مسلمان دہشتگرد نہیں انسانیت کے خدمت گار ہیں

درحقیقت کچھ کام اور لوگ اتنے مثالی ہوتے ہیں کہ وہ پوری نسل انسانی کیلئے باعث راحت ہیں۔ چاہے وہ کاوش چھوٹے پیمانے پر ہو


محمد شیر January 19, 2017
مسلمانوں کو اِس بات سے ہرگز کوئی سروکار نہیں کہ میڈیا اُن کے بارے میں کیا کہتا ہے، اُنہیں جو چیز بے چین کرتی ہے وہ دکھی انسانیت ہے۔ فوٹو: فائل

نائن الیون کے بعد دنیا نے جہاں امتِ مسلمہ پر میلی نگاہ کی، وہیں اُمت نے بھی چاروناچار اپنے اسلاف کی روایات سے ہاتھ جھاڑ ہی لیے تھے۔ ہر دہشت گردی، انسانی سمگلنگ، منشیات، بدامنی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا تانہ بانہ مسلمانوں کے ساتھ جوڑا جانے لگا۔ اہلِ ایماں نے ڈوبتی کشتی کو سنبھالا دینے کے لیے اہلِ مغرب کی تقلید کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ہر دفعہ بات یہیں ختم ہوئی کہ یہ تو ہماری اپنی روایات ہیں جو اہلِ مغرب نے اپنا لی ہیں۔

لیکن المیہ یہ کہ پوری دنیا میں مسلمان کی جانب سے انسانیت کے لیے ہر ہر خدمت کو صرف اِس لیے نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ بدقسمتی سے چند مسلمانوں کا نام دہشتگردی کے واقعات میں آتا ہے۔ حالانکہ اِس بات پر ہم لوگوں کو سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ دہشتگردی کی کارروائیاں لوگوں کا انفرادی فعل و عمل ہے، اِس کی تاکید و حمایت کبھی نہ دین اسلام نے کی ہے اور نہ کبھی دیگر کسی مذاہب کی طرف سے حوصلہ افزاء بیان آیا ہے۔ یہ بات کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ 2013ء سے اب تک 200 سے زائد اسکولوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے جن میں سو سے زائد بچے اور اساتذہ جان سے گئے جبکہ سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

ریکارڈ موجود ہے کہ اکثر حملوں میں حملہ آور مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم ہی رہے ہیں لیکن اکثریت کو دماغی مریض قرار دے کر بچانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔

یہ تحریر لکھنے کا مقصد کسی کو معصوم اور کسی کو مورد الزام ٹھہرانا ہرگز نہیں بلکہ بات کرنے کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ کسی کے ساتھ بھی زیادتی نہ کی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی تباہی کی وجہ مسلمان ہیں کیونکہ وہ ہر طرح ی دہشتگردی میں شامل ہوتے ہیں، جبکہ یہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ بات چاہے ہیروشیما اور ناگاساکی کی ہو، ویتنام کی ہو، یا پھر عراق و افغانستان کی ہو، ہر جگہ کس نے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنایا یہ سب جانتے ہیں۔

دوسری طرف جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو ہمیں یہ بہرحال اقرار کرنا چاہیے کہ اِس طرف بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے انسانیت کو نقصان پہنچایا لیکن یہ صرف چند لوگ ہیں، جبکہ مسلمانوں کی اکثرت آج بھی تعمیر اور انسانوں کی خدمت پر مامور ہے۔ ساری مثالیں دینا اِس وقت ممکن نہیں، اِس لیے آج صرف تازہ مثال سے کام چلا لیتے ہیں۔

درحقیقت کچھ کام اور لوگ اتنے مثالی ہوتے ہیں کہ وہ پوری نسلِ انسانی کے لئے باعثِ راحت ہیں۔ بھلے ہی وہ چھوٹے پیمانے پر کاوش ہو، اُس کا زیرِ افادہ حلقہ مختصر ہو پر وہ سماجی گھٹن میں ایک اضطراب ضرور پیدا کردیتی ہے۔ ایسی ہی ایک کاوش کینیڈا کے شہر مونٹریال میں دو مسلم نوجوان یحیٰ ہاشمی اور العامری کررہے ہیں جو ایک ریستوران کے مالک ہیں۔ بے گھر افراد کی بھوک سے بھری نظریں خالی جیب روز اُنہیں بھی اُن افراد کی طرح مایوس کرتی ہیں کہ آخر وہ کب اُن کے لئے کچھ کرسکیں گے؟ بس اسی سوچ کی وجہ سے اُنہوں نے ''مارچے فردوس'' نامی ریستوران میں 'مفت کھانا سب کے لئے' کے نام سے پروگرام متعارف کرایا۔ جہاں اُن تمام لوگوں کے لیے کھانا بالکل مفت ہے جن کے پاس دینے کے لیے پیسے نہیں ہوں۔



https://twitter.com/ArtofWarm/status/816497059507372032

یحیٰ ہاشمی کہتے ہیں کہ 'بہت دفعہ سخت سردی میں رات کے وقت لوگ یہاں پر آتے تھے'۔ آپ اُن کی نظروں سے اندازہ نہیں کرسکتے کہ وہ کتنی مشکل اور کٹھن زندگی گزار رہے ہیں، اُنہیں بے حد بھوک لگی ہوتی تھی، میں نے باورچی سے کہہ رکھا تھا کہ ہمیں کسی کی معاشی صحت کا اندازہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے پس جو بھی کھانے کے لئے کہے تم مہیا کردینا۔



ریستوران میں چکن شوارما، دال کا سوپ اور کچھ دوسرے مشرقِ وسطیٰ کے کھانے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ریستوران پر آنے والوں میں بے گھر افراد کے علاوہ ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد ہے جو صرف وہاں پر لوگوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھاتے دیکھنے اور مسلم نوجوانوں کے جذبے کو سراہنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ دنیا بھر کے لوگوں کو مسلمانوں سے متعلق اپنے خیالات اور نظریات کو یقین کی دہلیز سے واپس لاکر نظرِثانی کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔

مسلمانوں کی جانب سے انسانیت کی خدمت کی نہ یہ کوئی پہلی مثال ہے اور نہ آخری، لیکن یہ عمل اُس مغربی میڈیا کے لیے غور و فکر کی راہ ضرور ہموار کرتا ہے جو ساری عرق ریزی اِس زہر کو پھیلانے پر کرتا ہے کہ مسلمان دنیا کے امن کے لئے ایک مستقل خطرہ ہیں، ساتھ ساتھ اُن عالمی تنظیموں کو بھی اپنی سوچ تبدیل کرنے کے لیے دباو ڈالتا ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتی کہ دین اسلام دہشت گردی کا تربیتی مرکز اور پرچار کرتا ہے۔

درحقیقت ریستوران کے مالکان اور اُن کی مدد کرنے والے دنیا کو یہ باور کروا رہے ہیں کہ مسلمان مذہب سے بالاتر ہو کر تمام انسانیت کے لئے دردِ دل رکھنے والے لوگ ہیں، اور یہ زبانی بات نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا میں عملی طور پر یہ ثابت بھی کررہے ہیں۔ مسلمانوں کو اِس بات سے ہرگز کوئی سروکار نہیں کہ میڈیا اُن کے بارے میں کیا کہتا ہے، اُنہیں جو چیز بے چین کرتی ہے وہ دکھی انسانیت ہے۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ مسلمان دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ ہیں۔ اگر یقین نہیں تو آئیے چیدہ چیدہ نکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

  • دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس مسلمان چلا رہے ہیں۔

  • برِصغیر میں خانقاہوں، مزاروں پر مفت کھانا دیا جا تا رہا ہے۔

  • مدارس میں مفت تعلیم کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔

  • مدینہ کی ریاست نے دنیا میں سوشلزم کی بنیاد رکھی۔

  • رمضان المبارک میں سحر و افطاری میں پوری دنیا میں بڑے بڑے دسترخوان لگائے جاتے ہیں۔


یہ وہ سارے کام ہیں جو اہلِ مغرب نے پسِ پشت ڈال کر بدامنی کا لیبل چسپاں کرکے اُمت کو ذلت اور رسوائیوں کی اشتہار بازی میں چلا دیا۔

کیا ہی بہتر ہو اگر 'مارچے فردوس' کے مسلمان مالکان کے اِس آئیڈیا کو تمام مسلم ممالک کے کاروباری اور فلاحی ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں لاگو کرکے ایک سماجی اور معاشی انقلاب کی شکل دیں جس کا منطقی انجام بھوک اور افلاس کا خاتمہ، بے گھر افراد کی عزتِ نفس کے تحفظ کے ساتھ بنیادی حق یعنی کھانے کی فراہمی اور سب سے بڑھ کر اُمت کی خود اعتمادی کی واپسی ہو۔

شیف عبدالقادر بجوئی کی بات اُن سب لوگوں کے لئے ایک نئی جہت ہے جو نسلِ انسانی اور اُمت کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
'رات کو پیٹ بھر کر کھانا کھا کر سوجانا بڑی بات نہیں بلکہ کسی کو بھوکہ نہ سونے دینا بڑی بات ہے۔'

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

مقبول خبریں