جے ہو ماؤزے تنگ کی…

وسعت اللہ خان  منگل 17 جنوری 2017

’’ آسمان تلے زبردست اتھل پتھل ہے ، حالات شاندار ہیں‘‘

ماؤزے تنگ نے یہ حالاتی تجزیہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے کیا تھا۔آپ نے دیکھا پھر کیا ہوا۔آج اسی برس بعد پھر مجھے ماؤ کا یہ تاریخی مقولہ یاد آ رہا ہے کیونکہ بیس جنوری میں صرف تین دن باقی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ حلف اٹھائیں گے اور اکیسویں صدی کی دنیا اتھل پتھل کے شاندار دور میں کم ازکم اگلے چار برس کے لیے داخل ہو جائے گی۔

کل یہ خبر بھی آئی کہ امریکا میں ایک سو چھیالیس برس سے جاری شہرہِ آفاق ’’ دی گریٹسٹ شو آن ارتھ ’’ نامی سرکس نے اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا اعلان کیا ہے۔مئی میں اس کا آخری شو ہوگا۔کیونکہ ہاتھیوں کی کرتب بازی جو اس سرکس کی جان تھی وہ جانوروں سے محبت کرنے والوں کی لابی کے دباؤ میں ختم ہوگئی ہے اور سرکس خسارے میں جا رہا ہے۔ویسے بھی ہاتھی کے ری پبلیکن انتخابی نشان پر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہوتے کسی اور سرکس کی گنجائش کم ہی بچی  ہے۔

مجھے سوشل میڈیا پر وائرل آنجہانی فیدل کاسترو کا یہ غیر مصدقہ قول بھی یاد آرہا ہے کہ ’’ امریکا نے مجھے مارنے کی ساڑھے چھ سو سے زائد کوششیں کیں مگر میں امریکی زوال کا آغاز دیکھے بغیر اس دنیا سے جانے کا نہیں’’۔آٹھ نومبر کو ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے اور پچیس نومبر کو کاسترو اس دنیا سے پرسکون رخصت ہوگئے۔

حالانکہ ابھی ٹرمپ کو باضابطہ صدر بننے میں بہتر گھنٹے اور لگیں گے مگر سرکس چالو ہو چکا ہے اور انھوں نے تاریخ میں اپنا مقام بنانا شروع کر دیا ہے۔وہ پہلے منتخب امریکی صدر ہیں جنھوں نے جانے والے امریکی صدر اوبامہ پر الزام لگایا کہ وہ میری کردار کشی کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔

وہ پہلے منتخب صدر ہیں جنھوں نے امریکی حکومت کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیے جانے کی قرارداد کی متفقہ منظوری روکنے کے لیے اسرائیل کے حق میں ویٹو استعمال نہ کرنے کے فیصلے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کو کھلے عام ٹویٹرانہ تسلی دی کہ چند روز اور صبر کر لیں ، بیس جنوری کے بعد حالات بدل جائیں گے۔اس دوران پیرس میں مسئلہ فلسطین پر ساٹھ سے زائد ممالک کی کانفرنس نے ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ اگر امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا گیا تو خطے میں نئی تباہ کن صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔ٹرمپ نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ ایران سے ہونے والے بین الاقوامی جوہری سمجھوتے کی امریکی کانگریس میںباضابطہ توثیق روکنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ناٹو کے ضابطہِ کار سے بھی مطمئن نہیں۔بقول ان کے سرد جنگ کی تاریخ میں گڑے اس معاہدے پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ناٹو اب محض امریکا پر تکیہ نہیں کر سکتا۔ رکن ممالک کو اپنا فوجی خرچہ خود اٹھانا ہوگا۔

یورپ سے ٹرمپ کے تعلقات کیسے ہوں گے ؟ اس کی  تازہ جھلک یہ ہے کہ انھوں نے یورپ کے سب سے طاقتور ملک جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمنی کی جانب سے لاکھوں پناہ گزینوں کے لیے دروازے کھول دینا جرمنی کے لیے ایک تباہ کن پالیسی ہے۔

ٹرمپ پہلے منتخب صدر ہیں جنھوں نے اپنے ہی ملک کے سرکردہ انٹیلی جینس ادارے سی آئی اے پر الزام لگایا ہے کہ وہ روس کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی چھان بین جس طرح کر رہا ہے اس سے جرمن نازی دور کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ٹرمپ پہلے منتخب صدر ہیں جنھیں سی آئی اے کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جان برینن نے برملا مشورہ دیا ہے کہ وہ روس کے بارے میں امریکی اداروںکے تجزیے کھلے عام چیلنج کرنے میں احتیاط برتیں۔حساس معاملات پر ٹویٹر کے ذریعے خیالات کا اظہار نہ کریں اور بہتر ہوگا کہ منہ کھولنے سے پہلے اس احتیاط کا مظاہرہ کریں جس کا متقاضی امریکی صدارت کا عہدہ ہے۔

حالانکہ چینی ایک ایک لفظ احتیاط سے چننے اور  نپے تلے انداز میں اپنی رائے کا اظہار کرنے میں مشہور ہیں مگر ٹرمپ کے چین کے بارے میں مسلسل منفی بیانات بالخصوص یہ دھمکی کہ بحیرہ جنوبی چین میں چین کی فوجی نقل و حرکت کو روکنا ہوگا، نے چین کو بھی اس قدر بدکا دیا کہ اسے غیر سرکاری طور پر کہنا پڑا کہ اگر امریکا نے بحیرہ جنوبی چین کے خطے میں کسی اوندھی سیدھی مہم جوئی کی کوشش کی تو پھر جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔

ماحولیات کی ابتری سے متعلق نومبر دو ہزار پندرہ میں پیرس میں ہونے والی عالمی سربراہ کانفرنس میں امریکا نے اپنی ماحولیاتی پالیسی میں تبدیلی کے جو وعدے کیے۔ٹرمپ دور میں ان وعدوں کی دھجیاں بکھر سکتی ہیں کیونکہ ٹرمپ کا خیال ہے کہ ماحولیاتی ابتری سے متعلق بیشتر سائنسی تجزیات محض ایک ڈھکوسلہ ہیں۔ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی امریکی تیل کمپنیوں کو ان علاقوں میں بھی تلاش کے حقوق ملنے کا قوی امکان ہے جہاں اس طرح کی سرگرمیوں میں بڑھاوے سے مزید ماحولیاتی ابتری ہو گی۔جیسے الاسکا اور قطبِ شمالی وغیرہ۔

ٹرمپ پہلے منتخب صدر ہوں گے جن کی حلف برداری کے ایک دن بعد ہی واشنگٹن میں شہری حقوق کی دو سو سے زائد امریکی تنظیمیں نسلی و جنسی و مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں خدشات کے برملا اظہار کے لیے ایک ریلی منظم کر رہی ہیں۔ توقع ہے کہ اس میں ملک کے کونے کونے سے ایک ملین سے زائد شہری شریک ہوں گے۔

ٹرمپ پہلے شخص ہیں جن کی انتخاب جیتنے کے بعد بحیثیت صدر پہلی پریس کانفرنس میں ہی ہنگامہ ہوگیا جب وہ سی این این کے ایک رپورٹر کے اس سوال پر طیش میں آگئے کہ اس بارے میں کیا خیال ہے کہ آپ کی نجی زندگی کے بارے میں حساس تصاویر تک روسی انٹیلی جینس کو رسائی مل گئی ہے اور ان تصاویر کو بلیک میلنگ کے لیے بھی استعمال کرنے کا خطرہ ہے۔ٹرمپ نے کہا تم ایک جعلی خبری ادارے کے جعلی صحافی ہو۔اسی پریس کانفرنس میں انھوںنے بی بی سی کے رپورٹر کو بھی ایک غیر ذمے دار ادارے کا غیر ذمے دار صحافی قرار دیا۔جب سی این این کے صحافی نے پریس کانفرنس کے بعد وائٹ ہاؤس کے نامزد ترجمان شون سپائسر سے ٹرمپ کے رویے کا رونا رویا تو شون نے ان کی ’’ دلجوئی ’’ کرتے ہوئے کہا شکر کرو تمہیں انھوں نے نکالا نہیں۔

کوئی بھی امریکی صدر عہدے کی مدت کے دوران اپنا ذاتی کاروبار نہیں کر سکتا۔مبادا فیصلے کرتے وقت ذاتی کاروباری مفادات کا ریاستی مفادات سے ٹکراؤ نہ ہو جائے۔اسے اپنا کاروبار ایک بلائنڈ ٹرسٹ کے حوالے کرنا پڑتا ہے۔ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی تمام کاروباری ذمے داریاں اپنے بیٹے کو منتقل کر رہے ہیں تاکہ ان کے کمرشل مفادات اور سرکاری مفادات میں ٹکراؤ نہ ہو۔اس اعلان پر نہ صرف ان کے مخالف بلکہ حامی بھی گنگ رہ گئے ہیں۔

جہاں تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ٹرمپ دور سے توقعات کا سوال ہے تو وہ آج بھی یہی گا رہی ہے کہ ’’مرغی کیا جانے انڈے کا کیا ہوگا، لائف ملے گی یا توے پے فرائی ہوگا، کوئی نہ جانے اپنا فیوچر کیا ہوگا، ہونٹ گھما سیٹی بجا، سیٹی بجا  کے بول، بھئیا آل از ویل…

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔