لاپتہ افراد اور حکومت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 17 جنوری 2017
tauceeph@gmail.com

[email protected]

شاعری جرم بن گئی۔ سوشل میڈیا بلاگس تحریرکرنے والے ناکردہ جرائم کی سزا پاگئے۔ ڈاکٹر سلمان حیدر، وقاص گورایا، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور ثمرعباس کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے۔

دنیا بھرمیں پاکستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے بارے میں سوال اٹھائے گئے۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے حکومت پاکستان پر ان ایکٹیوسٹوں کی گمشدگی کی ذمے داری عائد کردی،ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کے چیئرمین نے ڈاکٹر سلمان حیدرکی گمشدگی پر تشویش ظاہر کردی۔ بائیں بازوکی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے اراکین ان ایکٹیوسٹوں کی گمشدگی پر احتجاج کررہے ہیں۔وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے قومی اسمبلی میں واضح کیا کہ شہریوں کو لاپتہ کرنا حکومت کی پالیسی نہیں۔حکومت سلمان حیدر اور دیگرایکٹیوسٹوں کی بازیابی کے لیے کوشش کررہی ہے۔

ڈاکٹر سلمان حیدر، دیگرکارکنوں اور ملک کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کے اغواء کے طریقہ کار میں یکسانیت نظر آتی ہے۔کراچی کے کارکن واحد بلوچ کو بھی ڈبل کیبن والی گاڑی جس کے شیشے سیاہ تھے میں سوار افراد سپرہائی وے سے اٹھا کر لے گئے تھے۔بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے متعدد افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے اغواء کی کارروائی کا طریقہ کارکچھ ایسا ہی بیان کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف بھی عجیب دنیا وجود میں آئی۔ شہری آزادیوں پر بظاہرکوئی قدغن نہیں لگی مگر مذہبی انتہاپسندوں اورنادیدہ قوتوں کی جانب سے روشن خیالی اورسیکیولر ذہن رکھنے والے افراد پر حملے شروع ہوگئے۔ ان حملوں کا نشانہ ملتان میں راشد رحمن، سبین محمود، پروین رحمن، خرم ذکی اور دیگرکارکن بنے۔

ان میں سے بیشتر کے قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ یہ معاملہ صرف ان ایکٹیوسٹوں تک محدود نہ رہا، اساتذہ، صحافی، وکلاء اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس جنونیت کی لپیٹ میں آگئے۔کراچی میں اساتذہ کو بھی اس کا نشانہ بنایا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر وحید الرحمن، ڈاکٹر فاروق اورکئی اور اساتذہ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ آپریشن ضرب عضب میں جب مذہبی انتہاپسندوں کی کمین گاہوں کاخاتمہ ہوا، وزیرستان کے دونوں حصوں اور دیگر قبائلی علاقوں میں ہونے والے آپریشن اورکراچی میں ہونے والے آپریشن کے مفید نتائج برآمد ہوئے۔

فرقہ وارانہ بنیادوں ، سیاسی اورلسانی بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ کم ہوا مگر مذہبی انتہاپسندوں کے لیے نئے راستے کھل گئے۔ انتہاپسندوں کو بھی گروہ بنانے کا موقع ملا۔ ان انتہاپسندوں کی طرف سے مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی، مگر یہ سلسلہ تھم نہ سکا۔گزشتہ سال ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے یہ انتہاپسند گروہ نظر آتے ہیں۔ دہشت گردی پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے واضح کیا کہ ریاست کے بعض پلیئرز انتہاپسندوں کی سرپرستی کررہے ہیں، یوں آپریشن ضربِ عضب کے باوجود نئے گروہ پیدا ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی کوئی جامع تعریف نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر عوام کے لیے اسپیس قائم ہوئی۔بقول شاعر

جو بات بر سر منبر نہ کہہ سکا واعظ

وہ بات اہل جنوں زیر دار کہتے ہیں

سوشل میڈیا کو رجعت پسندوں نے ہمیشہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ جب نائن الیون کی خطرناک ترین دہشت گردی ہوئی تو انتہاپسندوں نے اس کو امریکا کی سازش قرار دیا۔ اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کو مظلوم افراد کہا گیا۔ سازش کی مستقل تھیوری کے ذریعے القاعدہ اور طالبان کے لیے ہمدردیاں پیدا کیں۔ ملا فضل اﷲ اور دیگر رجعت پسندوں کی تخریب کاریوں کو کارنامے قرار دیا گیا۔ مذہبی بنیاد پر فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والوں کی کردارکشی کی کوشش ہوئی۔انتہا پسندوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ کیا۔

اس حملے کا براہِ راست نشانہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے بچے تھے۔اس حملے میں کالج کی پرنسپل نے بہادری کی نئی تاریخ رقم کی۔ اسکول کے بچوں نے دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کیا مگر رجعت پسندوں نے آرمی پبلک اسکول کے بارے میں رجعت پسندانہ پروپیگنڈا کیا اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں جب انتہاپسندوں کی کمین گاہیں نشانہ بنیں تو رجعت پسندوں نے سوشل میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا کیا۔ اس رجعت پسندانہ ماحول کا پردہ چاک کرنے کے لیے سیکیولر بلاگرز نے آواز اٹھائی۔

بعض صحافیوں نے سوشل میڈیا پر مذہب کے خلاف پوسٹ کی جانے والی بعض پوسٹ کا ذمے دار لاپتہ ہونے والے بلاگرز کو قرار دیا۔ کسی بھی مذہب کے خلاف نفرت آمیز مواد قابل مذمت ہے مگر بغیر کسی ثبوت کے الزام لگانے والے افراد بھی غیر قانونی حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر واقعی کسی بھی فرد نے یہ گھناؤنا اقدام کیا ہے تو اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔کسی فرد کو اغواء کر کے لاپتہ کرنے کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ اس کے خلاف الزامات کا ثبوت نہیں ہے۔ ان بلاگرز کے اغواء کی دنیا بھر میں مذمت ہو رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور ہالینڈ کی حکومتوں نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے کنونشن کے تحت یہ سخت جرم ہے۔

پاکستان اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر میں نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا مسئلہ اٹھاتا ہے۔ پاکستانی سفارتکار اس بارے میں یورپی ممالک میں لابی بھی کررہے ہیں، لیکن اس سے بھارت کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ وزیر داخلہ کے کلرسیداں میں بیان سے جمہوری حکومت کی بالادستی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر جنہوں نے سینیٹ میں اس مسئلے پر مسلسل آواز اٹھائی ہے حکومت کو اس معاملے کا ذمے دار قرار نہیں دے رہے۔ وزیراعظم کو اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے، یوں جمہوری حکومت کی بالادستی یقینی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔