مضبوط ادارے، مستحکم جمہوریت

اعزاز کیانی  پير 16 جنوری 2017
ہمارے اداروں کے پاس بڑی شخصیات کے خلاف کارروائی کا کوئی اختیار نہیں، بلکہ جن اداروں کو ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے وہی ادارے انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

ہمارے اداروں کے پاس بڑی شخصیات کے خلاف کارروائی کا کوئی اختیار نہیں، بلکہ جن اداروں کو ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے وہی ادارے انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

ایک ریاست کے اندر مختلف اداروں کی تشکیل میں بیک وقت کئی مقاصد ہوتے ہیں۔ ایک نئے ادارے کی تشکیل سے فوری طور پر عوام کے مختلف طبقات (یعنی پڑھے لکھے، کم پڑھے لکھے اور بالکل ان پڑھ) سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مختلف مراتب اور درجوں کے  روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جیسے کے سی پیک سے پاکستان میں سینکڑوں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، لوگ اپنی مدد آپ چینی زبان سکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور حکومت کی جانب سے بھی چینی زبان سیکھانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

اداروں کی تشکیل میں بنیادی اہمیت اِس بات کو حاصل ہوتی ہے کہ کیسے ریاست کے نظم و نسق کو بہتر سے بہترین بنایا جائے؟ کیسے ریاستی امور کو جلد از جلد اور احسن طریقے سے انجام دیا جائے؟ اور کیسے عوام کو بنیادی سہولیات، ضروریات اور حقوق فراہم کیے جائیں؟ اداروں کی تشکیل کے وقت بنیادی اصول اور ضوابط کے ساتھ اداروں کی حدود و اختیارات کا بھی خوب خوب تعین کیا جاتا ہے تاکہ مختلف اداروں میں باہمی ٹکراؤ کی صورت پیدا نہ ہو۔ اداروں کی تشکیل کے بعد بنیادی اہمیت اور توجہ اس بات پر صرف کی جاتی ہے اور فی الواقع کی بھی جانی چاہئیے کہ ادارے مکمل بااختیار بھی ہوں اور اداروں کا مجموعی نظام صاف و شفاف بھی ہو۔ ایک ریاست کے اندر ریاستی ادارے نہ صرف حکومتی رٹ کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ حکومتی کارگردگی کا اظہار بھی کرتے ہیں۔

اداروں کی تشکیل کے بنیادی ضوابط اور اصول سمجھ لینے کے بعد اگر پاکستانی اداروں کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال مایوس کن ہے۔ کرپشن، رشوت، سفارش، اختیارات کا بے جا استعمال اور سیاسی اثر و رسوخ تو گویا ہمارے نظام کی رگ و جاں میں سرائیت کرچکے ہیں۔ ہمارے ہاں اگرچہ اداروں کی تشکیل کے وقت اداروں کو مکمل غیر جانبدار اور کلی مختار بنایا جاتا ہے لیکن عملی طور پر صورتحال اِس سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے اداروں کے پاس کسی بھی بڑی شخصیت کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیار ہی نہیں، بلکہ معاملہ تو یہ ہے کہ جن اداروں کو ایسے افراد کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے وہی ادارے ایسے افراد کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔

اِس حقیقت کا اعتراف سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس عظمت سعید شیخ نے نیب کے پلی بارگین کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 250 روپے کی کرپشن کرنے والے کلرک کو تو جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن اربوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے تو فقط ایک مثال کو حوالہ بنایا لیکن ایسے ہی درجنوں واقعات ہم خود صبح و شام اخبارات اور ٹی وی میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ درجنوں ایسے واقعات براہِ راست خود ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں جو آئے روز قانون و انصاف کی اس تفریق و امتیاز کا شکار ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ہی پانامہ کرپشن اسکینڈل کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے نہ صرف نیب اور دوسرے اداروں کی کارگردگی پر سوال اٹھایا بلکہ برہمی کا اظہار بھی کیا اور اِس بات کا اقرار کیا کہ ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہے۔

یہ بات کون نہیں جانتا کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑے چیلنج دہشت گردی اور کرپشن ہے اور اِن دونوں چیلنجز سے نمٹنے والے اداروں کی روداد آپ نے جان لی اور یہ کسی مخالف سیاسی جماعت کا بیان یا اخباری رپورٹ نہیں ہے بلکہ ملک کی سپریم کورٹ کے الفاظ ہیں جو دورانِ سماعت ادا کیے گئے ہیں۔ اگر انتخابی نعروں کی بات کی جائے تو پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتیں کرپشن سے بھرپور نفرت کا اظہار کیا کرتی ہیں اور اِسے جڑ سے ختم کرنے کا وعدہ بھی کرتی ہیں، یہی نہیں بلکہ یہی جماعتیں کسی نہ کسی صورت خود کو جمہورت کی چمپئن بھی قرار دیتی ہے لیکن تلخ حقائق یہ ہیں یہ محض ہاتھی کے دانت ہیں جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہیں۔

یہ تو پاکستان کے چند بڑے اداروں کی نہایت تازہ مثالیں ہیں، باقی وہ ادارے جن کے ساتھ عوام کا برائے راست واسطہ پڑھتا ہے خود اپنی ذات میں ایک الف لیلا ہیں مگر یہ صفحات باخوف طوالت اُن کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لیکن اخبارات، ٹی وی اور ذاتی مشاہدے سے ہر ہر شخص حقیقت حال سے خوب خوب واقف ہے۔ پاکستانی عوام (بشمول سیاست دانوں) کا تصور جمہوریت نہائیت محدود ہے جو محض انعقاد الیکشن تک ہی محدود ہے حالانکہ محض بروقت انتخاب منعقد ہونا ہرگز کُل جمہوریت نہیں ہے، کیونکہ انتخابات اور ریفرنڈم تو دورِ آمریت میں ہوتے رہے لیکن ایسے کسی بھی انتخابی عمل کو آج تک شرف قبولیت حاصل نہیں ہوسکا۔ دورِ آمریت کے انتخابی عمل کو شرف قبولیت حاصل نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آمریت شخص واحد کی حکومت ہوتی ہے جس میں افراد اور اداروں سے آزادی، خودمختاری اور غیر جانب داری چھین کر فردِ واحد سے وفاداری کا حلف لیا جاتا ہے اور من پسند نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔

اِس لیے مجھے کہنے دیجیے کہ مضبوط ادارے ناصرف جمہوریت کو آمریت سے ممتاز کرتے ہیں بلکہ مضبوط ادارے ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ اگر ادارے صاف شفاف اور غیر جانبدار ہوں گے تو ریاست کا مجموعی نظام بہتر ہوگا، تبھی عوام کا ریاست اور ریاست کے اداروں پر اعتماد بحال ہوگا جس سے معاشرے میں رائج ناجائز ذرائع سے کام نکلوانے کا عملی طور پر سدِباب ہوسکے گا۔

پاکستان میں اداروں کی موجودہ صورت ہی اگرچہ خود ایک المیہ ہے لیکن اِس پر مزید المیہ یہ کہ حکام بالا اور ہمارے سیاست دانوں کی اِس جانب نہ صرف توجہ ہی نہیں ہے بلکہ انہیں اپنی اِس ذمہ داری کا احساس تک نہیں ہے تو گویا

حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں
اعزاز کیانی

اعزاز کیانی

بلاگر آئی ٹی کے طالبعلم ہیں، انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔