افغانستان داخلی امن پر توجہ دے

ایڈیٹوریل  منگل 17 جنوری 2017
۔ فوٹو؛ فائل

۔ فوٹو؛ فائل

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں، الزام تراشی سے خطے میں امن دشمن عناصر مضبوط ہوتے ہیں، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان، افغانستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے افغان صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کر کے کابل میں دہشت گرد حملوں پر افسوس اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا۔

ان خیالات کا اظہار جنرل قمر باجوہ نے ایسے زمینی حقائق کے حوالہ سے کیا جب کہ افغانستان کو شدید داخلی عدم استحکام ، طالبان و دیگر فورسز کی مزاحمت اور ہولناک خود کش حملوں کا سامنا ہے، ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کے عہد صدارت کا ورثہ عجیب ہے ۔ انھوں نے روایتی امریکی جنگجوازم اور ملٹری ایڈونچر سے گریز تو کیا مگر ساتھ ہی افغانستان کو امن اور استحکام دیے بغیر رخصت ہورہے ہیں۔

گویا اس کا نفسیاتی اثر افغانستان کی داخلی سیاست پر منفی پڑا ہے اور صدر اشرف غنی خطے کی حرکیات کا ادراک کیے بغیر بھارتی شہ پر پاک افغان تعلقات  میں خیر سگالی کا کوئی امکان تلاش کرنے پر تیار نہیں، اس منفی طرز فکر اور انداز سیاست کے باعث افغان سیاسی معاملات مسلسل انحطاط پذیر ہیں اور پاکستان کے خلاف بلیم گیم سے نکلنے کے لیے کوئی عالمی طاقت ایسی نہیں ہے جو امن کے گریٹر کاز کا افغان حکام کو یقین دلائے اور اسے پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرنے پر آمادہ کرے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد وزیر دفاع جنرل میٹس ایک طرف دہشتگرد عناصر کے خلاف کارروائیوں کو سراہتے ہیں اور اس عمل میں پاکستان کی مدد کرنے کی پیشکش بھی کرتے ہیں دوسری طرف خبردار کرتے ہیں کہ پاکستان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مزید اقدامات کرے ۔

یوں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکی فورسز اور نیٹو کمانڈروں کی تبدیلیوں کے باوجود امن ایک خواب پریشاں  ہے، طالبان کے حملے جاری ہیں، گزشتہ روز ایک بم دھماکے میں 3 بچوں سمیت 7افراد جاں بحق ہوئے، افغان سیکیورٹی فورسز نے 50 جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ، فورسز نے داعش کو ضلع پچرا گام سے پسپا کرنے کا بھی دعویٰ کیا ، صورتحال اتنی خراب ہے کہ افغان خواتین نے شدت پسندوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے ہیں، ہلاک شدگان میں ایک خاتون بھی شامل ہے جب کہ جنگجوؤں نے 13اساتذہ کو اغوا کیا، قبل ازیں10 جنوری کو پارلیمنٹ اور گورنر آفس قندھار پر حملے کے نتیجے میں 41 افراد جاں بحق اور متحدہ عرب امارات کے سفیر سمیت96 زخمی ہوئے۔اس حملہ کی ذمے داری طالبان نے قبول کی۔

اسی تناظر میں جنرل قمر باجوہ نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑی ہے، دہشت گردی کے تمام محفوظ مراکز تباہ کردیے گئے ہیں، آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کو ضرب عضب کی کامیابیوں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے مؤثر سرحدی انتظام اورانٹیلی جنس تعاون کی تجویز بھی دی ۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے نیک خواہشات کے اظہار پرآرمی چیف کا شکریہ ادا کیا اور خطے میں قیام امن کے لیے انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہارکیا۔ جنرل قمر باجوہ کا کہنا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف محض حقیقی جنگ ہی نہیں ، یہ بیانیوں کی جنگ بھی ہے،ان ہی خطوط پر آرمی چیف نے اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہے، پاکستان انتہائی نیک نیتی سے افغان حکام اور خاص طور پر صدر اشرف غنی کو دوطرفہ بنیادوں پر امن کے حصول کی بارہا پیشکش کرچکا ہے، مگر اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان مخاصمانہ پالیسیوں سے گریز کرے، امن کاز کو آگے بڑھانے میں پاکستان کے اخلاص کو ٹھکرانے اور دوسروں کے بہکاوے میں آکر امن کو بلڈوز کرنے کی خواہاں قوتوں کا آلہ کار نہ بنے۔ پاکستان کو بدنام کرنے کی جو روش اختیار کی گئی ہے۔

اس کا اندازہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ پر شرپسندوں کے حملے سے لگایا جا سکتا ہے، خبروں کے مطابق افغان انٹیلی جنس ادارے کے سابق سربراہ کی قیادت میں سفارت خانہ میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کرنے کی کوشش کی گئی، افغان پولیس چیف جنرل عبدالرزاق نے پاکستان پر الزامات عائد کیے جس کا بروقت جواب پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے بہت واضح طور پردیا، انھوں نے دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دنیا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے،انھوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیگا، نہ ہی مخالفانہ بیان بازی کا حصہ بنے گا۔ لیکن دوطرفہ مفاہمت وسیع النظری کا تقاضہ کرتی ہے، افغان حکام اپنا دل صاف رکھیں ۔ طورخم بارڈرمینجمنٹ کے تحت موثر مانیٹرنگ دونوں ملکوںکے مفاد میں ہے جب کہ امن و استحکام کے لیے ہر طرح کا بلیم گیم بند ہونا چاہیے۔ دنیا پاک افغان سرحد پر پاکستان کے آپریشن ضرب عضب کے مثبت نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، دوطرفہ تعلقات کی تلخی پاکستان اور افغانستان کے قطعی مفاد میں نہیں بس اسی چیز کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔