مغربی میڈیا سے یہ ’بھی‘ سیکھیے!

رمضان رفیق  جمعرات 19 جنوری 2017
لیکن دوسری طرف پاکستان کے ٹی وی چینلز میں کچھ مخصوص پروگرامز کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا، ملکی سیاست، مذہب، کھانا پینا اور کچھ ملتے جلتے موضوعات۔ فوٹو: فائل

لیکن دوسری طرف پاکستان کے ٹی وی چینلز میں کچھ مخصوص پروگرامز کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا، ملکی سیاست، مذہب، کھانا پینا اور کچھ ملتے جلتے موضوعات۔ فوٹو: فائل

کئی سال ہوگئے، اب میں پاکستانی ٹی وی چینل کم ہی دیکھتا ہوں، جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جو آگے جاکر بتائی جائیں گی۔ میں جب بھی پاکستان چینل کی بات کرتا ہوں تو مجھے اپنے زمانے کا پی ٹی وی یاد آجاتا ہے، میرے بچپن کا نہ بھولنے والا ڈرامہ آخری چٹان یاد آجاتا ہے اور وہ ریسلنگ بھی جو ہفتے میں ایک بار آتی تھی اور کارٹون جو شب وصال سے بھی مختصر ہوتے تھے۔

میری پسند کا ٹی وی ہمیشہ سے ایسا رہا ہے جس میں سامعین و ناظرین کسی نہ کسی صورت حصہ لے سکیں۔ ہمارے طالب علمی کے دور میں نیلام گھر ایک مقبول پروگرام تھا، جو بعد میں طارق عزیز شو کے نام سے موسوم ہوا۔ مجھے اُس پروگرام میں شرکت کا موقع بھی ملا اور ہال میں سب سے زیادہ نمبر لے کر گاڑی جیتنے کے مقابلہ میں بھی پہنچا مگر بدقسمتی سے مقابلہ ہار گیا۔ ماسٹر مائنڈ کوئیز کے نام سے توثیق حیدر صاحب کے ایک پروگرام میں بھی شریک ہوا، اور دوسری پوزیشن لی۔ قریش پور صاحب نے بھی ایک کوئیز شو ہوسٹ کیا تھا، اس میں ایگری یونیورسٹی کی ٹیم کے ساتھ آنے کی وجہ سے پروگرام کا حصہ بنا۔

ایسے معلوماتی پروگرامز کے بعد موجودہ زمانے میں اِسی طرز کے کئی پروگرامز ٹی وی پر دیکھنے کو ملے، مگر افسوس کہ اِن پروگراموں میں لوگوں کو اُن کی علمیت کی بنیاد کے بجائے اداکاری کی بناء پر انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے پروگرامز میں تحائف مفت کے مال کی طرح بٹتے دیکھ کر ایک دن میری ماں جی کہنے لگی،

تو کیوں نہیں جاندا، موٹر سائیکل تے لے ہی آویں گا۔

خیر اِن ساری باتوں کا شانِ نزول میرے سامنے ٹی وی پر چلنے والا ماسٹر شیف کا پروگرام ہے۔ اِس پروگرام کو دنیا کے کئی ممالک میں اُن کے حساب سے تیار کیا گیا ہے، جس میں اچھا کھانے بنانے والے ایک محدود وقت میں بہترین کھانا بنا کر ججز کے سامنے رکھتے ہیں اور بہترین کھانا بنانے والوں کو صف اول کے ریستوران میں نوکری کے ساتھ ساتھ انعام و اکرام کی بارش کی جاتی ہے۔ اِس طرز کے کرئیٹو ٹی وی پروگرامز میں امریکی ٹی وی کا پروگرام ’باس انڈر کور‘ بھی شامل ہے جس کا میں بھی مداح ہوں۔ اِس پروگرام میں بڑی کمپنی کا باس بہروپ بدل کر اپنی کمپنی کے کسی شعبہ میں کام کرنے جاتا ہے۔ لارڈ شوگر کا برطانوی ٹی وی پر شو جس میں لوگ کاروبار کی تراکیب کو عملی جامہ پہناتے ہیں۔ ساتھ ساتھ امریکن آئیڈل، امریکہ گوٹ ٹیلنٹ اور برطانیہ گوٹ ٹیلینٹ بھی اسی طرز کے پروگراموں کی مثالیں ہیں۔

اِن پروگرامات کے علاوہ اور بھی بہت سے پروگرامز ہیں جن کے نام مجھے یاد نہیں لیکن اُن کے آئیڈیاز بہت خوبصورت ہیں۔ جیسے ایک کمپنی آپ سے کہتی ہے کہ آپ کا پرانا گھر ہم کلی طور پر مرمت کردیں گے، اُس میں وہ آپ سے کہتے ہیں کہ ایک محدود وقت میں آپ اپنے گھر کا جتنا سامان باہر پڑے کنٹینر میں ڈال دیں گے اُسی اعتبار سے آپ کو انعامات ملیں گے۔ پھر وہ کمپنی مختلف لوگوں سے مل کر جن میں ماہر نقشہ ساز (آرکیٹیکٹ)، لینڈ اسکیپر، رنگ و روغن کرنے والے غرض یہ کہ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، وہ کچھ ہی دنوں میں آپ کے گھر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ جب آپ واپس آتے ہیں تو گھر انتہائی خوبصورت ہوچکا ہوتا ہے۔ ایک ڈینش ٹی وی کے پروگرام میں جو جوڑے اپنے ماہانہ اخراجات کو قابو نہیں کرسکتے اُن سے مل کر ماہر معاشیات اُن کو اپنی آمدنی میں جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ ڈینش ٹی وی کا ہی ایک باغبانی کا پروگرام ہے جس میں جب میاں کچھ دنوں کے لئے چھٹیوں پر ملک سے باہر ہو تو خاتون خانہ ٹی وی والوں سے مل کر اپنے لان کا نقشہ تبدیل کردیتی ہے اور واپسی پر اپنے میاں کو سرپرائز دیتی ہے۔

لیکن دوسری طرف پاکستان کے ٹی وی چینلز میں کچھ مخصوص پروگرامز کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتا، ملکی سیاست، مذہب، کھانا پینا اور کچھ ملتے جلتے موضوعات۔

پچھلے کچھ عرصہ میں حسب حال سے آغاز ہونے والا مزاحیہ پروگراموں کا سلسلہ ایک وبا کی طرح سارے چینلز پر پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اُن کے سوا کیا ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز بانجھ ہیں جو کچھ بھی نیا نہیں دکھا سکتے؟ انٹرٹینمٹ کے نام پر صرف ڈرامے ہیں اور بس۔

میرے خیال میں ہمارے ٹی وی چینلز کو آگے بڑھ کر اِس معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے ہر میدان میں نئے موضوعات پر پروگرامات شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر صرف اور صرف رینٹنگ ہی کو معیار بنا کر پروگرام بنتے رہے تو پچھلے عشرے میں پاکستانی سینما اور تھیٹر کے ساتھ جو حال ہوا ہے وہی ہمارے ٹی وی کا ہوگا، نیوز اور صرف نیوز آدمی کب تک سن سکتا ہے؟ ایک ہی خبر کو رگڑ رگڑ کر کتنی سردائی بنائی جا سکتی ہے۔

میرا مشورہ ہے کہ ہمارے ٹی وی چینلز اسکول و کالجز کے طلبہ کے درمیان مقابلہ جات کا کوئی پروگرام آغاز کریں، جیسا گانوں کے مقابلہ کا آئیڈل چنا جاتا ہے، ایسے ہی پاکستان کا بہترین مقرر چننے میں کیا حرج ہے؟ میری خود کی بڑی خواہش رہی ہے کہ میں پاکستان کے کالجز اور یونیورسٹی کے طلبہ کے مقابلہ تقاریر یا مباحثہ کی میزبانی کروں، اور اُس پر ایک ٹی وی شو ترتیب دوں۔ اِس حوالے سے ایک دو دوستوں سے بات بھی ہوئی لیکن ابھی وہ فیصلہ ساز نہیں۔

نوجوان طلبہ و طالبات کے لیے اسپورٹس پر ایک پروگرام ترتیب دیا جا سکتا، صحت عامہ پر پروگرامز بھی اتنے نہیں جتنے ہونے چاہیے۔ مقامی ہیروز کی حوصلہ افزائی کا کوئی بھی پروگرام موجود نہیں کہ ہم اپنے اپنے علاقوں کے محسنوں کو تصویر کرکے دوسرے لوگوں کو تحریک دے سکیں۔ کمیونٹی ڈویلپمنٹ پر بے شمار پروگرام ترتیب دیے جا سکتے ہیں، جیسے کچن گارڈن شو، ہر دفعہ ایک نئے علاقے میں جا کر لوگوں کو عملی طور پر کچن گارڈننگ کی تربیت دی جائے۔ پاکستان میں زمین جائیداد کے بے شمار جھگڑے ہوتے ہیں، اِس تناظر میں بھی کوئی پروگرام آگاہی کا سبب بن سکتا ہے۔

اُمید کرتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کا سب سے نفیس طبقہ ہمارے اصل مسائل حل کرنے میں ہاتھ بٹاتا نظر آئے، وگرنہ گندگی کے ڈھیر کسے نظر نہیں آتے؟ رونا کسے نہیں آتا؟ شور کون نہیں مچا سکتا؟ لیکن ہمت تو اُس کی ہے جو ایسے حالات میں منظر نامہ تبدیل کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ میری خواہش ہے کہ جلد ہمارے ٹی وی چینلز روائتی مشقوں کے بجائے مندرجہ بالہ بیان کیے گئے موضوعات اور دیگر مزید اچھے موضوعات کو جگہ بھی دیں گے اور اِس بریکنگ نیوز کلچر سے باہر نکل کر تازہ ہوا میں سانس لیں۔

ٹی وی پر چلنے والے پروگرامات اور موضوعات کے حوالے سے بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں
رمضان رفیق

رمضان رفیق

رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ آپ ان کے بلاگ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ www.ramzanrafique.com

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔