زندگی میں بور ہونے کا صحیح طریقہ

ساجد علی ساجد  منگل 17 جنوری 2017

آج کے کالم میں ہمیں پھر ایک منفرد کتاب کا تذکرہ کرنا ہے جس کے عنوان سے ہی آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کتنی حیران کن دلچسپ اور عجیب ہوگی، چنانچہ اس کا عنوان ہے ’’کس طرح بور ہوا جائے‘‘ یا ’’بور ہونے کا صحیح طریقہ‘‘ (How To Be Bored)۔ 170 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایک خاتون ایواہوفمین نے لکھی اور اس پر تبصرہ ایک اور مصنف جون ولیمز نے کیا ہے جسے ہم من و عن پیش کر رہے ہیں، کیونکہ ہم اپنے قارئین اور اس کتاب کی خاص خاص باتوں کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہتے۔

اسکول آف لائف ایک لندن بیسڈ کمپنی ہے، جس کی خوبیاں اور بدترین خصوصیات لگ بھگ وہی ہیں جو اس کے بانی مقبول فلسفی ایلین ڈی بوٹون میں رہی ہوں گی۔

یہ انسٹی ٹیوٹ دنیا کے مختلف حصوں میں قائم مراکز میں کلاسز اور لیکچرز کا اہتمام کرتا ہے، تاہم اس کا سب سے منفرد نظر آنے والا کام بک اسٹورز پر اپنے مطلب کی کتابیں تلاش کرنے کے لیے جانے والوں کو چھوٹی چھوٹی مگر بڑے اچھے انداز میں تیار کی ہوئی ہاؤ ٹو “How To” گائیڈز کتابیں پیش کرنا ہے۔ یہ کتابیں ایک قسم کا بیلنسنگ ایکٹ ہیں، بنیادی طور پر اس طرح لکھی گئی ہیں کہ ادب دوست سیلف ہیلپ کے متلاشی افراد کی خود اپنی ذہانت اور علمیت کی توہین نہ ہو۔ وہ آپ کو اس خوف سے بھی دور رکھنا چاہتی ہیں کہ زندگی میں بعض چیزیں مستقل طور پر اوکے نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسی اعتبار سے ان کتابوں کے ٹائٹل اس طرح کے ہوتے ہیں، کس طرح ہوش مند رہا جائے اور مصیبتوں اور بدبختی کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔

اب آئیے ایواہوفمین کی کتاب بور کس طرح ہوا جائے؟ How To Be Bored جس میں بڑی حد تک اس سیریز کی روح برقرار رکھی گئی ہے اور کیرکی گارڈ، روسو اور سارتر جیسے ممتاز لائف کوچز کی ماہرانہ آرا سے استفادہ کیا گیا ہے اور ساری مشق کا مقصد بور ہونے میں مدد دینا ہے۔

اس کتاب کے ٹائٹل سے ہی پریشانی کا آغاز ہوجاتا ہے، بور ہونا کوئی ایسا کام نہیں جو آپ کرتے ہیں، بلکہ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو آپ کو لاحق ہوجاتی ہے اور غیر متوقع موسم کی طرح آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ آپ اس کے دائرے سے نکل تو سکتے ہیں مگر اس میں اپنی مرضی سے داخل نہیں ہوسکتے۔ اس کتاب کے بورڈم (Boredom) والے حصے کے لیے بہتر لیبل یہ ہوسکتا تھا کہ کس طرح بور کرنے والے وقت ’’ڈاؤن ٹائم‘‘ کا بہتر سے بہتر استعمال کیا جائے، مگر مسز ہوفمین کئی اطراف میں قلم چلاتی ہیں، مثلاً کلچر کو کس طرح برتا جائے، کس طرح تھراپی پر بات کی جائے، اس کے علاوہ انسانی رابطے تخلیقی کام وغیرہ وغیرہ۔

معاملات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والی ایوا ہوفمین بیک وقت یادداشتیں لکھنے والی، ناول نگار اور نیویارک ٹائمز کی سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کی عمر ستر کے لگ بھگ ہے، اس کے باوجود وہ خاصی ذہین اور چالاک ہیں، جو بوریت برقرار رکھنے کے لیے ایک کے بعد ایک ڈیجیٹل Treat دیتی ہیں، جہاں تک گھڑی کا تعلق ہے ہم اب اس حد تک بہت زیادہ کام کرنے لگے ہیں اور Over Worked ہوگئے ہیں کہ گوگل جیسی کمپنیاں بھی ایفی شنسی بڑھانے کے لیے خود پر غنودگی طاری کرنے یا دوسرے وقفوں کو لازمی قرار دے رہی ہیں۔

’’میرے لیے یہ اعتراف کرنا لازمی ہے۔‘‘ ہوفمین لکھتی ہیں۔ سہ پہر میں بہتر کام کرنے کے لیے ’’قیلولے‘‘ یا گوشہ نشینی اختیار کرنے کا خیال ہی مجھ پر ناقابل بیان خوف طاری کردیتا ہے۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ گوشہ نشینی یا خاموش ہم کلامی سے ریلیف مل سکتا ہے مگر وہ بنیادی دباؤ کم نہیں ہوتا جو ہمیں اس کیفیت کی طرف راغب کرتا ہے۔

فلسفیانہ طور پر سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ جسے وہ تسلیم کرتی ہیں وہ فراوانی کی رغبت اور آزادی کے مسائل ہیں۔ ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس بڑی تعداد میں رومانٹک پارٹنرز ہیں۔ کیریئر کی بہت زیادہ چوائس ہے یا تفریح کے مواقع یا آپشنز ہیں اور ہم بغیر کسی تیاری کے کٹھن راستوں پر چل پڑتے ہیں۔ اچھا تو پھر بورڈم کے لیے کیا کیا جائے؟

بہترین بات یہ ہے کہ آپ یہ امید ہی نہ باندھیں کہ کتاب آپ کی کوئی رہنمائی کرے گی۔ اس کے بعد وہ کچھ حل تجویز کرنے لگتی ہیں، جس میں میوزک سننا اور ڈائری لکھنا شامل ہے لیکن وہ سختی سے اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ ’’ڈیوائسز‘‘ سے جہاں تک ممکن ہو دور رہا جائے، ان کے نزدیک ٹیکنالوجی ملی جلی نعمت سہی مگر ہمارے بہت سے ’’رنج و الم‘‘ کی ذمے دار ہے۔

اپنا یہ مخصوص جملہ دہراتے ہوئے وہ مزید لکھتی ہیں۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ہماری سوچ کے حصے بخرے کردیے ہیں، ہمیں باہر سے دی جانے والی ترغیبات اور ورچوئل نالج کے مسلسل حملے ہوتے رہتے ہیں، جو ہمیں کمپیوٹر اسکرین اور کمیونیکیشن کے دیگر ذریعوں سے حاصل ہوتی ہے۔

وہ مستند انسانی رابطے کی پرستار ہیں مگر ان کو یہ فکر ستاتی رہتی ہے کہ ضرورت سے زیادہ ٹیکسٹنگ اور فیس بک پیغام رسانی ایسے رابطوں سے محروم کرسکتی ہے۔ اگرچہ میں خود صبح سویرے آئی فون استعمال کرنے کی عادت سے تنگ آیا ہوا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مسز ہوفمین ٹیکنالوجی کے خلاف اپنے کیس کو خاصا آسان بنا رہی ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کتاب میں کسی تجزیے کے بغیر پیش کیے گئے بہت سے مفروضے ہیں، اس بارے میں کہ انسان کس چیز کے لیے بنے ہیں اور کس طرح وہ پھل پھول سکتے ہیں۔

وہ دھندلے پن کا شکار ہوسکتی ہیں، مثال کے طور پر انھوں نے خود کو تین سمتوں میں جاننے والی بات بار بار دہرائی ہے اور یہ کہ ہمیں اپنے اندر سے سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے۔

ایسے مسائل پر جو ہم سب شیئر کرتے ہیں ہم سب مسز ہوفمین سے اتفاق کریں گے، مگر انھوں نے ان مسائل کا جو تجزیہ کیا اور جو حل پیش کیے وہ سب خاصے بور کرنے والے ہیں۔ بوریت طاری ہونے کے بھی اپنے بہت سے فائدے ہیں مثلاً زندگی میں آپ کو ایسے بہت سے لوگوں سے مجبوراً ملنا پڑتا ہے جن سے آپ ملنا نہیں چاہتے اور ان کی کمپنی میں آپ بور ہوتے ہیں، حالانکہ ان میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں ۔

جن کے علم اور تجربے سے آپ خاصا استفادہ کرسکتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی خاصی گراں قدر معلومات آپ کے کانوں میں پڑ جاتی ہیں، جن میں سے کچھ آپ کو محسوس ہونے والی بوریت کے باوجود آپ کی یادداشت میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ ان میں بہت سے لوگ ایسی فیلڈز سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسے موضوعات پر بولتے ہیں جو آپ کو بالکل اپیل نہیں کرتے، مگر ان کی باتیں مجموعی طور پر خاصی کام کی ہوتی ہیں اور ان کے تجربات سے آپ خاصا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

یہی حال کتابوں کا ہے، خاص طور پر ایسی کتابیں جو بظاہر آپ کو بور کرتی ہیں مگر درحقیقت آپ کے لیے اجنبی موضوعات سے تعلق رکھنے کے باوجود خاصی معلوماتی ہوتی ہیں، آپ بادل نخواستہ ایسی کتابوں کو پڑھتے اور خاصے بور ہوتے ہیں مگر ان کتابوں کے ذریعے جو گراں قدر خیالات آپ کے ذہن میں منتقل ہو رہے ہوتے ہیں ان کا آپ کو بالکل اندازہ نہیں ہوتا۔ آپ ان سے زبان بھی سیکھ سکتے ہیں، انداز تحریر بھی اور الفاظ بھی۔ اپنا علم اور تجربہ بڑھانے کے لیے آپ کو بہت سی ایسی کتابیں بھی پڑھنی ہوں گی جن کے موضوعات آپ کو اپیل نہیں کرتے یا جو آپ کو بظاہر بے مقصد نظر آتی ہیں، ان میں بعض عظیم فلسفیوں کی کتابیں اور وہ کتب بھی شامل ہیں جن کا تعلق کلاسک لٹریچر سے ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔