انوکھی جعل سازی

ایڈیٹوریل  جمعرات 19 جنوری 2017
۔ فوٹو: فائل

۔ فوٹو: فائل

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن کو ان کے مبینہ بینک اکاؤنٹس میں دس، دس کروڑ روپے منتقلی کی رسیدیں بادی النظر میں یا مخالفین کی نظر میں ہٰذا من فضل ربیّ کی طرح موصول ہوئی ہیں تاہم ابتدائی تحقیق میں وہ سب جعلی ثابت ہوئی ہیں اور ان تمام قانون سازوں نے ان انوکھے جعلی اکاؤنٹس سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔

بلاشبہ ان بینک اکاؤنٹس کی حیثیت چاہے دیو مالائی ثابت ہو بہر حال جن پرسرار اور غیر مرئی قوتوں نے یہ بینکنگ ڈرامہ رچایا ہے وہ اپنے محرکات اور سازشی تھیوری پر عمل کر کے ملکی سیاسی عمل اور نظام بینکاری کو کتنے ہولناک نقصان سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اس کا تصور کرتے ہوئے بھی بد ن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے لگتا ہے وطن دشمن عناصر اس مملکت خداداد کو ’’یہ دیس ہے ٹھگوں کا‘‘ جیسی صورتحال سے دوچار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں بینک ڈکیتی، نقب زنی، جعلی بینک اسٹیٹمنٹ، رقوم کی منتقلی، غیر قانونی آن لائن بینکنگ وغیرہ کے درجنوں فراڈ رونما ہوتے رہتے ہیں، اور آج بھی افریقہ و دیگر ملکوں میں انٹرنیٹ پر جعلی لاٹری، مالیاتی اسکیم، اور متوفی افراد کے سیف ڈپازٹس میں پڑے ہوئے کروڑوں ڈالرز کی مستحق اشخاص کو منتقلی کی نت نئی جعل سازیوں کا بازار گرم ہے لیکن جو واردات ان حالیہ جعلی بینک اکاؤنٹس اور ان کی موصول شدہ رسیدوں کی شکل میں ہوئی ہے وہ اپنی نوعیت کی نرالی اور تشویش ناک چمتکاری ہے۔

یہ پارلیمنٹیرینز پر خود کش حملہ ہے۔ لہٰذا اس بینکنگ گینگسڑازم اور جعلسازی میں جو بھی ملوث ہوں انھیں عبرت ناک سزا ملنی چاہیے، ہمارے مالیاتی شرلاک ہومز تحقیق کریں کہ یہ کون سے بے چہرہ عناصر ہیں جو بینکنگ نظام پر عوام کے اعتماد کو متزلزل کرنے کی شرمناک مہم جوئی میں کامیاب ہوئے۔ خبروں کے مطابق خورشید شاہ اور ایاز صادق کو ان کے چیمبرز کے پتے پر جب کہ رضا ربانی کو کراچی والے گھر کے ایڈریس پر ایس ایم ای بینک کی رسیدیں ملیں۔

رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس کے دوران بتایا کہ اس بینک کی طرف سے انھیں ایک خط موصول ہوا ہے جس میں انھیں بتایا گیا کہ ان کے اکاؤنٹ میں دس کروڑ روپے کی رقم موصول ہوگئی، چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ سراسر فراڈ ہے، ان کا اس بینک میں کوئی اکاؤنٹ نہیں۔ دیگر بینکس میں جو بھی ان کے اکاؤنٹس ہیں ان میں جمع رقم کی تفصیل انکم ٹیکس گوشواروں میں دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے خود بھی اس معاملے پر ایس ایم ای بینک کے صدر سے بات کی اور ڈی جی ایف آئی اے کے نوٹس میں بھی یہ بات لائے ہیں اور کہا ہے کہ اس کی تحقیقات کرائی جائے۔

ترجمان قومی اسمبلی کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے گورنر اسٹیٹ بینک کو خط لکھا گیا ہے اور کہا گیا کہ اس واقعہ کی تحقیقات کر کے فوری آگاہ کیا جائے، اسپیکر آفس کو گورنر اسٹیٹ بینک کی طرف سے مطلع کیا گیا ہے کہ یہ جعلی ٹرانزیکشن ہے، اسپیکر آفس کی جانب سے گورنر اسٹیٹ بینک کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اس جعلی ٹرانزیکشن کی تحقیقات کر کے فوری رپورٹ کریں، جعلی ٹرانزیکشن کے بارے میں ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔

خورشید شاہ نے بتایا کہ دس کروڑ روپے فکسڈ ڈپازٹ کی بینک رسید اپوزیشن چیمبر کو موصول ہوئی، اپنے اکاؤنٹ میں دس کروڑ روپے کا جان کر حیران و پریشان ہو گیا، اپنے عملے کے ذریعے بینک سے رابطہ کیا توپتہ چلا کہ اکاؤنٹ جعلی اور رسید ڈرامہ ہے۔

بینک حکام نے رسید (ٹی ڈی آر) کو جعلی قرار دیا اور کہا انھوں نے ایسی کوئی ڈیپازٹ رسید جاری نہیں کی۔ انھوں نے اپنے اسٹاف کو ہدایت کی کہ ایف آئی اے سے معلوم کیا جائے کہ 10 کروڑ روپے کے جعلی ڈیپازٹ کے پیچھے کون ہے اور یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ اس کے محرکات کیا ہیں، فکسڈ ڈیپازٹ کا خط سازش ہو سکتی ہے اور ہو سکتا ہے میرے مخالفین نے ایسا کچھ کیا ہو، فضل الرحمان کے ترجمان نے پارٹی قائد کے جعلی اکاؤنٹ بننے اور اس کے تحت ٹرانزیکشن ہونے کی اطلاعات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے۔

سوچنے کی بات ہے کہ ملک کثیر جہتی بحران میں مبتلا ہے، جمہوریت میں عوامی ریلیف کے سوالات کا قوم جواب مانگتی ہے، خطے میں حالات نئے کروٹ لے رہے ہیں، ایک طرف بدعنوانی، قانون شکنی، غیرملکی بینکوں میں اربوں ڈالر کے چھپے ہوئے اکاؤنٹس، منی لانڈرنگ، پر تعیش فلیٹوں، کارخانوں، بے نامی اکاؤنٹس اور ناجائز ذرایع سے بنائی یا خریدی گئی جائیدادوں کے کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں دوسری جانب اس صدی کے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور ٹیکس چوری کے سب سے بڑے پاناما لیکس کیس کی سماعت جاری ہے تا کہ کرپشن کے سامنے ہمیشہ کے لیے بند باندھا جا سکے اور طرز حکمرانی شفاف ہو۔ لازم ہے کہ ارباب اختیار ایکشن لیں، اس قسم کی دلیرانہ وارداتیں ناقابل برداشت ہیں۔ ان خفیہ ہاتھوں کو کاٹ دینا چاہیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔