انعام،کالانعام اور برداشت

سعد اللہ جان برق  منگل 17 جنوری 2017
barq@email.com

[email protected]

جناب وزیراعظم نے بڑی زبردست بات کہی ہے بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ اس بات کو 2017 کا پہلا ’’قول زرین‘‘ قرار دے کر باقاعدہ دستار بندی یا تاج پوشی کا سلسلہ چلا دیں لیکن یہاں وہاں کے ’’غیر غمازوں‘‘ سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے، خدا نخواستہ اگر ہم نے ان کے اس قول زرین کا ڈنکا بجا دیا اور یہاں وہاں گلی کوچوں سے پتھر آنے لگے تو وزیراعظم نے بھی تو ہم سے اپنا ہر ناتا توڑ رکھا ہے، حتیٰ کہ وہ ٹیلی پیتھی کا سلسلہ ہم یک طرفہ طور پر چلا رہے تھے اس پربھی مستقل ’’نو آنسر‘‘ آرہا ہے۔

اس لیے اندیشہ ہائے دور دراز سے بچتے ہوئے ہم اس قول زرین پر ذرا سموتھ انداز میں عش عش کررہے ہیں، فرمایا ہے بیچ اخبار کے جناب وزیراعظم نے کہ ’’ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی جمہوریت ہے‘‘ وہ تو ہمیں پتہ ہے کہ وہ یہ بات خصوصی طور پر ’’کس‘‘ سے کہہ رہے ہیں کیوں کہ اگلے جملے میں بلی کا سر تھوڑا سا تھیلی سے جھانکنے لگا ہے … کہ ’’ہم میثاق جمہوریت پرسختی سے قائم ہیں‘‘ یہاں قریباً وہی صورت حال کہ بیٹی تم سے کہہ رہی ہوں لیکن سنانا بہو کو ہے، بہو سنے یا نہ سنے لیکن بیٹی نے سن لیا ہے بلکہ سن کیا لیا ہے بیٹی بے چاری تو گزشتہ ستر سال سے اس پر عمل پیرا بھی ہے ورنہ پاکستان میں جس قسم کی جمہوریتیں جس انداز اور جس جس حشر سامانی سے جلوہ گر ہوتی رہی ہیں وہ اگر فولاد کا بنا ہوا ہمالیہ بھی ہوتا تو اب تک بہہ کر بحرہند میں تہہ نشین ہو چکا ہوتا لیکن پاکستان کے عوام کی ’’برداشت‘‘ کے کیا کہنے کہ ان سب کو برداشت کیے جا رہے ہیں اور منہ سے اف بھی نہیں نکال رہے ہیں  ؎

جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے اشک غم

ایسا کوئی ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے

اور اس پر بھی جناب وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ جمہوریت ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا نام ہے یا ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی جمہوریت ہے۔ ویسے اصولی طور پر تو بات درست ہے لیکن ’’برداشت‘‘ کے لیے کبھی کبھی ہی سہی تھوڑا سا کاندھا بھی تو بدلنا چاہیے، یہ کیا کہ ایک ہی فریق ستر سال سے برداشت کیے جارہا ہے اور دوسرے کو پتہ بھی نہیں کہ برداشت کیا ہوتی ہے صرف اوپر بیٹھے بیٹھے ہی چابک مار کر… برداشت کر بیٹا +… یہ جمہوریت ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ وزیراعظم کا روئے سخن جن کی طرف ہے وہ ان کے ’’باری‘‘ کے ساجھے دار ہیں … اور عوام سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن ہم اتنی ہی گذارش کریں گے کہ ٹھیک ہے آپ ایک دوسرے کو بے شک صبر جمیل کی تلقین کرتے رہیے لیکن یہ بے چارے جو ستر سال سے ’’جتے ہوئے‘‘ ہیں ان کی ’’برداشت‘‘ کی بھی تو حد مقرر ہونی چاہیے، آپ بے شک باری باری کھیلتے رہیے لیکن ’’پاؤں‘‘ کے نیچے ہانپنے والے کالانعاموں کو بھی تھوڑا سا دم لینے دیا کیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بے چارے چلتے چلتے گر ہی پڑیں، کیا یہ ’’برداشت‘‘ کا شجر ممنوعہ صرف آپ ہی آپس میں بانٹتے رہیں گے یا کچھ ’’ادھر‘‘ بھی توجہ ہو گی۔

اگر انصاف کی بات کی جائے تو آپ صرف چار پانچ سال کی برداشت بھی نہیں رکھتے اور یہ بے چارے ستر سال سے صرف برداشت پر پل رہے ہیں۔ برداشت ہی ان کا کھانا بھی ہے اور پینا بھی، برداشت ہی اوڑھتے بھی ہیں اور دھوتے نچوڑتے بھی ہیں اور برداشت بھی وہ برداشت کہ برداشت بھی برداشت نہ کر پائے۔ اگر اجازت ہو تو ایک چھوٹی سی کہانی ہو جائے جو تقریباً ان ازلی ابدی جدی پشتی ’’کالانعاموں‘‘ جیسی ہے جو ستر سال سے برداشت کے تمام ریکارڈ چکنا چور کر چکے ہیں اور اپنی پیٹھ پر پانچ سالہ دس سالہ ’’برداشتوں‘‘ کو برداشت کررہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص کو ایک بیابان سے گزرنا تھا چنانچہ اس نے شہر میں ایک گدھا کرائے پر لیا، بیابان پار کرنے کے بعد مسافر نے تو واپس آنا نہیں تھا اس لیے گدھے کا مالک بھی ساتھ ہو لیا کہ منزل پر پہنچ کر اپنا گدھا اور کرایہ لے کر واپس آجائے گا۔

سفر شروع ہوا تو دوپہر کو جب ریگستان تندور کی طرح جلنے لگا تو دونوں کا گرمی سے برا حال ہو گیا اس پر مسافر نے گدھے کے سائے میں پناہ لی توگدھے کا مالک لڑ پڑا کہ میں نے تو گدھا کرائے پر دیا ہے اس کا سایہ نہیں اس لیے سائے پرمیرا حق ہے، دونوں میں تکرار دھکم پیل اور سر پھٹول ہونے لگی، مسافر کا کہنا تھا کہ اس نے گدھا کرائے پر لیا ہے تو سائے سمیت لیا ہے لیکن مالک انکاری تھا کہ کرایہ صرف گدھے کا طے ہوا ہے اور اس میں سایہ بالکل بھی شامل نہیں ہے کافی دیر تک ایک بیٹھتا تو دوسرا دھکا دے کر ہٹا دیتا اور خود گدھے کے سائے میں بیٹھ جاتا، اگر تھوڑی سی عقل استعمال کریں جو آپ میں بالکل بھی نہیں ہے ورنہ دیکھ لیتے کہ گدھے کا وہ سایہ پاکستان میں کرسی کہلاتا ہے، کچھ روز پہلے زرداری صاحب کے بیان سے بھی ایسا لگا تھا کہ ہم نے تم کو صرف سوار ہونے کے لیے باری دی تھی یعنی گدھا تو اپنی ملکیت ہے تم تو صرف کرایہ دار ہو۔ کہانی کا انجام کیا ہوا گدھے کا سایہ کس کا ہوا یہ آپ یقیناً جاننا چاہتے ہوں گے اور ہم بتائیں گے بھی لیکن توقع ہے کہ ’’ہمارا گدھا‘‘ اس گدھے جیسا شاید ہی کرسکے۔

کہانی کا کلائمکس یہ ہے کہ مالک اور کرایہ دار جب ’’سائے‘‘ کی ملکیت پر لڑنے لگے اور بات دھکم پیل تک پہنچی تو گدھا بے شک ’’انعام‘‘ تھا لیکن ’’کالانعام‘‘ نہیں تھا اس لیے بھاگ اٹھا، اور پلک جھپکنے میں یہ جا وہ جا کر ہو گیا، مالک اور کرایہ دار دونوں ہی سرپیٹ کر رہ گئے اور غالباً یہاں بھی ’’سواروں‘‘ کو احساس ہونے لگا ہے کہ گدھا کتنا ہی گدھا ہو جائے اتنا بھی گدھا نہیں ہوتا کہ جان بچانے کی فکر نہ کرے، اس لیے ’’برداشت‘‘ کی تلقین کی جارہی ہے۔ آخر میں اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ہمارا گدھا اس روز روز کی دھکم پیل اور دانتا کل کل سے تنگ آکربھاگ سکے گا ؟ مشکل ہے کہ گدھا آخر گدھا یعنی ’’انعام‘‘ ہوتا ہے ’’کالانعام‘‘ نہیں جسے ’’برداشت‘‘ کی رسی سے باندھا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔