جنگ کے خلاف جنگ

زاہدہ حنا  منگل 17 جنوری 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ 15 جنوری 1973تھی، جب اس وقت کے امریکی صدر نکسن نے شمالی ویتنام پر امریکی جنگی طیاروں کو بمباری روکنے کا حکم دیا، یوں پیرس میں اس خونی جنگ کے اختتام کے لیے امن مذاکرات کا آغاز ہوا جس نے لاکھوں ویتنامیوں کی رگوں سے لہو نچوڑ لیا تھا اور شمالی اور جنوبی ویتنام کے متعدد شہر اور بستیاں ملیامیٹ ہوگئے تھے۔ نصف لاکھ سے زیادہ امریکی نوجوان اس جنگ کا نوالہ بنے تھے اور ہزارہا معذور ہوکر اپنے گھروں کو لوٹے تھے۔

ویتنام کی لڑائی 1954میں شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ ایک ایسی جنگ میں تبدیل ہوگئی جو کسی بھی وقت ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی۔ جنوبی ویتنام کو امریکا اور شمالی ویتنام کو سوویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔ اس حمایت نے ساری دنیا کو مضطرب کردیا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب 90 برس کے بوڑھے اور بیسویں صدی کے سب سے بڑے فلسفی اور دانشور برٹرینڈرسل نے نامور فرانسیسی فلسفی اور ادیب ژاں پال سارتر، سیمون دی بووا اور دنیا کے دوسرے متعدد ادیبوں اور شاعروں پر مشتمل ایک ٹریبونل بنایا، جو دنیا کے 18 ملکوں کے نمایندوں پر مشتمل تھا۔

اس مقدمے میں امریکا کے جنگی جرائم کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس ٹریبونل میں ہماری قومی اسمبلی کے رکن، قانون داں اور دانشور محمد علی قصوری کے علاوہ بائیں بازو کے نوجوان دانشور طارق علی بھی شامل تھے۔ یہ ٹریبونل نومبر 1966میں قائم ہوا اور اسٹاک ہوم ٹریبونل کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس کے دو سیشن 1967 میں منعقد ہوئے۔ پہلا سوئیڈن کے شہر اسٹاک ہوم اور دوسرا راس کلڈ، ڈنمارک میں۔ اس ٹریبونل کی کارروائی ’ویتنام میں جنگی جرائم‘ کے عنوان سے 1967 میں شایع ہوئی، جسے رسل نے مرتب کیا تھا۔ یہ رپورٹ امریکا میں تقریباً نظر انداز کی گئی لیکن اس نے یورپ اور تیسری دنیا پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا، اردو بھی ان میں سے ایک تھی۔

اس دور میں ویتنام جنگ دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے جنگ دشمنی کا استعارہ بن گئی۔ امریکا جہاں جبری بھرتی کا قانون نافذ تھا، وہاں بھی بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے نوجوانوں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا اور اس جنگ میں شریک ہونے سے انکار کردیا۔ ان میں مشہور باکسر محمد علی کلے بھی شامل تھا۔ بہت سے نوجوانوں نے اس امریکی قانون کی خلاف ورزی کے سبب جیل کاٹی اور متعدد امریکا چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہی کا معاملہ تھا۔

نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ہم ہزاروں میل دور ہند چینی میں لڑی جانے والی ایک جنگ میں قتل و غارت گری کے لیے کیوں شریک ہوں۔ ویتنامیوں نے امریکی سرزمین پر حملہ نہیں کیا ہے تو اس کا بھلا کیا جواز بنتا ہے کہ ہم ان کے وسائل اور ان کی زمین پر قبضے کے لیے ان پر حملہ آور ہوں۔ اسی زمانے میں نیپام بم کا شہرہ ہوا، جو امریکی فوجوں نے شمالی ویت نامیوں پربے دریغ برسائے اور جس کے نتیجے میں ہزاروں بچے ، بوڑھے، عورتیں آگ سے جھلس کر رہ گئے، بے شمار ہلاک ہوئے اور جو بچ گئے انھیں دیکھنا ایک ہولناک تجربہ تھا۔

یہ وہ دن تھے جب امریکی نیوی کے جہاز چند دنوں کے لیے کراچی میں لنگر انداز ہوتے اور ویتنام جانے والے امریکی میرین شہر میں نظر آتے۔ میں نے ان ہی دنوں کے بارے میں ایک کہانی ’’زیتون کی ایک شاخ‘‘ لکھی۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میرے دوستوں نے اس پر شدید اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس کہانی میں ایک امریکی نوجوان کا دکھ کیوں بیان کیا ہے جسے بہ جبر بھرتی کیا گیا ہے اور جو ویتنام جارہا ہے۔ میں نے اس کہانی میں بارہ سالہ ایک امریکی بچی باربرا ہائیڈ لرا کی نظم کا حوالہ بھی دیا تھا جو ’پاکستانی ادب‘ کے ’امریکی ادب نمبر‘ میں شایع ہوئی تھی اور جسے سبط حسن نے مرتب کیا تھا۔ باربرا نے لکھا تھا:

’’وہ… وہ ایک لشکارا/ روپہلا اور سنہری/ روپہلا اور سنہری/ روپہلے پرندے اڑتے ہیں/ سنہرا پانی برستا ہے/ دھان لہر کی تال/ نئے پانی کے ساتھ بھڑک کر جھلس جاتے ہیں‘‘۔ میری نگاہیں اس نظم کی ایک ایک سطر کو میکانکی انداز میں پڑھتی چلی جاتی ہیں، پھر میں آخری سطروں تک پہنچتی ہوں۔ ’’سن امریکا، سن دھیان سے/ ہائی پھونگ سے اٹھتی بچوں کی چیخیں/ لمبی اور صاف سنائی دیتی ہیں یہ چیخیں‘‘

میری آنکھوں کے سامنے ایک چہرہ ابھرتا ہے، اور آنکھوں کے گوشے بھیگ جاتے ہیں۔ یہ نظم 69 میں امریکا کے ایک گمنام اور نہایت کم تعداد میں شایع ہونے والے رسالے میں چھپی تھی اور پھر وہ پرچا بحق سرکار ضبط ہوگیا تھا۔

آج کی نسل ویتنام کی جنگ اور نوجوانوں پر اس کے اثرات سے بہت کم واقف ہے، لیکن یہی وہ جنگ تھی جس نے آخری دنوں میں امریکی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اسی کا نتیجہ تھا کہ امریکا میں پانچ اور دس لاکھ کے احتجاجی جلوس نکلے۔ ان میں شریک ہونے والوں کا اپنی حکومت سے مطالبہ تھا کہ امریکی حکومت اس ظالمانہ جنگ سے ہاتھ اٹھائے اور ویتنام کی سرزمین سے امریکی فوجیں واپس بلائی جائیں۔

امریکی فوجیوں نے شمالی ویتنامیوں پر جو اپنے ملک کو غیر ملکی فوجوں کے تسلط سے آزاد کرانا چاہتے تھے، ناقابل بیان مظالم کیے۔ جنگ کے دوران یہ سب سے اہم اصول ہے کہ بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور نہتے شہریوں پر ہتھیار نہیں اٹھائے جائیں گے لیکن ویتنام کی جنگ میں ہر اصول توڑ دیا گیا اور اس کی سب سے ہولناک مثال مائی لائی کا قتل عام تھا ۔ اسے ’سون مائی‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 16 مارچ 1968 کو ہونے والے اس قتل عام کے بارے میں تفصیلات ایک امریکی رچرڈ ہیمر نے 1970میں ’ون مارننگ ان دی وار‘ کے نام سے دنیا کے سامنے پیش کردیں۔ اس کتاب کا میں نے ترجمہ کیا جو ’روزنامہ حریت‘ میں قسط وار شایع ہوا۔ اس زمانے میں لوگوں کو اس کتاب نے دہلا کر رکھ دیا تھا۔

مائی لائی یا سون مائی کا قتل امریکی فوجیوں کی جانب سے ہو یا 1954سے 1973 تک پھیلی ہوئی شمالی ویت نامیوں کی وہ مزاحمت ہو، جس نے آخرکار دنیا کی اہم ترین عالمی طاقت کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ مقاومت کی ایک شاندار داستان ہے جو لاکھوں انسانوں کے خون، بھوک اور درد سے لکھی گئی۔ بیسویں صدی کے اس عظیم انسانی المیے کو دنیا تک پہنچانے میں برٹرینڈرسل نے جو کردار ادا کیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ وہ برطانوی اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کا خاندانی خطاب ’لارڈ‘ بہ معنی ’نواب‘ تھا۔ یہ خطاب اسے متعدد مراعات کا حق دار بناتا تھا لیکن رسل کے لیے اس خطاب کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ ابتدائے عمر سے جنگ مخالف تھا۔

پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو اس نے برطانیہ کی اس جنگ میں شمولیت کے خلاف تقریریں اور مظاہرے شروع کردیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ٹرنیٹی کالج، کیمبرج سے برخاست کردیا گیا۔ 1918 میں جب اس نے جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف تقریریں شروع کیں تو اسے گرفتار کرلیا گیا اور 6 مہینے کی جیل کاٹی۔ اپنے جنگ مخالف موقف کی بناء پر اس کی عزت و تکریم میں اتنا اضافہ ہوا کہ آخرکار ٹرنیٹی کالج، کیمبرج کو اسے اس کی ملازمت پر بحال کرنا پڑا۔ اس کی جنگ مخالف سرگرمیاں بڑھتی ہی گئیں۔ ویت نام کی ہولناک تباہی کے خلاف آواز بلند کرنے سے پہلے اس نے کیوبن میزائل کرائسس کے موقع پر اس وقت کے امریکی صدر جون ایف کینیڈی کو ایک کھلا تار بھیجا جس میں لکھا گیا تھا کہ آپ کا یہ اضطراری عمل، انسانی وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ہر مہذب انسان اس کی مذمت کرتا ہے۔ ہم انسانی قتل عام کو برداشت نہیں کریں گے۔ آپ نے جو الٹی میٹم دیا ہے اس کا مطلب جنگ ہے۔ اس پاگل پن کو ختم کریں۔

ویتنام میں جنگ بندی کے لیے رسل نے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کیں۔ یہ وہ دور تھا جب انگلستان، امریکا اور یورپ میں لوگ بیٹلز کے دیوانے تھے۔ رسل نے بیٹلز کو قائل کیا کہ جنگ کتنی خوفناک چیز ہے اور یہ کہ امریکا ویتنامیوں کے خلاف کس طرح کے مظالم کررہا ہے۔

رسل نے ویتنام کی جنگ کا خاتمہ نہیں دیکھا۔ اس سے پہلے ہی وہ 97  برس کی عمر میں اس دنیا سے گزر گیا لیکن اس نے بیٹلز کے اندر امن کی جس آرزو کو جنم دیا، یہ اسی کا کرشمہ تھا کہ 1971 میں جب کہ بیٹلز ایک دوسرے سے جدا ہوچکے تھے، ان میں سے ایک جون لینن نے یہ نغمہ گایا۔ ’’تصور کریں کہ دنیا کے تمام لوگ امن سے رہتے ہیں۔ آپ مجھے خواب دیکھنے والا کہہ سکتے ہیں لیکن میں تنہا نہیں ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ دن آئے گا جب آپ بھی میرے ساتھ آواز ملائیں گے اور دنیا یک آواز ہوجائے گی‘‘۔

نوجوان اس نغمے کے دیوانے ہوگئے اور یہ نغمہ بڑے بڑے جنگ مخالف مظاہروں میں گایا جانے لگا۔

آج جب ہم ویتنام میں جنگ بندی کے دن کو یاد کررہے ہیں تو یہ ویت نامیوں کی شاندار مزاحمت کے ساتھ ہی، رسل، سارتر اور بے شمار دانشوروں اور عام شہریوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو لاکھوں کی تعداد میں نکلے تھے اور جنہوں نے اس ظالمانہ جنگ کی مخالفت کی تھی اور جن کی اولادیں اس وقت سے آج تک جنگ کے خلاف مزاحمت کرتی آئی ہیں۔

جنگ کے خلاف جنگ، جنگوں کے دائمی خاتمے تک جاری رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔