سائبریا کے پرندے

کشور زہرا  جمعـء 20 جنوری 2017

بظاہر پاکستان کا شمار ترقی پذیرممالک میں ہوتا ہے حالانکہ پاکستان بننے کے بعد وجود میں آنے والے دیگر ممالک سرعت سے کام کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگے جن میں چین، کوریا، انڈونیشیا، ملائیشیاء، سنگاپور اورخلیجی ریاستوں کے علاوہ کئی ممالک شامل ہیں لیکن پاکستان اپنے چند معروضی حالات کے سبب نہ صرف ترقی کی راہ پر سست رفتار رہا بلکہ وہ بنیادی منصوبہ بندی اوراس پرعملدرآمد بھی نہ کرسکا، ہمیں اس کا پس منظر دیکھنا ہوگا کہ ماضی کی حکومتوں نے قانون سازی اورترقیاتی منصوبوں کوجس طرح ترتیب دیا۔

اس سے ترقی کا کم اورتنزلی کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جس کی وجہ سے آج ہم مشکل صورت حال سے دوچارہیں۔ مثلاً ایک حکومت نے قومیائے جانے کا فیصلہ کرکے قو م کو نوید دی کہ یہ سب تمہارا ہے لیکن اس کے بعد صنعتکاراپنی صنعتیں لے کر بنگلہ دیش، سیلون، ملائیشیاء اورانڈونیشیا چلے گئے اور یہاں بے روزگاری نے ڈیرے جمالیے جس سے محنت کشوں نے ذریعہ معاش کے لیے باہر نکلنے کے راستے ڈھونڈے حتی کہ کنٹینروں میں بند ہوگئے اورکشتیوں میں نکلنے کے غیرقانونی راستے اختیارکیے اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

غربت نے جرائم کا راستہ بھی اختیارکیا غریب جیتے جی مرگیا جب کہ دوسرے لیڈر نے ایٹمی توانائی کو متعارف کرواتے ہوئے غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ منجمد کروادیے۔ امیر بھی پھنس گیا اورجس کو جو راستہ ملا وہ اپنی دولت نکال کے باہر لے گیا ۔اب ڈھونڈتے رہیے اور لاتے رہیے۔ عدالتی راستہ اپنایے یا اخلاقی واسطے دیتے رہیے اسی طرح ہرسال مالیاتی بجٹ پیش کرتے ہوئے خوب تر اعلانات کیے جاتے ہیں لیکن بجٹ کا سال ختم ہوتے وقت معلوم ہوتا ہے کہ بجٹ پورا استعمال نہ ہوسکا اورعوام اپنی جگہ تہی دست کھڑے رہ گئے اورآخرمیں خسارے کی نوید سنا کر حیران کردیا جاتا ہے۔

ایسی ہی حکمت عملیوں کی بدولت وطن عزیز سے تعلیم یافتہ، تخلیق کار ذہین اورمحنت کش طبقے کی بشری توانائی کی ترسیل سے ریاست کی جڑیں کھوکھلی ہونا شروع ہوئیں جب کہ اسی افرادی قوت نے بیرون ملک اپنی صلاحیتوں کے وہ ہنر دکھائے کہ جن کی زیادہ تعداد جوخلیجی ممالک میں گئی۔ان ریاستوں کے بڑے شہروں میں شاید ہی کوئی عمارت، شاہراہ یا ائیرپورٹ ایسا ہو جس میں اس ملک کے پیدا ہونے والے محنت کش کا پسینہ شامل نہ ہو اور پھر یہ ہی نہیں اس نے اپنی جفاکشی کواس ملک کے لیے زرمبادلہ کا ذریعہ بنادیا۔

بیرونی دنیا سے حاصل ہونے والا دولت کا سب سے بڑا ذخیرہ ان ہی کی بدو لت ہے،اگر ماضی میں کی گئیں اصلاحات درست ہوتیں تو یہ ملکی افرادی قوت بیرون ملک کیوں جاتی؟ شاید اس کی وجہ صرف یہ ہی ہوسکتی تھی کہ ملک میں اعلانات توضرورکیے جاتے ہیں، لیکن عملی منصوبہ جات کو حتمی شکل کبھی نہیں دی گئی، تاکہ محنت کش اپنی توانائی صرف بیرون ملک ہی خرچ کریں اورورلڈ بینک و IMF کے قرضوں کواتارنے کے لیے اپنی جمع پونجی بھیجتے رہیں تاہم دوسری طرف وہ پاکستانی جو مغربی ممالک گئے، ان کا درد اس سے سوا ہے جب وہ ان ممالک کی جمہوریت اورطرز زندگی کودیکھتے اوراس کے لوازمات کو حاصل کرتے ہیں تو ان کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی ان کو پریشان کرتی ہے اوروہ دلی آرزو رکھتے ہیں کہ جس وطن سے وہ آئے ہیں وہاں بھی یہ ہی سب کچھ حاصل ہو۔

مغربی دنیا نے اسکالرشپ کے نام پر وطن عزیزکی کریم اپنے پاس بلا کرکریڈٹ کا رڈ کے ذریعے جہاں ان کی ز ندگی کے لیے ہر چیزکا حصول آساں کردیا، وہیں وہ ان کے جال میں پھنسے ہوئے بھی نظر آتے ہیں معیشت کا یہ ہنر ایک ایسا مکڑی کا جال ہے جس میں مکھی پھنس جائے تواس میں رہنا بھی آسان نہیں نکلنا بھی مشکل ۔اورجب وہ وطن کی طرف دیکھتے ہیں تو انھیں قائداعظم کی خواہش کے برعکس ماحول نظر آتا ہے جس میں سیاسی بے چینی مذہبی منافرت، انتہا پسندی یاعلاقائی لسانیت کوآئین وقانون سے بالاتر پاتے ہیں۔

بدقسمتی سے جانے والوں میں سب سے پہلے پارسی کمیونٹی جوکاروباراور تعلیمی اداروں کو فروغ دیتے تھے، بعد ازاں ہندو برادری کے سرمایہ کاروں نے بھی نقل مکانی کا تسلسل جاری ر کھا اورسندھ کے ہندوؤں نے ہانگ کانگ کوآباد کیا ۔جب کفرکے فتوے جاری ہونا شروع ہوئے تو بوہری اورخوجہ کمیونٹی جو مالیاتی اورصنعتی لحاظ سے اہم مقام رکھتی ہے، انھوں نے بھی رخت سفرباندھا، بات یہیں نہ رکی فقہ کی بنیاد پرڈاکٹرز، دانشوروں، علمائے کرام اوراساتذہ کرام کی ایک بڑی تعداد نشانے پرآئی جو اپنی زندگیوں سے گئے وہ ملک کے لیے بڑا المیہ تھا اورجو نقل مکانی کرگئے اور اب تک کررہے ہیں وہ اس سے بھی بڑا نقصان!

تاہم اس صورتحال تک پہنچنے میں مجموعی طور پر سب ہی ذمے دار ہیں، اس میں حکومتیں،جمہوری ہوں یا غیرجمہوری، سیاستدان ، جاگیردار،سرمایہ کار اور بیورو کریسی قانونی و غیر قانونی حکم دینے والے اور حکم کو من وعن تسلیم کرنے والے سب ہی بلکہ پورا معاشرہ کنفیوژن کا شکارہے جس میں آہوں، سسکیوں، جھوٹی سچی خوشیوں کی ملی جلی جھنکارکے سبب کانوں میں بجتی سیٹیاں نہ حقائق سننے دیتی ہیں نہ خود فریبی کے گہر ے رنگوں کے رنگین چشمے سچائی کو دیکھنے دیتے ہیں لیکن حالات کی تپش بدن کوگرما رہی ہے اور یہ تپش صرف روٹی اور بھوک کی نہیں اس ذہنی مفلسی کی ہے جو معاشر ے کو مفلوج کررہی ہے اور وطن پرست اوپر سے لے کر نیچے تک سلگ رہا ہے جس میں سب سے زیادہ خوف کا عنصر جان کے غیر محفوظ ہونے کا ہے اور ساتھ ہی کاروبار وسرمایہ غیرمحفوظ اور یہ دونوں اجزاء ہی پرندے کی مانند امن کی طرح کوچ کرتے ہیں۔

یہ عدم تحفظ ہی ہے کہ ہم سنتے کچھ اور ہیں دیکھنے کوکچھ ملتا ہے۔جب کہ ہم کاروبارکے لیے بینک سے اوربینک اسٹیٹ بینک سے اور اسٹیٹ بینک IMF  سے قرضہ لے کر جس پر سود اداکرنا ہوتا ہے کتناکاروبار پر لگا رہے ہیں اورکتنا ایک مصنوعی طرز زندگی اورمعیارکودکھانے اور بڑھانے کے لیے اپنے گھرکی بہوؤں اور بیٹیوں کو 15  سے 18 لاکھ کا جوڑا پہناتے ہیں اور شادی جو ایک گھرکا فنکشن یعنی عزیزاور قریبی دوست احباب کے لیے ہونا چاہیے ایک کھیل کبڈی کے تماشے کی طرح بڑھاتے ہی چلے جا رہے ہیں اور میزبان اس بات سے بے خبرکہ بے جا اخراجات ہر فرد کو ہی نہیں بلکہ اس ملک کے بچے بچے کو مقروض کرچکے ہیں اور یہ ہی قرضہ جات ہمیں دھکیل کر دیوار سے لگارہے ہیں اورانہی قرضوں سے ہم مغربی طرزکے بڑ ے بڑ ے مالزکھول رہے ہیں جب کہ روزگار کی تلاش میں اور اس سے بڑھ کر جانوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہاں سے باہر جاکر بس جانے والے لوگوں کو وہ خواہ امریکا، کینیڈا یا یورپ ہوکیونکہ خلیجی ریاستوں نے تو آپ کی انرجی استعمال کرنے کے بعد آپ کے لیے آنے کے راستے روک دیے کیونکہ اب آپ ان کی ضرورت نہیں رہے، دیکھیں مغربی دنیا کب تک آپ کی طلبگار رہتی ہے۔

امریکا کے کسی بھی بڑے شہرچلے جائیں شکاگو کو ہی لے لیجیے وہاں پرہمارے پاکستانی بھائی کباب، لاہور کی لسی، کراچی کے شیرمال، مسی ساگا ٹورنٹومیں پشاورکے چپلی کباب اوراینجئیریا یورپ میں سندھی بریانی اور کشمیری چائے کے ریستوران سجائے، اپنے پاکستان کے گلی کوچوں کو یاد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سب کیسے اورکیونکر واپس آسکتا ہے جس ہجرت نے پاکستان کی چولیں ہلادیں اب اس کو مضبوط کرنے کے لیے ایک محفوظ پاکستان کی ضرورت ہے جہاں سرمایہ بھی محفوظ رہے،علم کی بھی قدر ہو اور زندگی بھی محفوظ ہو بیشک یہ وقت تکلیف دہ ہے لیکن بقول شاعر…

حادثے کے ڈر سے کیا مسکرانا چھوڑ دیں
زلزلے کے خوف سے کیا گھر بنانا چھوڑ دیں

گھر تو بنا ہوا ہے اب اس کو محفوظ بنانا ہے، جس کے لیے ہر ایک کو اپنے طور پراپنا حصہ ڈال کرایسی بہتری کی کوشش کرنی چاہیے جس سے ہماری ناعاقبت اندیشیوں کے سبب نکل جانے والی خطیر توانائی جو محنت کشوں کی صورت، قیمتی ترین اسناد یافتہ افرادکی شکل میں، ہمارے سرمائے، ہمارے ماہرین صنعت وتجارت سائبریا کے ان پرندوں کی مانند واپسی کا رخت سفر باندھیںکیونکہ یہ توانائیاں ہی ایک مضبوط ریاست بنا پائیں گی لیکن اس کے لیے پاکستان کا محفوظ ہونا اولین شرط ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔