لیگل جرنلزم…

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 17 جنوری 2017

شرح خواندگی میں کمی پاکستانی قوم کو درپیش نہایت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان کے کروڑوں بچے یا تو اسکول جاتے ہی نہیں یا پانچویں جماعت پاس کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ مستقبل کا معمار بننے کے لیے نئی نسل کے جو بچے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں جارہے ہیں انھیں بالعموم معیاری تعلیم میسر نہیں ہے۔ اسکول کی سطح پر اچھی ایجوکیشن نہ مل پانے کا مطلب یہ ہے کہ بنیاد ہی کمزور پڑ رہی ہے۔ میٹرک پاس کرنے والے لاکھوں بچوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک درخواست بھی ٹھیک طرح نہیں لکھ سکتے۔اسکول کی سطح پر معیاری تعلیم نہ مل پانے کے منفی اثرات یونیورسٹی میں دی جانے والی تعلیم پر بھی پڑتے ہیں۔

پاکستانی نوجوانوں کو  قدرت نے بہت ذہانت سے نوازا ہے لیکن معیاری تعلیم کی عدم فراہمی کئی نوجوانوں کو ذہانت کے درست استعمال سے محروم رکھے ہوئے ہے۔ معاشی میدان میں ترقی ، سماجی بہبود، عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے اورعالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرنے کے لیے  معیاری تعلیم کی فراہمی لازمی شرط ہے۔گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم کی نئی نسل کو معیاری تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے میں پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ ایک مسئلہ اور ہے ، ہمارے ہاں صرف معیاری تعلیم کا فقدان ہی نہیں ہے ، بلکہ مستقبل کے لیے  قوم کے تعلیمی ضروریات کے ادراک سے بھی لاپرواہی نظر آتی ہے۔ سیکنڈری اسکول اور ہائی اسکول کے بعد بے شمار نوجوان طالب علم اپنے لیے کسی شعبے کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔  اس انتہائی اہم معاملے پر حکومتوں نے اور ملک کے دیگر ادراوں نے نوجوان طالب علموں کی رہنمائی کے لیے اداراتی سطح پر کوئی اہتمام نظر نہیں آتا ۔

حصول تعلیم کے لیے ہمارے معاشرے میں  تصورات (Perceptions) کے حوالے سے بھی کئی مسائل موجود ہیں ۔ ہمارے اکثر والدین کی پہلی ترجیح  اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا ہی ہے۔ میڈیسن، انجینئرنگ، بزنس اور آئی ٹی سے ہٹ کر ہیومنیٹیز کے کئی مضامین نوجوان طالب علموں اور ان کے  والدین کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔ قانون، پولیٹکل سائنس، سوشیالوجی، ایجوکیشن، جرنلزم، فلسفہ، تاریخ جیسے مضامین ہائی اسکول میں اے اور بی گریڈ لینے والے اکثر طالب علموں کی ترجیح نہیں ہیں۔

ہمارے ہاں معاشرے اور ملک کے لیے کئی دہائیوں پہلے پلاننگ کا کوئی تصور بھی موجود نہیں ، چنانچہ مستقبل میں معاشرے کی کئی ضروریات کا مختلف سطحوں پر درست ادراک ہی نہیں کیا جاتا۔ ہمیں سائنس، بزنس، آئی ٹی اور ہیومنیٹیز وغیرہ کے شعبوں میں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ماہرین کی ضرورت ہے ۔ آنے والے برسوں میں یہ ضروریات بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔

پاکستان میں تیزی سے فروغ پذیر ایک شعبہ صحافت یا جرنلزم بھی ہے۔ پاکستان کی کئی جامعات  میں صحافت  یا ابلاغِ عامہ، ماس کمیونیکیشن کے شعبے قائم ہیں۔ ان جامعات سے ہر سال بڑی تعداد میں طلبہ طالبات فارغ التحصیل ہوکر شعبہ صحافت میں عملی شمولیت کے لیے دستیاب ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اخبارات کے ایڈیٹرزکی جانب سے اکثر سننے میں آتا ہے کہ انھیں  اچھا سب ایڈیٹر نہیں مل پارہا۔ رپورٹنگ ، سب ایڈیٹنگ اور دیگر شعبوں میں پڑھے لکھے کوالی فائیڈ افراد تو موجود ہیں لیکن کئی اخبارات کے ایڈیٹرز ان کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

اے پی این ایس اور سی پی این ای کے ارکین اور دیگر صحافی دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں میں اس موضوع پر بات ہوتی ہے تو میں اس انحطاط کے اسباب پر غور کرتا ہوں۔  ایک وجہ تو میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ہمارے کئی اسکولوں  اور کالجوں میں طالب علموں کو معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جارہی۔ اس لیے یونیورسٹی کی سطح پر دی جانے والی تعلیم بھی طالب علم کو مطلوبہ اہلیت یا ہنر کا حامل نہیں بنارہی۔ دوسری وجہ میری نظر میں یہ ہے کہ عملی زندگی میں شمولیت کے بعد تعلیم و تربیت کا سلسلہ اکثرکیسز میں جاری نہیں رہ پاتا۔ ہمارے ملک میں سوائے میڈیکل سائنس کے کسی اور شعبے میں بعد از گریجویشن تعلیمی تسلسل کا اہتمام نہیں تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے  پاکستان انجینئرنگ کونسل نے بھی CPD کے زیر عنوان  اس جانب توجہ دی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ Continuous Medical Education (CME) کی طرح ہر شعبہ میں مسلسل تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔

شعبہ صحافت میں روز بروز نئے نئے اضافے ہورہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کی رسائی بڑھتی جارہی ہے۔ موجودہ دور میں صحافیوں کے لیے آگہی اور تعلیم کے مسلسل پروگراموں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ اس عمل کو Countinuous Journalism Education (CJE) یا میڈیا ایجوکیشن کا نام بھی دیا جا سکتا ہے لیکن میری نظرمیں اس کا ٹائٹل CJEزیادہ مناسب ہے۔ چار صدی پہلے صحافت کا آغاز برطانیہ سے 1702ء میں اشاعت کا آغاز کرنے والے روزنامہ The Courant سے ہوا تھا۔ اس سے قبل جرمنی میں ایک اخبار 1605میں شایع ہونا شروع ہوا تھا لیکن یہ روزنامہ نہیں تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں ریڈیو اور بعد ازاں 1950ء میں ٹیلی ویژن بھی باقاعدہ طور پر شعبہ صحافت کا حصہ بنتے گئے ، آج اس شعبے کو بعض حلقے میڈیا کا نام دیتے ہیں لیکن خبر اور ادارتی صفحہ یا خبر کی بنیاد پر نقطہ نظر سے وابستہ شعبہ دراصل صحافت ہی ہے۔

پاکستان میں شعبہ صحافت میں مسلسل تعلیم کا خیال میں نے سی پی این ای  اسکل ڈیولپمنٹ کمیٹی کے ارکان کے سامنے پیش کیا۔ ساتھیوں کا ردعمل بہت حوصلہ افزا تھا۔ خاص طور پر سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق نے  نا صرف یہ کہ اس خیال کو سراہا بلکہ اس کے لیے اپنے مکمل تعاون کی پیش کش بھی کی۔  چند ماہ پہلے صحافیوں کے لیے مزید تعلیم کا یہ خیال میں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف لاء SZABUL کے بانی وائس چانسلر جسٹس (ر) قاضی خالد علی کے سامنے رکھا۔ جسٹس صاحب  نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مجھے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ میں نے جسٹس صاحب سے درخواست کی کہ سی پی این ای کے رکن اخبارات اور دیگر خواہش مند طالب علموں کے لیے SZABUL کے زیر اہتمام لیگل جرنلزم کے کورسز منعقد کیے جائیں۔ سی پی این ای کی اسکل ڈیولپمنٹ کمیٹی کے اجلاس میں سی پی این ای اور SZABUL کے علمی اشتراک کا منصوبہ پیش کیا گیا ۔ اراکین SDC نے اس  تجویز کو سراہا اور اپنی قیمتی آراء پیش کیں ۔

یونیورسٹی اور سی پی این ای کے درمیان باہمی رابطوں کی ذمے داری جسٹس صاحب نے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر  فنانس عامر بشیر کو سونپی۔ یونیورسٹی کے رجسٹرار شرف علی شاہ، ڈین رخسار احمد اور عامر بشیر نے وائس چانسلر کی رہنمائی میں شعبہ قانون میں صحافیوں کی تعلیم کے لیے  بنیادی خطوط مرتب کیے ۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر، سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق اور صدر ضیاء شاہد کی مشاورت سے مفاہمت کی ایک یادداشت (MoU) تیار کی گئی۔ سی پی این ای کی اسکل ڈیولپمنٹ کمیٹی سے توثیق کے بعد جمعرات 12 جنوری کو اس MoU پر دستخط ہوگئے۔

جسٹس (ر) قاضی خالد علی نے اس مفاہمت پر دستخط کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اس پروگرام کے تحت جامعہ میں صحافیوں کی تربیت اور استعداد میں اضافے کے لیے ورکشاپ، سیمینار، لیکچرز، سرٹیفیکٹ اور ڈپلومہ کورسز منعقد کیے جائیں گے۔ لیگل جرنلزم کے پروگراموں میں  پاکستان کے معروف قانون دان، ججز اور دیگرمعروف شخصیات کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک سے بھی اساتذہ کو مدعو کیا جائے گا۔ اس تقریب سے سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، سندھ کے نائب صدر عامر محمود ، سینئر رکن قاضی اسد عابد، راقم الحروف اور یونیورسٹی کے رجسٹرار شرف علی شاہ اور عامر بشیر نے بھی خطاب کیا۔

توقع ہے کہ مذکورہ بالا پروگرام پاکستان میں صحافیوں اور سب ایڈیٹرز کی پیشہ ورانہ استعداد میں اضافے کے لیے معاون ہوگا۔ اس پروگرام سے اخباری ادارے ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نیوز ڈیپارٹمنٹ استفادہ کرسکیں گے۔ امید ہے کہ پروفیشن میں شمولیت کے بعد مسلسل تعلیم کے ذریعے  استعداد میں اضافے کی یہ کوشش سی پی این ای کی جانب سے شعبہ صحافت کے لیے ایک ذمے داری کی ادائی کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔