اے جمہوریت، تیرے جانثار بے شمار

ڈاکٹر منصور نورانی  منگل 17 جنوری 2017
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

ہماری یہاں قومی سیاست میں ’’قربانی‘‘کا لفظ بڑے شدومد سے استعمال کیا جاتا ہے۔ مذہب ِاور وطن عزیز پر اپنی جانیں نثارکرنے والوںسے زیادہ جمہوریت پر قربان ہونے والوںکا بڑا نام اورچرچہ ہواکرتا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں آمرانہ اور جمہوری قوتوں کے بیچ محاذآرائی طویل عرصے سے جاری رہی ہے۔ 1958ء میں لگائے گئے پہلے مارشل لاء سے یہ سلسلہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں چلتاآیا ہے۔

گرچہ 2008ء کی انتخابات کے بعد گزشتہ آٹھ نو برس سے اِس میں بظاہر کچھ وقفہ آیا ہے مگر بیچاری کمسن جمہوریت کو پھر بھی اپنی معطلی اور سرکوبی کا دھڑکا بہرحال ہر وقت لگا رہتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ تمام سیاسی پارٹیاں جن کے اپنے اندرجمہوری قدروں اور روایتوں کی کوئی رمق دمق یا شائبہ تک نہیں ہے وہ جمہوریت کی قربانی کی سب سے بڑی دعوے دار بنی ہوتی ہیں۔ جمہوریت کے لیے قربانی دینے والی سیاسی جماعتوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کا نام سب سے بڑا ہے۔

گھڑی خدا بخش لاڑکانہ کے عالیشان قبرستان میں ایک ہی خاندان کی چار قبریں آج بھی اُن کے چاہنے والوں کے لیے مرجع خلائق بنی ہوئی ہیں۔ جمہوریت کے نام پر قربان ہونے والے اِن چاروں افراد میںصرف ایک ہی شخص ایسا تھا جسے ہم جمہوریت کی جدوجہد کا اصل مرد مجاہد یا شہید اعظم کہہ سکتے ہیں اور وہ تھے اِس پارٹی کی بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو۔ باقی تمام افراداتفاقاً یا حادثاتی طور پر شہادت کا رتبہ پاکر اِس اعلیٰ و ارفع مقام کے حقدار قرار دے دیے گئے ہیں۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والدِ محترم سے ورثے میں ملنے والی سیاسی اور جمہوری میراث کے تحفظ کی خاطرآمرانہ قوتوں سے لڑتی رہیں لیکن اُن کی ناگہانی شہادت کے پسِ پردہ محرکات اُن کی جمہوری جدوجہد نہیں بلکہ کچھ اور ہی تھے۔وہ پرویز مشرف کے ساتھ ایک سمجھوتے اور این آر او کے تحت اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان لوٹی تھیں اور کسی مزاحمت کے بغیر مکمل طور پرایک آزادانہ الیکشن کمپین چلارہی تھیں۔اُنہیں کس کی ایماء پرکن خفیہ قوتوں نے قتل کیا یہ ابھی تک ایک ایسامعمہ ہے جو ہنوزلاینحل ہے۔

خود پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت اپنے پانچ سالا دورِ اقتدار میں اِس قتل کا سوراغ نہیں لگا پائی۔البتہ وہ اُنہیں جمہوریت کے لیے قربان ہونے والوں کی فہرست میںشامل کرکے ہر سال اُن کی قبر پر برسی کے نام پرسیاسی میلہ ضرورسجایا کرتی ہے۔اِسی طرح محترمہ کے دونوں بھائیوں کی ہلاکت بھی اُن کی کسی جمہوری پسندی کا شاخسانہ نہیں تھی۔اُن کا ایک بھائی مرتضیٰ بھٹو تو خود اُن کے دورِ اقتدار میں اپنی ذاتی رہائش گاہ 70کلفٹن کے قریب 20 ستمبر1996ء کو مبینہ طور پر ایک پولیس مقابلے کی نذرہوگیا ۔وہ اُن دنوں کسی فوجی آمریت کے خلاف جمہوریت کی لڑائی نہیں لڑ رہے تھے بلکہ خود اپنی ہمشیرہ کی جمہوری حکومت کے لیے مشکلات اور مسائل پیدا کررہے تھے۔

اِسی طرح اُن کے دوسرے بھائی شاہنواز بھٹو بھی 18جولائی 1985ء کو فرانس میں مقیم کسی ہوٹل کے کمرے میں ناگہانی طور پر مردہ پائے گئے۔یہ دونوں بھائی جنرل ضیاء الحق کے دور میں الذوالفقار نامی تنظیم کے کرتا دھرتا تھے اور پی آئی اے کا طیارہ اغواء کرکے پہلے افغانستان اور پھر دمشق لے جانے جیسی ملک دشمن کارروائیوں کے ذمے دار تھے۔اِس کے علاوہ مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الہیٰ کے قتل کی ذمے داری بھی وہ خوداپنے سرلے چکے تھے۔جمہوریت کی جدوجہد میں جب دہشتگردی اور تخریب کاری کا عنصر شامل ہوجائے تو وہ کسی طرح بھی قابلِ ستائش اور لائقِ تحسین نہیں رہتی۔

ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بھی رفتہ رفتہ اب خود کو جمہوریت کے لیے قربانی دینے کے علمبرداروں اور دعوے داروں میں شامل کر لیا ہے خاص کراکتوبر 1999ء کے فوجی انقلاب کے بعدایک سال تک میاں نواز شریف کی اٹک قلعے میں نظر بندی اور قید تنہائی اور پھر ایک مقدمے میں اُن کی سزائے عمر قیداور بعد ازاں غیر ملکی مداخلت پر جبری جلاوطنی جمہوریت کی خاطر جدوجہد کرنے اور قربانی دینے کے زمرے میں گردانی گئی۔ویسے تو اُن کی جلاوطنی کے دور میں اُن کی پارٹی کے جن لوگوں نے ملک کے اندر رہ کر پرویز مشرف کے ظلم وستم اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں دراصل وہی اِس اعزاز کے زیاد ہ صحیح حقدار ہیں۔

یہ بات محترمہ کی پارٹی کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے کہ خود اُن سے زیادہ جمہوریت کے لیے قربانی اُن لوگوں نے دی جو جنرل ضیاء الحق کے 11سالا دورِ آمریت میں قید اورکوڑوں کی سزائیں برداشت کرتے رہے۔ یہ لوگ ہماری سیاسی پارٹیوں کے عام ورکر اور کارکن ہواکرتے ہیں جواپنے لیڈروں کی محبت میں دیوانہ وار آمرانہ حکومتوں سے لڑ جاتے ہیں اور پھر جان کا نذرانہ پیش کرکے وقت اور تاریخ کی گمنام راہوں میں کھو جاتے ہیں مگر افسوس کہ اُن کا نام جمہوریت کے لیے قربانی دینے والوں میں کبھی شمار نہیں ہواکرتا۔اُن کی ساری جدوجہداور قربانی کا وصول کنندہ کوئی اور ہی ہواکرتا ہے۔

’’جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ اپنے غریب اور نادارکارکنوں کی قربانیوں کے نتیجے میں جمہوریت کے ثمرات سے فیضیاب اورلطف اندوز ہونے والے ہمارے اِن لیڈروں نے یہ انتقام آج تک کن لوگوں سے لیا ہے۔اُن سے جنھیں یہ اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں یا پھر اُن غریب لوگوں سے جن کے کاندھوں پر چڑھ کر یہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

آج کل بھی ہمارے یہاں جمہوریت پر اپنی جان نچھاورکردینے والوں کا بڑا چرچہ ہے۔ پہلے جمہوریت کے حصول کے لیے اور پھر اُس کے بچاؤ اور دفاع کی خاطر مصلحت سے کام لینے کو بھی جمہوریت پر قربان ہونے کا نام دیا جاتا ہے۔کوئی اگر اپنی کسی اشتعال انگیز تقریرکے بعد دبئی بھاگ جائے تو اُس کا یہ عمل بھی جمہوریت کے بچاؤ میںعظیم قربانی گردانہ جاتا ہے۔

ذاتی مفادات، مصلحت کوشی یا اپنی کسی مجبوری کے تحت اُٹھایاجانے والا ہر قدم جمہوریت پرکیے گئے احسانوں میں شمارکیا جاتا ہے۔ حکومت کے دو اہم وفاقی وزراء اپنی کسی غلطی یاہرزہ سرائی کی پاداش میں اپنے عہدوں سے الگ کردیے جائیں تو اُسے بھی ملک میں رائج جمہوری نظام کو بچانے کے لیے قربانی جیسے مقدس القاب سے نوازا جاتا ہے۔سقوطِ ڈھاکا کے سانحے کے بعد حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ اِس لیے شایع نہیں کی گئی کہ جمہوریت کو خطرہ لاحق تھا۔کارگل کے واقعے پر کمیشن اِس لیے نہیں بٹھایا گیا کہ ایسا کرنے سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچنے کاخدشہ تھا۔پرویز مشرف کو میڈیکل گراؤنڈ پر باہر اِس لیے جانے دیا گیا کہ بصورتِ دیگر حکومت وقت کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی تھیں۔

جمہوریت پسندوں اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان یہ چپقلش اور رسہ کشی نجانے کب ختم ہوگی۔ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل کب اختتام پذیر ہوگا۔1977ء سے 2008ء کا ایک طویل عرصہ اِسی بے معنی اکھاڑ پچھاڑکی نذر ہوگیا۔کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت زمام ِ اقتدار سنبھالتی رہی۔جمہوریت کے لیے قربانی کا بلند بانگ دعویٰ کرنے والے نجانے کب ہوش کے ناخن لیں گے کہ وہ ایسی حرکت ہی ناکریں کہ پھر کوئی یہاں شب خون مار سکے۔ ہمیں اپنے طرز عمل اور طریقہ کارکوبدلنا ہوگا۔اہم ریاستی اداروں کی بے توقیری کرنے اور اُن کوتنقید وتضحیک کا موضوع بنانے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ہم ایسے کام کرتے ہی کیوں ہیں جب ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اُن سے بلاوجہ الجھنے کا نتیجہ ایک بار پھرگھر پھونک پھانک کی صورت میں نکل سکتا ہے۔سول، فوج اور عدلیہ سمیت تمام مقتدر ادارے اگر اپنی اپنی حدود رہتے ہوئے آئین ودستور کے مطابق کام کرتے رہیں توپھر شاید کوئی مسئلہ پیدا ہی نہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔