پارک لین فلیٹوں کی خبرچلانے والے رپورٹر کے خلاف تحقیقات شروع کردی، ذرائع بی بی سی

اے پی پی  جمعرات 19 جنوری 2017
خبر میں کہا گیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر 4 فلیٹ خریدے گئے۔ فوٹو : فائل

خبر میں کہا گیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر 4 فلیٹ خریدے گئے۔ فوٹو : فائل

 اسلام آباد: بی بی سی انتظامیہ نے اپنے پلیٹ فارم سے پارک لین فلیٹوں کی خبر کو غلط انداز میں چلانے والے رپورٹر کے خلاف  تحقیقات شروع کر دی۔

پی ٹی آئی نے ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلیے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا۔ بی بی سی میں انتہائی معتبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رپورٹر اطہر کاظمی پر بی بی سی کی انتظامیہ کا الزام ہے کہ وہ ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور اپ لوڈ کر کے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جبکہ بی بی سی کو اس بات پر پریشانی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم کو پارک لین کے فلیٹوں سے متعلق خبر کو نئی خبر کے طورپر پیش کرنے کیلیے استعمال کیا گیا۔

دوسری جانب بی بی سی نے رپورٹر کے خلاف اندرونی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جس پر بی بی سی نے الزام لگایا ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں کی ملکیتی پارک لین کے فلیٹوں کی ایک خبر کو بی بی سی کے پلیٹ فارم سے غلط طور استعمال کر رہا ہے۔ جولائی 2015ء میں بی بی سی کو ایک اور بڑی پریشانی اس وقت ہوئی تھی جب بی بی سی اردو کو نااہل اور کمزور کہا گیا، جب بی بی سی اردو کے رپورٹر احمد خواجہ نے غلطی سے ایک ٹویٹ کیا کہ ملکہ کا انتقال ہو گیا ہے۔

بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بی بی سی کو ایک بڑی مشکل صورتحال میں ڈال دیا گیا ہے، خبر میں کوئی نئی بات نہیں، ہمارے رپورٹر نے ڈیوٹی ایڈیٹر کو گمراہ کیا، جس نے یہ سمجھا کہ خبر میں نئی معلومات ہیں اور اگر اسے ہم رد کرتے ہیں تو اس سے ایک بڑا اسکینڈل بنے گا اور اس کی خبریں لگیں گی۔

معتبر ذرائع نے بتایا کہ اس رپورٹر کی تحریر میں شامل ایک فائل پیش کی جو سپریم کورٹ پیپرزکا حصہ ہے اور طویل عرصے سے ان کاغذات کے مندرجات عوام کے سامنے رہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں تنقید کے بعد پاکستانی رپورٹر کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی نے ایک اپ لوڈ خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلیے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا، یہ وہی رپورٹر ہے جو ایک اور چینل پر کام کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر عمران خان کے بھتیجے حسن نیازی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان پر حملے میں ملوث تھا۔

ذرائع کے مطابق یہی رپورٹرجہانگیر ترین کو دسمبر میں بی بی سی اردو کے لندن اسٹوڈیو لایا اور ان کا انٹرویو کیا تاہم بی بی سی انتظامیہ نے اسے روک دیا کیونکہ اس میں توہین آمیز الزامات شامل تھے۔ تحقیقات کے آغاز کے بعد اطہر کاظمی نے پی ٹی آئی کی حمایت میں اپنے درجنوں ٹویٹس کو ڈیلیٹ کیا تاہم ان ٹویٹس کو پہلے ہی محفوظ کر لیا گیا اور اسے تحقیقات کا حصہ بنایا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے اطہر کاظمی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کو بی بی سی اردو لایا، جہانگیر ترین نے اس سے کہا کہ وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر کوئی چیز چلائے، جس کا غلط طور استعمال ہو سکے۔ بی بی سی اردو نے پارک لین اپارٹمنٹس کی ملکیت کا ذکر تو کیا تاہم ایسی کوئی بات نہیں کی کہ 2006ء سے قبل یہ کس کی ملکیت تھا اور یہی بڑا سوال ہے۔

بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے ہمیشہ نیلسن کے نام سے جانا گیا اور 90ء کی دہائی میں نیسکول کے پاس فلیٹوں کی ملکیت تھی تاہم 2006ء سے قبل نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ بی بی سی اردو کی خبر میں کہا گیا کہ لندن کے پارک لین میں شریف فیملی کی جائیداد 90ء کی دہائی میں خریدی گئی اور اس کے بعد سے اس کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ خبر میں کہا گیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر 4 فلیٹ خریدے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔