- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
- وزارتِ صنعت و پیداوار نے یوریا کھاد درآمد کرنے کی سفارش کردی
- ٹی20 ورلڈکپ؛ 8 بار کے اولمپک گولڈ میڈلسٹ یوسین بولٹ سفیر نامزد
- کہوٹہ؛ بس میں ڈکیتی کے دوران ڈاکو کی فائرنگ سے سرکاری اہلکار جاں بحق
- نوجوان نسل قوم کا سرمایہ
- اسلام آباد میں روٹی کی قیمت میں کمی کا نوٹیفکیشن معطل
- کیا رضوان آئرلینڈ کیخلاف سیریز میں اسکواڈ کا حصہ ہوں گے؟ بابر نے بتادیا
پارک لین فلیٹوں کی خبرچلانے والے رپورٹر کے خلاف تحقیقات شروع کردی، ذرائع بی بی سی
اسلام آباد: بی بی سی انتظامیہ نے اپنے پلیٹ فارم سے پارک لین فلیٹوں کی خبر کو غلط انداز میں چلانے والے رپورٹر کے خلاف تحقیقات شروع کر دی۔
پی ٹی آئی نے ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلیے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا۔ بی بی سی میں انتہائی معتبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ رپورٹر اطہر کاظمی پر بی بی سی کی انتظامیہ کا الزام ہے کہ وہ ایک پرانی خبر کو نئی خبر کے طور اپ لوڈ کر کے پاکستان کی ایک سیاسی جماعت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جبکہ بی بی سی کو اس بات پر پریشانی ہے کہ اس کے پلیٹ فارم کو پارک لین کے فلیٹوں سے متعلق خبر کو نئی خبر کے طورپر پیش کرنے کیلیے استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب بی بی سی نے رپورٹر کے خلاف اندرونی تحقیقات شروع کر دی ہیں، جس پر بی بی سی نے الزام لگایا ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کے بیٹوں کی ملکیتی پارک لین کے فلیٹوں کی ایک خبر کو بی بی سی کے پلیٹ فارم سے غلط طور استعمال کر رہا ہے۔ جولائی 2015ء میں بی بی سی کو ایک اور بڑی پریشانی اس وقت ہوئی تھی جب بی بی سی اردو کو نااہل اور کمزور کہا گیا، جب بی بی سی اردو کے رپورٹر احمد خواجہ نے غلطی سے ایک ٹویٹ کیا کہ ملکہ کا انتقال ہو گیا ہے۔
بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بی بی سی کو ایک بڑی مشکل صورتحال میں ڈال دیا گیا ہے، خبر میں کوئی نئی بات نہیں، ہمارے رپورٹر نے ڈیوٹی ایڈیٹر کو گمراہ کیا، جس نے یہ سمجھا کہ خبر میں نئی معلومات ہیں اور اگر اسے ہم رد کرتے ہیں تو اس سے ایک بڑا اسکینڈل بنے گا اور اس کی خبریں لگیں گی۔
معتبر ذرائع نے بتایا کہ اس رپورٹر کی تحریر میں شامل ایک فائل پیش کی جو سپریم کورٹ پیپرزکا حصہ ہے اور طویل عرصے سے ان کاغذات کے مندرجات عوام کے سامنے رہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں تنقید کے بعد پاکستانی رپورٹر کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی نے ایک اپ لوڈ خبر کو نئی خبر کے طور پیش کرنے کیلیے اطہر کاظمی کے ذریعے بی بی سی کو نقصان پہنچایا، یہ وہی رپورٹر ہے جو ایک اور چینل پر کام کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے باہر عمران خان کے بھتیجے حسن نیازی کے ہمراہ مولانا فضل الرحمان پر حملے میں ملوث تھا۔
ذرائع کے مطابق یہی رپورٹرجہانگیر ترین کو دسمبر میں بی بی سی اردو کے لندن اسٹوڈیو لایا اور ان کا انٹرویو کیا تاہم بی بی سی انتظامیہ نے اسے روک دیا کیونکہ اس میں توہین آمیز الزامات شامل تھے۔ تحقیقات کے آغاز کے بعد اطہر کاظمی نے پی ٹی آئی کی حمایت میں اپنے درجنوں ٹویٹس کو ڈیلیٹ کیا تاہم ان ٹویٹس کو پہلے ہی محفوظ کر لیا گیا اور اسے تحقیقات کا حصہ بنایا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے اطہر کاظمی نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کو بی بی سی اردو لایا، جہانگیر ترین نے اس سے کہا کہ وہ بی بی سی کی ویب سائٹ پر کوئی چیز چلائے، جس کا غلط طور استعمال ہو سکے۔ بی بی سی اردو نے پارک لین اپارٹمنٹس کی ملکیت کا ذکر تو کیا تاہم ایسی کوئی بات نہیں کی کہ 2006ء سے قبل یہ کس کی ملکیت تھا اور یہی بڑا سوال ہے۔
بی بی سی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے ہمیشہ نیلسن کے نام سے جانا گیا اور 90ء کی دہائی میں نیسکول کے پاس فلیٹوں کی ملکیت تھی تاہم 2006ء سے قبل نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔ بی بی سی اردو کی خبر میں کہا گیا کہ لندن کے پارک لین میں شریف فیملی کی جائیداد 90ء کی دہائی میں خریدی گئی اور اس کے بعد سے اس کی ملکیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ خبر میں کہا گیا کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے نام پر 4 فلیٹ خریدے گئے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔