طیبہ! پھر تیرے لیے

سعید پرویز  اتوار 15 جنوری 2017

’’طیبہ کے جسم پر زخموں کے 22 نشانات ہیں‘‘ یہ بیان اس میڈیکل بورڈ کا ہے جس نے ننھی دس سالہ طیبہ کا طبی معائنہ کرکے تحریری رپورٹ پیش کی ہے اور مجھے 22 زخموں کی میڈیکل رپورٹ پڑھ کر جنرل ایوب صاحب کے زمانے والے 20 خاندان یاد آگئے ہیں، جو انھی کے زمانے میں 22 خاندان بن گئے تھے۔ حبیب جالب نے کیمپ جیل لاہور میں ایک نظم لکھی تھی، جسے انھوں نے رہائی کے فوراً بعد محترمہ فاطمہ جناح کے استقبالی جلسے میں سنایا تھا۔ بس اس نظم کا ابتدائیہ ہی لکھوں گا۔

بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
آج بھی ہم پر جاری ہے
کالی صدیوں کی بے داد

صدر ایوب کے بعد کئی اور حکمران آئے۔ اس ملک کو بنے بھی 70 سال ہوگئے، بہت کچھ بدل گیا، نہ بدلے تو غریبوں کے حالات اور آج بھی ہم پر جاری ہے کالی صدیوں کی بے داد۔ 22 گھرانے اب 22 لاکھ گھرانے بن چکے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کررہے ہیں۔ ملک ’’ادھ موا‘‘ کرکے بھی یہ ظالم لٹیرے زندہ ہیں۔ بلکہ خوب پھل پھول رہے ہیں۔ یہ 22 لاکھ گھرانے ایک ہیں، ان کے مفادات ایک ہیں۔ یہ مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

قائداعظم نے تو پاکستان غریبوں کے لیے بنایا تھا مگر پاکستان پر امیر لوگوں نے قبضہ کرلیا، ہم نے لاکھوں جانیں قربان کرکے پاکستان بنایا تھا، وہ پاکستان کہ جہاں سب کو زندگی کی دولت ملتی، جہاں کوئی لٹیرا نہ ہوتا، مگر ایسا نہیں ہوا، قائداعظم تو قریب المرگ تھے سو مرگئے، مگر قائد کے دستِ راست لیاقت علی خان کو بھی گولی مار کر راستے سے ہٹادیا گیا اور پھر ’’لٹیروں‘‘ نے کھل کھلا کے آزادی کے خواب چکنا چور کرنا شروع کردیے، غریب مصیبت زدہ عوام اسی آس پر ہر آنے والے غم گسار کی طرف بڑھتے رہے، مگر کسی غمگسار نے ان کی غم گساری نہیں کی، ہر آنے والی رات کے بعد نئی رات آتی گئی اور پاکستان اجالوں کو ترستارہا، امیر لوگوں کے محلوں میں جگمگ جگمگ اجالے پھلتے رہے۔ جالب کے چار مصرعے

چند لوگوں کے ہاتھوں میں ہے زندگی
چھین لیتے ہیں، جب چاہتے ہیں خوشی
اونچے اونچے گھروں میں ہے جو روشنی
جل رہے ہیں ہمارے لہو کے دیے

ہم غریبوں کو اس بات پر لگادیا گیا ہے کہ ’’یہ دکھ درد، غم سب اﷲ کی طرف سے ہوتا ہے‘‘۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ اﷲ ایسا نہیں کرتا، یہ سارے دکھ، درد، غم اور مصیبتوں کے پہاڑ، ظالم و جابر غریبوں پر توڑتے ہیں۔

طیبہ! تجھ پر ظلم اﷲ نے نہیں کیا، تجھے اﷲ نے نہیں جلایا، تیرے جسم پر 22 زخم درندہ صفتوں نے لگائے ہیں۔

طیبہ! ہم نے آزاد پاکستان کا خواب دیکھا تھا، مگر ہم آزاد نہیں ہوئے، ہمیں آزادی نہیں ملی، اب تک غریبوں نے بہت دھوکے کھالیے ہیں، مگر اب غریبوں کو کوئی فریب نہیں دے سکے گا، یہ الیکشن، یہ سیاست، سب دغابازی ہے، فریب ہے۔ فیصل صالح حیات اور خالد احمد کھرل پھر پزپل پارٹی میں آگئے ہیں، بلاول بھٹو زرداری امریکا چلے گئے ہیں، وہاں سے وہ سندیسہ لے کر آئے گا اور لاہور سے فیصل آباد تک ریلی نکالے گا، نواز شریف نے آصف زرداری سے ملاقات کا کہا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ کیا انھی قلابازیوں کا نام سیاست ہے؟

یہ قلابازیاں یونہی جاری رہیںگی۔ پاکستان میں آوے کا آوا ہی اوت گیا ہے۔ بات یہیں پہ مکتی ہے کہ ہم ابھی آزاد نہیں ہے۔ ہمیں آزادی کے لیے ان ’’ظالموں لٹیروں‘‘ کے خلاف جنگ آزادی لڑنا ہوگی، اس جنگ کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، یہ 22 لاکھ خاندان، اپنے ظلم و ستم سے باز نہیں آئیں گے۔ کسی قانون سے، کسی حکومت سے، کسے عدالت سے یہ 22 لاکھ خاندان نہیں ڈرتے، جب جی میں آتا ہے، جہاں چاہتے ہیں، جدید ترین ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہیں، وزیراعلیٰ نوٹس لیتا ہے۔ ’’انھیں پکڑو‘‘ اور پھر آگے کچھ نہیں۔ یہ ظالم انسان تو انسان بے چاری بھیڑ بکریوں کو اونچائی سے دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ قربانی کے جانوروں کو ریل کی پٹڑی پر دھکیل دیتے ہیں، جہاں تیز رفتار ریل گاڑی ان بے زبانوں کی بوٹی کردیتی ہے، یہ ظالم غریبوں کے بچوں پر اپنے شکاری کتے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ظالم اپنے ذاتی جرگوں میں فیصلے سناتے ہیں۔ مولوی اس فیصلے پر اسلام کی مہر لگاتا ہے اور عدالتیں بے بس نظر آتی ہیں۔

نا پاکستان سے لفظ ’’نا‘‘ کے خاتمے کے لیے اور صرف پاکستان کے لیے ہمیں آزادی کی جنگ لڑنا ہوگی۔ عظیم انسان عبدالستار ایدھی بھی کہہ کر گئے ہیں ’’میں پاکستان میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں‘‘ معراج محمد خاں بھی ایسی ہی بات کرتے تھے۔ طیبہ کے جسم پر 22 زخم لو دے اٹھے ہیں۔ ان زخموں کی روشنی میں آزادی کی راہیں تلاش کریں۔ ورنہ یہ ساری تقریریں یہ ساری تحریریں لا حاصل، بے سود۔

تائید ستم گر ہے، چپ رہ کر ستم سہنا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔