بھارت سندھ طاس معاہدہ توڑنا چاہتا ہے؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 20 جنوری 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ویسے تو بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی ہے لیکن جب بھارتی وزیر اعظم، نریندر مُودی، نے باقاعدہ یہ اعلان کیا کہ ’’ہم (پاکستان کی طرف جانے والے) پانی کی ایک ایک بُوند اپنے استعمال میں لائیں گے‘‘ تو پاکستان کے حکمرانوں اور ذمے دار اتھارٹیز کو اسی روز اپنے حصے کے پانی کے تحفظ کے لیے کمر کس لینی چاہیے تھی۔ ایسا بد قسمتی سے مگر نہ ہو سکا۔ اِس کاہلی اور نظر اندازی کا بھارت نے بر وقت خوب فائدہ بھی اٹھایا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اِس معاملے میں جماعت علی شاہ ایسے لوگوں نے ہمیں قومی سطح پر بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہماری زرخیز زمینوں کو بنجر بنانا اور پاکستان کے بیس کروڑ عوام کے لیے خوراک کا بد ترین بحران پیدا کرنے کے بھارتی منصوبوں اور عزائم کو مزید شہ ملی ہے۔مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر پاکستانی حصے کے پانیوں پر بھارت ڈیم اور آبی بند بنا کر پانچ عشرے پرانے معاہدے، جو ساری دنیا میں ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ کے نام سے معروف ہے، کی دھجیاں اڑا دینا چاہتا ہے تاکہ اُس کے پاکستان مخالف عزائم کی تکمیل ہو سکے۔ ایسا ہونا مگر اتنا آسان ہے نہ جَلد ممکن۔

پاکستان کی زراعت (جسے ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام حاصل ہے) کو تباہ کرنے اور پاکستان کی آبی شہ رگ کو دبانے کی غرض سے بھارت نے (سندھ طاس معاہدے کے تحت) پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر دو ڈیم بنا لیے ہیں۔ ایک کانام ’’کشن گنگا‘‘ اور دوسرے کا نام ’’رتلے ڈیم‘‘ ہے۔

یہ زورا زوری بھی ہے اور صریح بدمعاشی بھی۔ پہلے تو اسے روکنے کے لیے پاکستان نے براہ راست بھارت سے بات کی تاکہ اِسے عالمی تنازع نہ بنایا جائے لیکن بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا؛ چنانچہ مدد کے لیے پاکستان نے ورلڈ بینک کے دروازے پر دستک دی کہ اُسی نے سندھ طاس معاہدے پر ہمیشہ دونوں ممالک(پاکستان اور بھارت) کو عملدرآمد کرتے رہنے کی ضمانت دے رکھی ہے۔

پاکستان کے اس اقدام پر بھارت سخت پریشان ہُوا کہ اُس کے دل میں چور تو تھا ہی؛ چنانچہ بھارتی حکام نے ورلڈ بینک سے درخواست کی کہ وہ اِس معاملے میں مداخلت نہ کرے۔ بھارت کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے جنوری 2017ء کے پہلے ہفتے دہلی آئے ورلڈ بینک کے حکام سے وعدہ کیا کہ بھارت اور پاکستان مل کر یہ تنازع نمٹا لیں گے۔ اور ایسا نہ ہو سکا تو کسی ’’نیوٹرل ایکسپرٹ‘‘ کی درمیان داری سے یہ مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔

پاکستان نے دباؤ بڑھانے اور بھارت کو راہِ راست پر لانے کے لیے امریکی حکومت سے بھی ساتھ ہی استدعا کر دی تھی کہ وہ آگے بڑھے اور پاکستان کو بھارت کی تازہ ترین آبی جارحیت سے بچائے۔ اِس کے ساتھ ہی پاکستان نے حفظِ ماتقدم کے طور پر چینی حکام سے مل کر یہ بھی طے کر لیا کہ اگر بھارت ’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ یکطرفہ توڑ ڈالتا ہے تو بھارت سے ’’ سی پیک‘‘معاہدے کی نئی شِق کے تحت نمٹا جائے گا۔

سی پیک کے سائے تلے’’واٹر سیکیورٹی‘‘ کرنا پاکستان کے لیے از حد ضروری بھی تھا۔ اِسی دوران چین نے مبینہ طور پر جب بھارت کویہ دھمکی دی کہ وہ دریائے سندھ کا پانی روک سکتا ہے تو بھارتی بنئے کے ہوش مزید ٹھکانے آنے لگے۔ واضح رہے کہ دریائے سندھ اور دریائے ستلج چین سے نکلتے ہیں اور بھارت سے ہوتے ہُوئے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں جب کہ دیگر چار دریا (جہلم، چناب، راوی اور بیاس) بھارت (فی الحقیقت مقبوضہ کشمیر) سے نکلتے ہیں اور ایک طویل فاصلہ طے کر کے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔

بھارت اپنی کہہ مکرنیوں میں بے مثال رہا ہے۔ اِس بار بھی وہ اپنے اِس سابقہ کردار پر ’’قائم‘‘ رہا۔ ابھی ورلڈ بینک کے سامنے اُس کے مذکورہ وعدے کی بازگشت بھی نہ تھمی تھی کہ وہ پاکستان کو اُس کے جائز حصے کا پانی دینے سے پھر مُکر گیا۔ نئی دہلی میں بھارتی وزارتِ خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری، گوپال باگلے، جنوری 2017ء کے دوسرے ہفتے ورلڈ بینک کے متعلقہ افسران (جو مذکورہ تنازعے کے حل کے لیے متعین کیے گئے ہیں) سے ملے اور اُن کے انچارج، آئن ایچ سولمن، سے کہا کہ بھارت نے ( پاکستان کے پانیوں پر دو ڈیم کھڑے کر کے) کسی معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے اور نہ ہی سندھ طاس معاہدے کی کسی شِق کو توڑا ہے۔

آئن سولمن، جو مذکورہ جھگڑے کے کسی متفقہ حل کے لیے دہلی اور اسلام آباد میں شٹل کاک بنے ہوئے تھے، بھارتی کہہ مکرنی سُن کر حیران ہی تو رہ گئے۔ بھارت نے ڈھٹائی سے یہ بھی کہا کہ پاکستان جو اعتراض اٹھا رہا ہے، وہ محض ’’ٹیکنیکل‘‘ ہیں اور ’’اِنہیں ہم کسی نیوٹرل ایکسپرٹ یا کسی ثالث کی مدد سے حل کر لیں گے۔‘‘ آئن سولمن کی مانند، پاکستان بھی سناٹے میں آگیا۔ اِسی لیے پاکستان نے بھارت کی طرف سے کسی نام نہاد ثالثی یا ’’ نیوٹرل ایکسپرٹ‘‘ کو درمیان میں ڈالنے سے انکار کر دیا۔

سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیاں کرنے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی اِن خفی اور جلی بھارتی سازشوں اور کوششوں سے امریکا کو بھی سخت تشویش ہُوئی۔ اِسی لیے رخصت ہونے والے امریکی وزیرخارجہ، جان کیری، نے مسئلے کی سنگینی کے پیشِ نظر پاکستان کے وزیر خزانہ کو فون کرتے ہوئے کہا کہ مناسب یہی ہے کہ پاکستان اور بھارت مل بیٹھ کر، سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں، رتلے ڈیم اور کشن گنگا ڈیم کا تنازع ختم کریں۔

پاکستان تو جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کی خاطر اِس آبی تنازعے کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت کے دل میں چونکہ کھوٹ ہے، اس لیے وہ بار بار اپنے کہے سے مُکر بھی رہا ہے اور یوں ’’سندھ طاس معاہدے‘‘ کی روح کو زک بھی پہنچا رہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اُٹھی آزادی کی طاقتور لہر کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے؛ چنانچہ وہ پاکستان کو سزا دینے اور اس کا بازو مروڑنے کی نیت سے پاکستان کے پانیوں پر زور زبردستی قبضہ جمانا چاہتا ہے۔

پاکستان اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اِس بھارتی دباؤ کو قبول کرنے سے نہ صرف انکاری ہے بلکہ اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ بھارت کے بالمقابل کھڑا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے خلاف بھارت کی اِنہی بد نیتیوں کی وجہ سے پاکستان نے چین سے مل کر ’’دیامر بھاشا ڈیم‘‘ بنانے کی طرف اپنی نئی توجہ مرکوز کی ہے۔ اِس ڈیم پر پندرہ ارب ڈالر کا سرمایہ خرچ ہو گا۔

پاکستان کے چین کی طرف جھکاؤ کو دیکھ کر ورلڈ بینک اور ایشئن ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کو اِس ڈیم کے لیے قرض دینے سے صاف انکار کر دیا ہے؛ چنانچہ بہ امرمجبوری پاکستان کو اپنے دیرینہ دوست، چین، ہی کی استعانت لینا پڑی ہے تاکہ وطنِ عزیز کی زراعت اور فوڈ سیکیورٹی کا مستقبل محفوظ کیا جا سکے۔ پاکستان کو مگر بھارت کی کہہ مکرنیوں اور سندھ طاس معاہدے کی روح کو مجروح کرنے کی بھارتی چالوں سے دنیا کو آگاہ کرنے کی کوششوں سے باز نہیں آنا چاہیے۔

پاکستان میں عالمی قوانین کے ممتاز ماہر، جناب احمر بلال صوفی، بھی اصرار کے ساتھ یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ پاکستان کو عالمی فورموں پر بھارتی بد عہدیوں کا پردہ چاک کرتے رہنا چاہیے تاکہ بھارت کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے عریاں کیا جا سکے۔

ممتاز واٹر ایکسپرٹ، محترمہ سیمی کمال، کا بھی یہی موقف ہے :’’ سندھ طاس معاہدہ 74 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ کوئی معمولی معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بیس کروڑ آبادی کی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں۔ اِس معاہدے کی معیاد اور مدت کا کوئی اختتامی وقت مقرر نہیں ہے۔ اِس کا ضامن ورلڈ بینک ہے اور اِس کا متفق علیہ حل اِسے ہی نکالنا ہو گا۔ عالمی ادارے بھارت کو من مانیاں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستانی حکام کو بھی اپنی آنکھیں کھول کر رکھنی چاہئیں۔‘‘ اِس وارننگ کو کافی سمجھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔