تھرکا کالا سونا (آخری حصہ)

فریدہ فرحت آغازئی  بدھ 18 جنوری 2017

اس سارے منصوبے میں جس بات نے مجھے سب سے زیادہ خوشی دی وہ ان کا خوشحال تھرکے بارے میں بہت جامع اور منظم منصوبہ بندی ہے۔ جس طرح سے وہاں کے لوگوں کی بہبود کے لیے لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے اسی طرح اس پر عملدرآمد بھی ہورہا ہے۔ اگر ایک فرد بھی ایک گھر سے باروزگار ہوگا تو وہ 20 سے 25 روپے کماسکے گا، کیونکہ اگر ہم کم ازکم خواتین کی بات کریں تو سندھ گورنمنٹ کے تحت Un-Skilled ملازم کی تنخواہ 14 ہزار ہے۔ کامران حسین نے بتایا کہ ہمارے ہاں اگر کوئی Un-Skilled آدمی کام کر رہا ہے تو تنخواہ 14 ہزار تو ہے ہی لیکن اوور ٹائم ملاکر جوکہ نارملی 67 روپے گھنٹہ ہوتا ہے یہاں 137 فی گھنٹہ دیا جاتا ہے تو اس طرح وہ 20 سے 25 ہزار روپے کما سکتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہم نے شروعات ڈرائیونگ سے کی ہیں۔ اور بلاک 2 سے 200 لڑکوں کا انتخاب کیا۔ اور ان لوگوں کو 3 مہینے کے کورس کے لیے بھیجا۔

یہ NLC انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میںہے۔ وہاں پر ان کی ٹریننگ ہوئی اور واپس لایا گیا پھر ان کے skills چینی ڈرائیورزکے ساتھ ٹیسٹ کیے گئے کیونکہ ایک بڑا پروجیکٹ ہے۔ اوور برڈن لیول۔ جس کے تحت 120 ملین کیوبک فیٹ مٹی ہٹائی جائے گی جس کے نیچے سے کوئلہ نکلے گا۔ ابھی تک 60 فیٹ کی گہرائی تک کھدائی ہوچکی باقی کام 2019ء تک ہونے کا امکان ہے۔

روزگار کے لیے 5676 افراد رجسٹرڈ ہیں 1273 با روزگار ہیں جن میں 273 بلاک 2 سے 350 قریب کے گاؤں دیہات سے۔ مائنزکی بات کی جائے تو سب اے اہم بات ہیوی ڈیوٹی وہیکل کی ڈرائیونگ ہے۔ اور یہ ڈمپر پاکستان کا سب سے بڑا ڈمپر ہے۔ تھرکول کا بلاک 2 اس وقت ساری ذمے داریاں نبھا رہا ہے اس میں 8 گاؤں اور بہت سی دھانیاں ہیں۔ ان کے خیال میں ہماری پہلی ذمے داری legally, morally, constitutionally یہ ہے کہ جو بھی جاب ہے ریلیٹڈ کام ویلفیئر کے کام سب بلاک 2 کے تحت کرنے ہیں۔

Women Empowerment کے حوالے سے بھی ایک پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے تحت لوکل تھر کی خواتین کو تلاش کر رہے ہیں اور 5 خواتین رجسٹرڈ بھی ہوئی ہیں جس کے تحت خواتین کو ڈرائیونگ کی ٹریننگ دی جائے گی ۔ پہلے ان کو کار ڈرائیونگ پھر Hiace یا وین اور پھر بس اور پھر ٹرک پر لے کر آئیں گے۔ اس کا پورا پلان نہ صرف تیار ہے بلکہ اس پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔

تعلیم کے سیکٹر میں بھی 2015ء سے ایک پروگرام مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ شروع کیا جا چکا ہے۔ خاص طور پر Minning Engineering کا رجحان بڑھانے کے لیے یہ پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ جس میں بچوں کا سلیکشن کرتے ہیں اور 100 فیصد ان کی تعلیم کو sponsor کرتا ہے۔ اینگرو جس میں ان کی 4 سال کی انجینئرنگ کی fees،ان کے ہوسٹل میں رہنے کے اخراجات، ان کی کتابوں اورکورس میٹیریل کے اخراجات، اس کے علاوہ 10,000 روپے مہینہ ان کو معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ سہولت صرف تھرکے لوکلز کے لیے ہی ہے۔

مختصراً بہت خوش آیند منصوبہ بندی جو شروع ہی تھرکے لوگوں کی بھلائی میں کی جا رہی ہے اور پینے کے پانی سے لے کر روزگار، خواتین کی بہبود تعلیم کا حصول سب ہی کی بات کی جا رہی ہے اور جیساکہ 2015ء سے لے کر 2017ء کے اوائل تک دیکھنے میں آرہا ہے کہ جو کچھ بتایا گیا کام ویسے ہی اور اسی رفتار سے ہو رہا ہے اور امید بھی یہی ہے کہ اسی رفتار سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ شکوک و شبہات جو لوگوں کے ذہن میں جنم لے رہے ہیں وہ بھی ایک قدرتی عمل ہے۔ اس پاکستان میں ترقی اورفلاح کی طرف لے جانے والا کوئی آیا ہی نہیں اور تھر کی صدیوں سے پیاسی دھرتی جو صرف پانی ہی نہیں ہر سہولت سے ہی ہمیشہ سے دور رہی۔ان کے آقاؤں ہر دور میں اپنے خزانے اتنے جمع کیے کہ قارون ہوتا تو اس کے خزانے بھی کم ہوتے اور وہ حیران ہوتا کہ کیسے یہ لوگ مجھے بھی مات دیے جاتے ہیں۔

لیکن ان آقاؤں کی ہوس کی پیاس نہیں بجھی کوئی تو سوچتا کہ اس دھرتی کے لیے جوکہ ہماری ماں ہے جو ہماری پہچان ہے کچھ اچھے کام کرتا۔ اسی لیے اب جب کہ ٹیبل ٹرن ہونے کو تیار ہے بہت سے ذہنوں میں بہت سارے سوالات ہیں ہمارے ساتھ موجودکئی لوگوں کے سوالات میرے بھی ذہن سے چپک گئے ہیں کہ اصل بات کیا ہے؟ حقیقت میں ہونے کیا جارہا ہے؟ ایک صاحبہ نے تو یہ سوال بھی کردیا کہ کھدائی کے باوجود کوئلہ نہ نکلا تو آپ کے پاس پلان B کیا ہے؟ ایک سوال تھا کہ آپ نے اسٹیج تو ہمیں دکھا دیا بیک اسٹیج کیا معاملہ ہے؟ چونکہ چائنا سارے ہی ریجن میں پھیل چکا یا پھیل رہا ہے جس میں ایران، ترکی، پاکستان ، سری لنکا، بنگلہ دیش وغیرہ شامل ہیں، انڈیا سے بھی معاملے کرنے میں چائنا چوک نہیں رہا ہے، گوادر کا معاملہ اور سلک روٹ تو بہت پہلے سے ہی خبروں کی زینت بنا رہا ہے مگر اب تھرکول پاورپلانٹ؟ صرف 6 کلومیٹرکی دوری پر انڈین بارڈر سے؟ اور سندھ گورنمنٹ کی Un Conditional Support؟ وہ گورنمنٹ آف سندھ جس نے اس سے پہلے سندھ کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کیا ہو۔ سوالات تو اٹھ رہے ہیں اور جب تک مکمل اطمینان نہ ہو اٹھتے رہیں گے۔سی پیک خود ایک بڑا تناظر رکھتا ہے۔

ایک بات جو میرے ذہن میں مسلسل مچل رہی تھی کہ کیا چین بیشتر کمائی لے جائے گا؟ کیونکہ سارا پیسہ وہ لگا رہا ہے۔ اس کے باوجود اس علاقے کی تقدیرتو بدل رہی ہے۔ لوگوں کو روزگار مل رہا ہے زندگی کا قرینہ بدل رہا ہے۔ وہ دھرتی جو صدیوں سے پیاسی تھی اس کو صاف پانی، بجلی، روزگار، تعلیم جیسی نعمتوں سے روشناس کروانے کا ارادہ جب قدرت نے کر ہی لیا ہے تو بھلا اس کو ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ اور روکنا چاہیے بھی نہیں۔ ورنہ وہی غربت، جہالت اور بھوک پیاس ان کا مقدر بنی رہے گی جو صدیوں سے ان کا مقدر بنی رہی ہے۔

دی اکنامسٹ انٹرنیشنل جرنل کی پیش گوئی کے مطابق پاکستان مسلم دنیا کی تیز ترین معاشی ترقی پانے والے ممالک میں آجائے گا2017ء میں انشا اللہ۔ اور لندن اکنامسٹ میگزین کے مطابق پاکستان 2017ء میں انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اور مصر سے مقابلتاً زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوگا۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کا GDP جوکہ 5.3 ہے وہ اسرائیل سے بھی زیادہ ہے جوکہ 4 فیصد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اب یہ الگ بات کہ ان سب ممالک کی اپنی ترقی کی رفتار اور شرح کیا رہی ہوگی ماضی میں اور ہمارا اور ان کا کیا مقابلہ ہے یہ تو اس چھوٹے سے مضمون میں ممکن نہیں لیکن پاکستان کے بہترین مستقبل کی خواہش پر پاکستان کے دل میں ہمیشہ پلتی ہے اور جب قدرت ہمیں محنت کے مواقعے دے رہی ہے اور ساتھ بھی کامیاب لوگوں کے تو پھر قدم بہتری کی طرف ہی بڑھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔