فلم بینی کی یادیں(پہلا حصہ)

شبیر احمد ارمان  منگل 17 جنوری 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

آج میں اپنے وقت کی فلم بینی کی چند یادیں قارئین سے شیئر کرنا چاہ رہا ہوں۔ ہمارے وقت میں فلم کو بائیسکوپ اور سینماگھروں کو ٹاکیز کہا کرتے تھے۔ پاکستانی پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلم ’بہن بھائی‘ میری زندگی کی پہلی فلم تھی، جو میں نے بلوچی مقبول گلوکار عبدالعزیز اڈو کی شادی پر دیکھی تھی۔ اس زمانے میں ہر شادی اور سالگرہ کے موقع پر مہمانوں کو فلم دکھانا لازمی سا ہوگیا تھا۔

یہ فلمیں 16 ایم ایم کی ہوا کرتی تھی، جس کی ریل فلم ون ٹین کیمرہ کے ریل فلم کی سائز کی ہوا کرتی تھی، اور یہ آج کے پروجیکٹر سے مختلف پروجیکٹر کے ذریعے چلائی جاتی تھی، گلی میں ایک سفید پردہ جس کے چاروں طرف کالی پٹی ہوتی تھی، اس پر فلم دکھائی جاتی تھی، فلم چلانے سے قبل گلی کی لائٹ پر بوری ڈال دی جاتی تھی تاکہ اندھیرے میں فلم صاف دکھائی دے سکے، پردے کے ایک جانب خواتین تو دوسری طرف مردوں کے لیے انتظام ہوا کرتا تھا۔

یہ اسٹریٹ فلم عموماً رات بارہ بجے سے شروع کی جاتی تھی جو رات تین بجے تک چلتی تھی۔ جس رات فلم کا انتظام ہوتا تھا اس رات محلے کی چائے اور پان کی دکانیں بھی اس وقت تک کھلی رہتی تھیں جب تک شادی والے گھر میں رونق رہتی تھی۔ اس دور میں امن و امان کی صورت حال کس چڑیا کا نام تھا، کسی کو کچھ پتہ نہیں تھا، سب لوگ غربت میں بھی خوش و خرم اور بے فکر تھے۔ بات ہورہی تھی فلم ’بہن بھائی‘ کی، اس فلم میں ندیم، کمال، اسلم پرویز، اعجاز اور دیبا نے بہن بھائیوں کے کردار ادا کیے تھے، جب کہ ان کی ماں کا رول طلعت صدیقی (عارفہ صدیقی کی والدہ) نے کیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی بہترین فلم تھی، اس کے تمام گانے سپرہٹ تھے، جس میں ’اے بے کسو کے والی دے دے ہمیں سہارا‘ یہ حمد اس قدر میرے دل و دماغ پر چھا گئی کہ میں آج تک اسے گنگناتا ہوں۔

سینما گھروں میں 35 ایم ایم کی فلمیں چلتی تھیں، اکا دکا انگریزی فلمیں سینما اسکوپ ہوا کرتی تھیں، بعد میں پاکستان میں بھی سینما اسکوپ فلمیں بنا شروع ہوئیں۔ ’مالا‘ پاکستان کی پہلی سینما اسکوپ فلم تھی۔ یادش بخیر! رنگین اردو فلم الزام جس میں محمدعلی، زیبا، شاہد، سنگیتا اور قوی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے، سینما گھر میں دیکھی جانے والی یہ میری پہلی فلم تھی جو میں نے سندھ کے تاریخی شہر ہالا کے سینما میں دیکھی تھی۔ اب یہ سینما ہوٹل میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس فلم کا یہ گانا ’’ہم پہ الزام تو ایسے بھی ہے، ویسے ہی سہی، نام بدنام تو ویسے بھی ہے ایسے ہی سہی‘ ملکہ ترنم نورجہاں کا گایا ہوا ہے، بہت مقبول ہوا تھا۔

لیاری کے قریب بھیم پورہ میں واقع نور محل میرے لیے کراچی کا پہلا سینماگھر تھا، جہاں میں نے محمد علی اور سلونی کی فلم ’باغی سردار‘ دیکھی۔ نور محل کا اسکرین پردہ دیگر سینما گھروں سے بڑا تھا، ہمارے لیے یہ شاندار سینما تھا، جس کا ٹکٹ ہماری دسترس میں تھا یعنی 25 پیسے، جو بڑھتے بڑھتے سوا روپے (ایک روپیہ 25 پیسے) تک پہنچ گیا تھا، تب تک ہم کچھ بڑے ہوگئے اور صدر میں واقع سینما گھروں کا رخ کیا۔

نورمحل کی جگہ اب رہائشی پلازہ تعمیر ہے، جس کے نیچے دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ نورمحل کے سامنے سپر سینما تھا، جہاں اکثر پنجابی فلمیںچلتی تھیں، یہ سینما بھی ختم کردیا گیا ہے، یہاں بھی رہائشی پلازہ اور دکانیں قائم ہیں۔ سپر سینما کے چند قدم آگے راکسی سینما تھا، یہاں بھی پنجابی فلمیں چلتی تھیں، کبھی کبھار انگریزی فلمیں بھی جلوہ گر ہوتی تھیں، اب یہ بھی بند ہے، شاید یہاں بھی پلازہ تعمیر کیا جائے گا۔ اس سے آگے کی طرف نیپئر روڈ پر کمار سینما تھا اس کا کچھ حصہ دکانوں پر مشتمل ہوچکا ہے۔

اس سے ذرا آگے نگار سینما تھا، جو اب بند ہے اور کسی بلڈر کا منتظر ہے تاکہ یہ بھی پلازہ کا روپ دھار سکے۔ ان پانچ سینما گھروں میں فلمیں دیکھنے کی بے شمار یادیں وابستہ ہیں، ان پانچوں سینما میں سے کمار سینما کو چھوڑ کر، جہاں صرف بالغان کے لیے کا بورڈ لگا ہوتا تھا، باقی میں ہمارے پسندیدہ ہیروز لالا سدھیر، یوسف خان، محمد علی، ندیم، وحید مراد، شاہد، اقبال حسن، سلطان راہی، مصطفیٰ قریشی، اسلم پرویز کی فلمیں چلا کرتی تھیں۔ چونکہ یہ لوکل سینما تھے اس لیے یہاں ہر فلم صرف ایک ہفتہ تک چلتی تھی۔ ہمیں ہفتہ بھر میں گھومنے پھرنے کے لیے ایک دن اتوار کا ملا کرتا تھا۔ ہفتہ بھر کی چار سے پانچ روپے جیب خرچی ہماری جمع پونجی ہوا کرتی تھی، جو اتوار والے دن خرچ کی جاتی تھی۔

جب عمر کے اس حصے میں آگئے جہاں روک ٹوک کی پرواہ نہیں کی جاتی تو ہم نے صدر میں واقع سینما گھروں کا رخ کیا۔ ریگل، رٹرز، ناز، ایروز وہ سینما تھے جہاں ہم نے کوئی فلم نہیں دیکھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان سینماگھروں میں ہماری پسند کی فلمیں نہیں چلتی تھی۔ جوبلی سینما اب جوبلی شاپنگ سینٹر بن چکا ہے، کوہ نور سینما، کوہ نور مارکیٹ ہے، ریوالی سینما اور ایروز سینما بھی فلیٹ بن چکا ہے، قیصر سینما بھی پلازہ کا روپ دھار چکا ہے، گوڈین سینما بھی شاپنگ سینٹر بنا ہوا ہے، اس مارٹن روڈ موجودہ نام وحید مراد روڈ پر اب صرف نشیمن سینما اور افشاں سینما اپنا وجود رکھتے ہیں۔ ریگل سینما اب ریگل ٹریڈ سینٹر بن گیا ہے، اوڈین سینما اب الیکٹرونک مارکیٹ ہے، پیراڈائز سینما اب پیراڈائز ہوٹل بن چکا ہے، اسٹار سینما اب شہر کراچی کی سب سے بڑی موبائل مارکیٹ ہے، بمبینو سینما زندہ ہے مگر اس کا ایک حصہ موٹر سائیکل اسٹینڈ بن چکا ہے۔

بمبینو سینما سابق صدر پاکستان کے والد حاکم علی زرداری (مرحوم) نے قائم کیا تھا۔ بمبینو پاکستان کا پہلا سینما گھر تھا جس میں 70 ایم ایم (سینما اسکوپ) اسکرین اور جدید پروجیکشن سسٹم کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسکالا سینما، بمبینو سینما کا طفیلی تھا اور اسی عمارت میں واقع تھا، یہاں ندیم اور شبنم کی فلم آئینہ مسلسل چار سال تک چلتی رہی۔ لیرک سینما زندہ لاش بنا ہوا ہے یعنی بند ہے اور اس کی عمارت شاندار ماضی کی یاد دلاتی ہے۔ پلازہ سینما کی جگہ پر پلازہ شاپنگ سینٹر زیر تعمیر ہے، ناز سینما اب ناز کمپیوٹر مارکیٹ بن چکا ہے، نشاط سینما اور پرنس سینما کو جذباتی طبقے نے جلا کر راکھ کردیا ہے، کیپری سینما کو بھی جلادیا گیا تھا لیکن اسے بحال کردیا گیا ہے، رینبو سینما اب تک حیات ہے، ریو سینما کی جگہ اب پلازہ اور مارکیٹ قائم ہے، ریکس سینما اب المدینہ پلازہ ہے، پیلس سینما مسمار کردیا گیا ہے، اب یہاں خالی پلاٹ ہے، مے فیئر سینما بھی اب نہیں رہا، جو شہر کراچی کا اوپن ایئر سینما تھا۔ صدر کی ایک گلی میں جہاں اب کیپیٹل مارکیٹ ہے، یہاں کیپیٹل سینما ہوا کرتا تھا، یہاں میں نے سب سے پہلی فلم لارنس آف عریبیہ دیکھی تھی۔

تاج محل سینما بھی ہم میں نہیں رہا۔ میجسٹک سینما، محفل سینما، انجمن سینما، کوئن سینما، کنگ سینما، اسی طرح کراچی کے مضافاتی علاقوں کے سینما گھر بھی مسمار کرکے انھیں مارکیٹوں اور پلازوں میں تبدیل کردیا گیا ہے، جن میں لیاری کا واحد سینما کراؤن، کیماڑی کا واحد سینما نگینہ، تین ہٹی کے سینما فلمستان اور لبرٹی، بنارس کا میٹرو سینما، لالو کھیت کا عرشی سینما، گولیمار کا نایاب، ڈالمیا کے اوپن ایئر دو سینما ڈرائیو ان، ون اور ٹو بھی تھے، ملیر کا سنگیت سینما، لانڈھی کا گلستان سینما، اور نہ جانے کتنے اور سینما گھر تھے جن سے بہتوں کی یادیں وابستہ ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔