی ہے؟

اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے نزدیک اس کا تصور مختلف ہے، ہم میں سے زیادہ تر لوگ زیادہ تر عالمی سطح پر رائج لفظ آزادی کا استعمال تو کر رہے ہیں مگر یہ نہیں سمجھ رہے ہیں کہ یہ ایک لفظ نہیں بلکہ ایک اصطلاح ہے جو اپنے اندر ایک بڑا کلچر رکھتی ہے۔

مغربی دنیا میں یہ اصطلاح اٹھارویں صدی کے بعد بھر پور طریقے سے سامنے آئی۔  Ishah Berlin نے اپنی کتاب  Two concept of liberty میں آزادی کا جو تصور پیش کیا ہے اس کا ایک حصہ ’ نگیٹو فریڈم‘ اور دوسرا ’پوزیٹیو فریڈم‘ پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ نگیٹو فریڈم فرد کو انفرادی سطح پر آزادی کا حق دیتا ہے جس کے تحت وہ اس قدر آزاد ہے کہ نیکی کا اور بدی کا جو تصور بھی چاہے قائم کر سکتا ہے اور کوئی اس کو اس سلسلے میں روک نہیں سکتا اور اگر روکے گا تو ریاست اس سلسلے میں اس کی مدد کرے گی اور ریاست کا یہ مدد کرنا ’پوزیٹیو فریڈم‘ کے تحت ہوگا، مثلاً ایک نوجوان اگر رات کو شراب پی کر دیر سے گھر آ تا ہے تو والدین اس کو سزا نہیں دے سکتے، ایک تھپڑ بھی نہیں مار سکتے (کہ نوجوان اپنے آزادی کے حق کے تحت شراب پینے اور رات دیر سے گھر آنے کو غلط نہیں سمجھتا) اور اگر والدین اس کو سزا دیتے ہیں تو پھر ریاست اپنا ’پوزیٹیو فریڈم‘ کا حق استعمال کرتے ہوئے والدین کو اولاد کی شکایت پر تھانے کی سیر بھی کراسکتی ہے ، یعنی اس آزادی کے تحت والدین کا وہ اخلاقی اور مذہبی حق بھی ختم ہوگیا کہ جس کے تحت وہ اپنی اولاد کو ڈانٹ ڈپٹ کر سکتے تھے۔

دوسرے لفظوں میں مغرب میں رائج آزادی کے اس حق کے تحت مذہب اور معاشرتی اخلاقی قدریں سرے سے ختم ہوگئیں۔ اب مغرب کی یہی آزادی عالمی ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے پوری دنیا میں مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، بنیادی انسانی حقوق کے عالمی منشور میں بھی یہی تصور آزادی ہے چنانچہ اسی آزادی اظہار رائے کے تحت وہ باتیں کی جاتی ہیں کہ جو مذہبی لحاظ سے کسی صورت جائز نہیں خواہ وہ مذہب اسلام ہو یا عیسائیت وغیرہ۔ گویا اب کوئی کسی مذہب یا مذہبی شخصیت کی توہین کرے تو وہ توہین نہیں ہوگی بلکہ عین اظہار رائے کے مطابق عمل ہوگا۔

آزادی کا یہ تصور آج سرمایہ دارانہ نظام سمیت سوشل ازم، لبرل ازم، کمیونزم، انارکسزم، نیشنل ازم، فیمین ازم وغیرہ سب میں مشترک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جن ریاستوں میں اس تصور پر عمل نہیں ہو رہا ہے وہاں بڑے ممالک اپنی طاقت کے ذریعے عمل کرانا چاہ رہی ہیں اور یہ کام ترجیحی سطح پر کیا جارہا ہے مثلاً حال ہی میں چند لاپتہ افراد کے معاملے پر برطانیہ اور امریکا کا پاکستان کے خلاف بڑا سخت موقف سامنے آیا جس میں انھوں نے کہا کہ ہم آزادی اظہار رائے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہیں اور پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیتے رہیں گے۔ برطانوی ترجمان کے مطابق بر طانیہ اظہار رائے کی آزادی پر مکمل یقین رکھتا ہے اور اس عمل کی حمایت کرتا ہے۔ (اخبارات 14 جنوری 2017)

بات یہ ہے کہ مغرب کا تصور آزادی پراس قدر سخت رویہ یوں ہی نہیں ہے، مغرب جن فلاسفر پر ایمان لاچکا ہے اور وہ جن کے افکار کو خدا کے حکم کا درجہ دے چکا ہے ان کی فکر اور تعلیمات ہی ایسی ہیں، مثلاً لبرل ازم کا سب سے بڑا فلسفی جان رالس اپنی کتاب ’پولیٹیکل لبرل ازم‘ میں لکھتا ہے کہ اگر کسی کا نظریہ ’خیر‘ آزادی کے عقیدے کے لیے خطرہ بنے تو ایسے لوگوں کو اس طرح ختم کردیا جائے جس طرح جراثیموں کو ختم کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح ڈربن لکھتا ہے کہ آئینی لبرل جمہوریت کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کوئی احمق ہوگا جو ایسے آئینی جمہوری معاشرے میں رہنا پسند نہ کرے۔ لبرل ازم کے مخالفین احمقوں کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ان کا علاج صرف یہ ہے کہ ان کو قتل کردیا جائے۔

چنانچہ اس قسم کے فلسفیوں کی رہنمائی نے مغرب پر بڑے خطرناک اثرات ڈالے، مثلاً جرمن چانسلر انجیلا مرکل کہتی ہیں کہ ہم مسلم عورت کو نقاب نہیں پہننے دیں گے، یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ فرانس کے سر کوزی اور ہالینڈی نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ مغرب کی اقدار اختیار کریں، اگر وہ ہماری اقدار قبول نہیں کرتے تو وہ چلے جائیں۔ ہالینڈ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ میں مساجد کی تعمیرات پر عوام اور حکومت نے اعتراض کیا گیا کہ مسلمان ہماری زمین (کلچر) کا نقشہ بدل رہے ہیں۔ جرمنی کی ایک عدالت نے فیصلہ دیا کہ اسکولوں میں پڑھنے والی مسلم لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ تیراکی کرنا ہوگی، یہ ہماری اقدار ہیں۔ سمجھنے کی اصل بات یہی ہے کہ ’آزادی‘ کا تصور درحقیقت ان کی اقدار اور کلچر کا حصہ ہے اور ان کا تصور آزادی اپنانے کا مطلب ان کا کلچر اپنانا ہے اور یہی اصل آزادی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو مسجد بنانے، پردہ کرنے وغیرہ کی بھی آزادی ہوتی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آزادی کا جو تصور اور اصطلاح پیش کی جا رہی ہے یا مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ محض لفظ آزادی نہیں پورا ایک کلچر ہے، جس میں خدا، مذہب اور اخلاقی اقدار کی قطعی کوئی گنجائش نہیں، بلکہ آزادی اظہار رائے کے نام پر ان کے خلاف کچھ بھی ’بکواس‘ کی جاسکتی ہے۔

اس آزادی میں اس خدا کی بھی کوئی گنجائش نہیں جو کہتا ہے کہ بڑھاپے میں والدین کو ’اف‘ تک نہ کہو، نہ ہی ان والدین کا کوئی حق اور مقام ہے جو پیدائش سے قبل اور جوان ہونے تک اولاد کے لیے دکھ تکلیف اٹھاتے ہیں، ان والدین کو ڈانٹ نے کا بھی حق حاصل نہیں۔

اوباما کے مشیر ولی نصر نے اپنی کتاب مغرب کو مشورہ دیا کہ عوامی زندگی میں باحجاب عورتوں پر اشتعال، تنقید نہ کریں۔ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر لاکھوں مسلمان عورتیں قرآن کی تعلیمات سے انحراف کرکے تعلیم، کاروبار ملازمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل رہی ہیں۔ کل یہ اسی آزادی کے نتیجے میں پردہ بھی چھوڑ کر یورپی خواتین کی طرح ہوجائیں گی، لیکن مغرب نے پابندی لگائی تو یہ سب واپس اپنے مذہب سے جڑ جائیں گی۔

یہاں اس آزادی کی مختصر سی جھلک پیش کی گئی ہے جس کے نعرے ہم میں سے بہت سے لوگ بغیر کچھ جانے لگانے لگتے ہیں، وکالت کرتے ہیں اور سوشل میڈیا پر شور مچاتے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ پہلے ہم اس ’آزادی‘ کو اچھی طرح سمجھیں، جانیں اور پھر اس کی مخالفت یا حمایت کریں، بلاتحقیق اس لفظ کے سحر میں نہ آئیں اور نہ اس کی وکا لت کریں۔ سوشل میڈیا پر ہمارا ایک ایک لفظ انتہائی اہم ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔