سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ

آن لائن  منگل 17 جنوری 2017
 پراسیکیوٹرزملزمان کے حق میں بول رہے ہیں، ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی طارق عزیزاورایس پی عبدالرحیم شیرازی غائب ہیں،وکلا
فوٹو: ایکسپریس/فائل

 پراسیکیوٹرزملزمان کے حق میں بول رہے ہیں، ڈی آئی جی رانا عبدالجبار، ایس پی طارق عزیزاورایس پی عبدالرحیم شیرازی غائب ہیں،وکلا فوٹو: ایکسپریس/فائل

 لاہور:  سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کے حوالے سے گزشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج چوہدری محمد اعظم نے کہا کہ اس انتہائی اہم کیس کی سماعت اب روزانہ کی بنیادپرہوگی۔

عوامی تحریک کے وکلا نے استغاثہ کے حوالے سے اپنی بحث اور دلائل کوآگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ 17جون 2014 کے دن کارکن تنزیلہ امجد کا پہلا قتل سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر  طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے دروازے پر ہوا پولیس والے زبردستی گھرکے اندر داخل ہوناچاہتے تھے کہ خواتین نے ہاتھوں کی چین بنارکھی تھی، ڈی آئی جی رانا عبدالجبار نے کہاکہ میں3تک گنتی گنوں گاخواتین نہ ہٹیںتوفائرنگ کردی جائے گی اورپھر ایسا ہی ہوااور گولیوں کی بوچھار تنزیلہ امجدکے چہرے کے آر پار ہو گئی اور وہ موقع پر شہید ہوگئیں۔ ۔

عوامی تحریک کے وکیل رائے بشیرایڈووکیٹ نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اگر بیریئر ہٹانے کے لیے آئی تھی تو سربراہ عوامی تحریک کے دروازے پر کون سے بیریئر لگے تھے،  بیریئر ہٹانے کے حوالے سے پولیس کو کسی مزاحمت کاسامنا نہیں تھا پولیس سیاسی مقاصدکے تحت قتل وغارت گری کے لیے آئی تھی۔ عوامی تحریک کی طرف سے نعیم الدین چوہدری ایڈووکیٹ، لہراسپ خان ایڈووکیٹ، اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ، یاسرایڈووکیٹ، مستغیث جواد حامد اورعوامی تحریک کے سیکریٹری اطلاعات نوراللہ صدیقی بھی عدالت میں موجود تھے۔ عوامی تحریک کی طرف سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کی پوسٹ مارٹم رپورٹس اور زخمیوں کے ایم ایل سی جمع کرائے گئے۔

رائے بشیر ایڈووکیٹ نے کہاکہ پولیس ڈاکٹرطاہرالقادری کی رہائش گاہ اورمنہاج القران سیکریٹریٹ کے اندرداخل ہونے پر بضد کیوں تھی جبکہ بیریئران دونوں عمارتوں سے دور تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔