حکومت ضرب عضب کی مخالف تھی، بعد میں اونرشپ لینے کی کوشش کی

رانا نسیم / شہباز ملک  اتوار 22 جنوری 2017
چوہدری نثار کے کسی بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، انہیں محض ٹی وی پر چہرہ دکھانے کا شوق ہے۔ فوٹو : فائل

چوہدری نثار کے کسی بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا، انہیں محض ٹی وی پر چہرہ دکھانے کا شوق ہے۔ فوٹو : فائل

سابق وفاقی وزیر داخلہ و سینئر سیاست دان مخدوم سید فیصل صالح حیات کا آبائی علاقہ اگرچہ شاہ جیونہ (جھنگ) ہے لیکن ان کی جائے پیدائش لاہور ہے، جہاں 21 جولائی 1955ء کو مخدوم خاندان کو اللہ تعالی نے ایک ایسے برخوردار سے نوازا، جسے آگے چل کر پاکستانی سیاست کے فلک پر جگمگانا تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک معروف بزنس مین اور کامیاب زمیندار ہیں۔

ان کا تعلق جھنگ کے ایک بڑے زمیندار مذہبی گھرانے سے ہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن، پنجاب یونیورسٹی سے قانون میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ مزید تعلیم کے لئے برطانیہ چلے گئے۔ سجادہ نشین شاہ جیونہ دربار نے اپنے سیاسی سفر کی شروعات پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کی اور پہلی بار 1977ء کے عام انتخابات میں جھنگ سے ایم این اے منتخب ہو کر قومی اسمبلی پہنچ گئے، جس کے بعد ان کی کامیابیوں کا سلسلہ 2013ء کے عام انتخابات تک چلتا رہا۔ اپنے سیاسی کیرئیر میں وہ 6 بار ممبر نیشنل اسمبلی منتخب ہوئے، اس دوران وہ کامرس (1988-1990)، ماحولیات، ہاؤسنگ اینڈ ورکس (2011ء) اور داخلہ (2002-2004) سمیت 8 وزارتوں کے سربراہ رہے۔

پیپلزپارٹی کے سابق سینئر رہنما کی سیاست میں ایک اہم موڑ 2007ء میں اس وقت آیا، جب انہوں نے پارٹی سے تنازعات کی وجہ سے سابق وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال کی سربراہی میں فارورڈ بلاک بنا لیا، جو 21 ارکان پر مشتمل تھا، اس فارورڈ بلاک کو پی پی پی پیٹریاٹ کا نام دیا گیا۔ اس دوران سید فیصل صالح حیات نے باقاعدہ طور پر مسلم لیگ (ق) میں شمولیت بھی اختیار کی۔

سیاست کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے والے سابق سینئر رہنما پیپلزپارٹی 2003ء میں پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر بھی منتخب ہوئے، جس کے بعد ملکی سطح پر فٹبال کے کھیل کو کچھ فروغ ملنا شروع ہوا، لیکن جلد ہی یہ فیڈریشن تنازعات کا شکار ہو گئی، جس کے بعد ملکی سطح پر پھر سے فٹبال کا کھیل زوال پذیری کا شکار ہے۔

حال ہی میں بلاول ہاؤس سے جاری ایک بیان کے مطابق فیصل صالح حیات نے 14 سال بعد دوبارہ پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ تقریباً 40 سال سے سیاست کے میدان میں ڈٹے رہنے والے سیاست دان نے ملکی سیاست کے نشیب و فراز کو انتہائی قریب سے دیکھا ہے۔ وطن عزیز میں ماضی اور حال کی سیاسی قلابازیوں کے پیچھے چھپے حقائق اور مستقبل کی سیاست کے بارے میں جاننے کے لئے ’’ایکسپریس‘‘ نے سینئر سیاست دان و سابق وفاقی وزیر داخلہ مخدوم سید فیصل صالح حیات سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: سیاسی اعتبار سے آئندہ چند ماہ کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے، جس میں سب سے اہم سپریم کورٹ میں چلنے والا پانامہ پیپر کیس بھی ہے تو ایسے میں کیا آپ کو میاں نواز شریف اپنی آئینی مدت پوری کرتے نظر آتے ہیں؟
فیصل صالح حیات: جب آپ 2013ء کے الیکشن کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ میں پہلی بار تمام جماعتوں نے متفقہ طور پر دعوی کیا کہ اس الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، ماضی میں صرف چند جماعتیں دھاندلی کا شور مچاتی تھیں، لیکن اس بار جیتی ہوئی جماعتوں نے بھی کہا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے، اگر آپ اس الیکشن کو دیکھیں تو جو مینڈیٹ ملا وہ مشکوک تھا، اس کے باوجود حکومت کو آج تقریباً پونے چار سال ہونے والے ہیں، اب تو صرف سال سوا سال کا عرصہ رہتا ہے، جو الیکشن کا سال کہلاتا ہے، جس میں انتخابی سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں اور مختلف جماعتوں نے آئندہ الیکشن کے لئے تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں، اب مدت کا پورا ہونا یا نہ ہونا بے معنی چیز رہ جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک میں جمہوری روایات کافی کمزور رہی ہیں، لہذا حقیقی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ صحیح منتخب حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔

ایکسپریس: آپ کے خیال میں حکومت کہاں تک اس دعوے میں حق بجانب ہے کہ اس نے ملک کو بڑی حد تک دہشت گردی، شدت پسندی، غربت، مہنگائی اور توانائی بحران جیسے مسائل کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کے سفر پر گامزن کر دیا ہے؟
فیصل صالح حیات: ایسے دعوے کرنا تو ان کا پرانا وطیرہ ہے، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، آپ خود دیکھ لیں کہ دہشت گردی ختم کرنے میں اگر کسی ادارے یا فورم کا ہاتھ ہے تو وہ افواج پاکستان ہیں۔ یہ حکومت تو وہ تھی، جب اے پی سی بلائی گئی تو انہوں نے کہا کہ ہم تو دہشتگردوں سے مذاکرات کرنے جا رہے ہیں، یہ تو افواج پاکستان اور جنرل راحیل شریف تھے۔

جنہوں نے ضرب عضب شروع کیا۔ یہ بات اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ضرب عضب حکومت کی مرضی و منشاء کے برعکس شروع کیا گیا، اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، بعد میں اس حکومت نے زبانی جمع خرچ کرکے اس کی اونر شپ لینے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ کراچی آپریشن بھی افواج پاکستان نے شروع کیا اور دہشتگردی کے واقعات میں جو کمی آئی یا کراچی میں امن و امان کی صورت حال جو بہتر ہوئی ہے، اس کا اگر کسی کو کریڈٹ جاتا ہے تو وہ افواج پاکستان ہیں۔

ایکسپریس: ریاست کے حالیہ سخت اقدامات کیا اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ اب پاکستان کے لئے کوئی واضح لائن آف ایکشن طے کر لی گئی ہے؟ آپ اس کے نتائج کیسے دیکھتے ہیں؟
فیصل صالح حیات: پاکستان کی سکیورٹی خصوصاً اندرونی سکیورٹی کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ حکومت اور افواج ایک پیج پر ہوں اور ان کا ذہن مکمل طور پر کلیئر ہونا چاہیے، ماضی میں ہم نے کیا دیکھا کہ دہشتگردی اور لاقانونیت کے خاتمہ کے لئے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، جس کے 21،22 نکات ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے وہ نکات جن کا تعلق افواج پاکستان کے ساتھ ہے، صرف ان پر عملدرآمد ہوا ہے، جو باقی نکات ہیں، ان پر عملدرآمد کی ذمہ داری حکومت وقت کی تھی اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان نکات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں فوجی عدالتوں کی ضرورت پڑی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جمہوری نظام میں رہ رہے ہیں، اگر یہ واقعی جمہوری نظام ہے تو اس میں فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں پڑی؟ یہ ضرورت آپ کو اس لئے پڑی کہ پولیٹیکل سیٹ اپ کام نہیں کر رہا تھا، لیکن کیا اب ہم یہ کہیں کہ سویلین حکومت کام نہیں کر رہی اور آرمی Take Over  کر لے۔ ماضی میں جب افواج نے Take Over  کیا ہے، وہ سویلین حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے کیا ہے۔ تو اس لئے جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا ہے، اس پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیے۔

آپ دیکھ لیں نیشنل ایکشن پلان میں نیکٹا کا قیام شامل ہے، لیکن یہ آپ کو صرف کاغذوں میں نظر آتا ہے، عملی طور پر اس کا کوئی وجود نہیں۔ پاکستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں اور لسانی تعصب پھیلانے والی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا تھا، کچھ نہیں ہوا، جو غیر ملکی یہاں مقیم ہیں، ان کی رجسٹریشن کے حوالے سے زبانی جمع خرچ تو بہت ہے لیکن ہوا کچھ نہیں۔ باقی سب باتیں آپ چھوڑ دیں، صرف یہ دیکھ لیں کہ گزشتہ پونے چار سال کے عرصہ میں کتنے واقعات ہوئے ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا کہ انکوائری ہو گی اور رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی لیکن وزارت داخلہ اور اس کے وزیر نے کیا کسی ایک واقعہ کی بھی انکوائری رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

ایکسپریس: ماضی کی دو حریف جماعتیں ن لیگ اور پی پی آج بہت قریب آ چکی ہیں۔ اس کی وجہ ذہنی بلوغت ہے یا عمران خان کے کہنے کے مطابق باریاں لی جا رہی ہیں؟
فیصل صالح حیات: میری اس بارے میں رائے بڑی واضح ہے، پاکستان میں پہلے دو جماعتی نظام بہت طویل عرصہ قائم رہا ہے، ایک حکومت میں دوسری جماعت اپوزیشن میں۔ 2008ء کے بعد کیا ہوا کہ اس نظام میں بنیادی تبدیلی آ گئی۔ پیپلزپارٹی نے اپنے ماضی کے سیاسی کردار سے ہٹ کر مفاہمت کی جو پالیسی اپنائی، اس کے تحت انہوں نے ن لیگ کو فری ہینڈ دے دیا، خاص طور سے پنجاب میں، جس کا پی پی کو ایک بہت بڑا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑا۔ 2008ء سے 2013ء تک ان کے گورننس کی ایشوز بھی تھے۔

ان وجوہات کی بناء پر 2013ء کے الیکشن میں نتائج آپ کے سامنے ہیں، پیپلزپارٹی کو صرف پنجاب ہی نہیں بلکہ کے پی کے اور بلوچستان میں بھی اچھے نتائج حاصل نہ ہو سکے، پھر آپ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے الیکشن دیکھ لیں جہاں پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، لیکن اب وہ وہاں سے بھی صاف ہیں، تو میرے نزدیک پیپلزپارٹی کو یہ سیاسی سودا مہنگا پڑا۔ پیپلزپارٹی کا سیاسی فلسفہ مزاحمت پر مبنی ہے اور اسی بنیاد پر پارٹی نے ترقی کی، خود کو مضبوط کیا اور حکومتیں بھی بنائی ہیں، جب انہوں نے مفاہمت کی تو اس کے نتائج آپ کے سامنے ہیں، ہمارا جو ورکر، جیالا ہے، وہ مایوس ہو گیا، اس سے آپ نے اس کی سیاسی خوراک چھین لی، یوں وہ گھر بیٹھ گیا۔

ایکسپریس: پیپلزپارٹی میں رہتے ہوئے آپ جیل بھی گئے اور قید کی سختیاں کاٹیں، پھر کیا وجہ ہے کہ 2002ء میں آپ نے اپنی پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا؟
فیصل صالح حیات: اس کی بہت ساری وجوہات تھیں، جو میں کئی بار پہلے بیان کر چکا ہوں، اب دوبارہ انہیں دہرانا نہیں چاہتا۔

ایکسپریس: پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کیوں بنی اور کیوں ختم ہو گئی؟
فیصل صالح حیات: 2002ء میں ہمیں پارٹی پالیسی سے کچھ بنیادی اختلافات تھے، ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس وقت پی پی کو جنرل مشرف کے ساتھ مفاہمت کرنی چاہیے اور ہم اس کے لئے تیار بھی تھے، اس وقت پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت کا جنرل مشرف سے رابطہ بھی تھا، جس کا مجھے خود علم تھا، اس مفاہمت کی وجہ یہ تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا جو حریف ہے، وہ ن لیگ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا 1999ء میں جب جنرل مشرف نے Take Over  کیا تھا تو پی پی نے اس کو خوش آمدید کیا تھا، ہر جگہ جلوس نکالے اور مٹھائیاں تقسیم کیں کہ ہماری نواز شریف سے جان چھوٹ گئی۔

پھر ہم نے جنرل مشرف کے اعلان کردہ الیکشن میں حصہ بھی لیا، پھر صرف حصہ ہی نہیں لیا بلکہ جنرل مشرف کی طرف الیکشن کے رولز میں بہت ساری تبدیلیاں بھی کی گئی تھیں، جو ہم نے قبول کیں، یعنی ہم نے جنرل مشرف کو قبول کیا، تو 2002ء میں میرے پارٹی کے ساتھ یہی اختلافات تھے، جنرل مشرف ہمارے ساتھ ملنے کو تیار تھے کیوں کہ ان کے مخالف تو نواز شریف تھے، لیکن یہ وہی پیپلزپارٹی کی قیادت ہے، جو 2002ء میں تو ہم پر تنقید کیا کرتی تھی، ہمیں بھگوڑا کہا کرتی تھی، لیکن اسی پی پی کی قیادت نے ہماری طرز پر 2007ء میں جنرل مشرف کے ساتھ معاہدہ کیا، تو ہماری یہی بات تھی کہ آپ نے پانچ سال کیوں ضائع کئے، یہی بات آپ 2002ء میں کر لیتے۔

ایکسپریس: تقریباً 15 سال بعد پیپلزپارٹی میں دوبارہ شمولیت سے قبل یہ افواہیں سرگرم تھیں کہ آپ تحریک انصاف میں شامل ہونے جا رہے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا، پی ٹی آئی میں نہ جانے کی وجہ کیا بنی؟
فیصل صالح حیات: دیکھیں! میں نے سیاست میں ایک طویل عرصہ گزار لیا، جس دوران آپ کے سیاسی اور ذاتی تعلقات بن جاتے ہیں، عمران خان کے ساتھ میرا ذاتی تعلق ہے، سکول کے زمانے سے میرے ان کے تعلقات ہیں، ان سے دوستی ہے۔ اس سے ہٹ کر میرا بہت قریبی تعلق ہے چوہدری شجاعت حسین سے، جن کے بارے میں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک زیرک سیاست دان اور بردبار انسان ہیں۔ تو میرا سب سے رابط تھا۔ میرے خیال میں پیپلزپارٹی نے اپوزیشن کا جو کردار ادا نہیں کیا، وہ تحریک انصاف نے ادا کیا۔

اس لئے عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے اپوزیشن کی آواز بلند کئے رکھی، انہوں نے کرپشن اور بیڈگورننس سمیت دیگر حوالے سے جو ایشوز تھے، ان کو اٹھائے رکھا۔ میرے اور میری فیملی کے پاس دیگر پارٹیوں میں شمولیت کے آپشنز تھیں لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ پی پی میں بلاول بھٹو کے آنے کے بعد پارٹی میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا ہے، پی پی کا مستقبل بلاشبہ ہمیں بلاول بھٹو کے ساتھ نظر آتا ہے اور ان کی صورت میں مجھے ذوالفقار بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی سیاست دوبارہ ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس پارٹی کے اندر مجھے ایک کمفرٹ لیول میں ملتا ہے، مجھے اس پارٹی میں اب امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔

ایکسپریس: آپ نے جب پی پی چھوڑ کر مشرف کا ساتھ دیا تو آپ کی طرف سے پی پی پی رہنماؤں بشمول بی بی پر سخت تنقید کی گئی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ وہی پارٹی رہنما آج آپ کو ایک بار پھرآسانی سے قبول کر لیں گے؟
فیصل صالح حیات: دیکھیں! میں نے بی بی پر کبھی تنقید نہیں کی، ان کی پالیسیوں پر کی ہے، میں نے کسی کی ذات کے حوالے سے کبھی تنقید نہیں کی، میرا ایک اپنا مائنڈ سیٹ ہے، میں اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔ اس سے پہلے 2011ء میں، میں ق لیگ کا پارلیمانی لیڈر تھا، اس کے باوجود کے ق لیگ پی پی کے ساتھ شامل ہو گئی تھی، لیکن پی پی کی بدعنوانی کو میں نے اس وقت بھی اجاگر کیا۔ میں اس وقت وفاقی وزیر تھا، حالاں کہ یہاں تو کوئی پٹواری کی سیٹ نہیں چھوڑتا۔ میں واحد وفاقی وزیر ہوں، جو اسی حکومت کے ایک وفاقی وزیر کے خلاف عدالت میں گیا اور پیچھے نہیں ہٹا۔ پھر آپ دیکھیں 2012ء میں جب راجہ پروز اشرف وزیراعظم بنے تو میں نے خود وزارت چھوڑ دی، جو کسی طور پر بھی آسان کام نہیں۔

ایکسپریس: پارٹی چھوڑنے کے بعد کرپشن سکینڈلز کے حوالے سے آپ زرداری صاحب کے بارے میں کافی منفی خیالات کا اظہار کرتے تھے لیکن آج آپ انہیں کے ہاتھ پر بیت بھی کر رہے ہیں تو کیا سیاست کی یہی تعریف ہے؟
فیصل صالح حیات: میں نے 2002ء میں زرداری صاحب کے حوالے سے کوئی بات نہیںکی۔ ہم دو چیزوں کو الگ الگ دیکھتے ہیں، ایک ہے ذات دوسرا پالیسی، میں نے صرف ان کی پالیسیوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیوںکہ یہ میری ذمہ داری تھی۔

ایکسپریس: سنا ہے کہ آپ کو مخدوم امین فہیم مرحوم کی جگہ پی پی کا سینئر نائب چیئرمین بنایا جا رہا ہے؟ جس کا اعلان شائد بلاول یا زرداری صاحب کے دورہ شاہ جیونہ پر متوقع ہے؟
فیصل صالح حیات: اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔

ایکسپریس: آپ پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں، حتی کہ بجلی چوری اور پانی چوری کے الزامات کی وجہ سے الیکشن 2013ء میں آپ کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہو گئے، ان الزامات کی حقیقت کیا ہے؟
فیصل صالح حیات: (ہنستے ہوئے) الزامات تو لگتے رہتے ہیں، کیوں کہ یہ سب سے آسان کام ہے، وہ الزامات عدالتوں سے ختم بھی ہو چکے ہیں۔

ایکسپریس: پیپلزپارٹی کے ساتھ آپ کا بہت پرانا اور گہرا رشتہ تھا اور اب دوبارہ ہے، تو اس پس منظر میں ہم آپ سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ آج پیپلزپارٹی بہت کمزور ہو چکی ہے، خصوصاً گزشتہ کئی برس سے پنجاب میں پی پی پی زوال پذیر ہے، اس کا سبب اپنے ہیں یا غیر؟ دوسرا پارٹی کو صوبے میں ترقی کے لئے کس قسم کے اقدامات کرنے چاہیں؟
فیصل صالح حیات: میرا ایک چیز پر زور ہے کہ جب تک آپ پیپلزپارٹی کی حقیقی فلاسفی پر عملدرآمد نہیں کرتے، آپ کامیاب نہیں ہو سکتے اور وہ فلسفہ کیا تھا وہ پہلے سوشل ازم تھا بعد میں بھٹو ازم بن گیا، تو جب تک آپ اس فلسفے پر عمل نہیں کرتے تو شائد آپ آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے سوئے ہوئے جیالے کو دوبارہ جگائیں۔

ایکسپریس: وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ پی پی والوں کو ان سے کچھ ایشوز ہیں، اس لئے وہ بلاوجہ شور مچاتے رہتے ہیں، پی پی کو یہ ایشوز کیا ہیں؟
فیصل صالح حیات: میں وزیر داخلہ کے کسی بیان کو سنجیدگی سے لیتا ہی نہیں،ان کو صرف شوق ہے ٹی وی پر گھنٹوں اپنا چہرہ دکھانا اور باتیں کرنا، جن کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوتا۔

ایکسپریس: جب پی پی والے کوئی بات کرتے ہیں تو چوہدری نثار اگلے روز کاغذات لہرا لہرا کر کہہ رہے ہوتے ہیںکہ ان کے پاس یہ ثبوت ہے، وہ ثبوت ہے اور اگلے ہی روز پیپلزپارٹی بیک فٹ پرچلی جاتی ہے، ایسا کیوں ہے؟
فیصل صالح حیات: میں اس سوال پر تفصیلی بات کرنا چاہوں گا۔ پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ چوہدری نثار وزیر داخلہ ہیں یا وزیر بلیک میلنگ؟ پہلے تو وہ خود یہ فیصلہ کریں۔ وہ صرف پی پی نہیں دیگر جماعتوںکے بندوں کے حوالے سے بھی ایسی باتیںکرتے ہیں تومیرا یہ سوال ہے کہ اگر واقعی ان کے پاس ایسے ثبوت ہیں تو وہ سامنے کیوں نہیں لاتے؟

ڈرانے دھمکانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میرے بارے میں بات نہ کریں اگر کریں گے تومیرے پاس یہ ہے۔ تو یہ تو صرف بلیک میلنگ ہے۔ دوسرا پی پی کی قیادت کو کسی قسم کا کوئی ڈر یا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ میں جب بلاول بھٹو سے ملنے گیا تو ایک چیز نظر آئی ہے کہ وہ ان تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے بالکل تیار ہیں کہ ہم نے اپوزیشن کرنی ہے، ن لیگ نے جو انکوائریاں کرنی ہے کرتی رہی، تو اگر ہم نے عوامی سیاست کرنی ہے تو ہمیں ان گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ایکسپریس: آپ 2002ء تا 2004ء وزیر داخلہ رہے، یہ وہ وقت ہے جب تحریک طالبان پاکستان سر اٹھا رہی تھی۔ یہ تنظیم پھر آنے والے برسوں میں پاکستانی قوم پر قہر بن کر ٹوٹی۔ پوچھنا میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ کون سے عوامل تھے، جن کی بنیاد پر ٹی ٹی پی وجود میں آئی اور کیا ریاست نے انہیں قبل از وقت ہی روکنے کی کوشش نہیں کی؟
فیصل صالح حیات: یہ ایک لمبی کہانی ہے، یہ بات شروع ہوتی ہے افغان جنگ سے ، اس وقت سویت یونین کو ہرانے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایک حکمت عملی بنائی کہ یہاں جہادی بنائے جائیں، جس کے لئے نہ صرف یہاں سے بلکہ دیگر اسلامی ممالک سے بھی لوگ اکٹھے کئے گئے،اس کے بعد سوویت یونین کو جب شکست ہوئی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ہمیں چھوڑ دیا اور ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیں کہ اس وقت کے جہادیوں کو تمام فنڈنگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی تھی۔

پھر وہ لوگ جو یہاں موجود تھے، ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، جس کے نتیجے میں یہاں تنظیمیں بننے لگیں۔ بدقسمتی سے جب 2001ء میں نائن الیون ہوا اور امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا تو ان مجاہدین، جن کی جماعتیں بن چکی تھیں، جن میں طالبان بھی شامل تھے، ان کو ایک نظریہ مل گیا کہ امریکہ کے خلاف سب کو اکٹھا کیا جائے۔ اس وقت پاکستان کے لئے بہت مشکل حالات تھے، پاکستان کو مجبورا عالمی پالیسیوںکا ساتھ دینا پڑا، کیوں کہ پوری دنیا ان خلاف تھی۔ جس پر ان جماعتوں نے پاکستان کے اداروں پر بھی حملے شروع کر دیئے، یہ پاکستان کے لئے survival  کی جنگ بن گئی، یہ میرے وزیرداخلہ بننے سے پہلے کی باتیں ہیں، لیکن تاریخ یہی ہے۔ پھر ایک تنظیم سے دس اور پھر سو بن گئیں۔

ریاست کے پاس جو وسائل تھے، ان کے تحت طالبات کو روکنے کے لئے عملی طور پر بہت کچھ کیا گیا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ چیز ریاست کے لئے بڑی اہم تھی کہ ہم جب ایکشن لیتے ہیں تو کیا اس ایکشن کے ذریعے عام پاکستانی یا مسلمان کتنے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی لائن تھی، جو ریاست کو کھینچنا تھی، یہ بہت بڑی ذمہ داری تھی، جس وجہ سے ریاست کے اقدامات بہت محتاط تھے، جنوبی وزیرستان میں جب ان کو نشانہ بنایا گیا تو اس وقت عام لوگوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

ایکسپریس: یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کی اجازت جنرل مشرف کے دور حکومت میں دی گئی، جس کے آپ وزیر داخلہ تھے، اس میں کتنی صداقت ہے اور ڈروں حملوں کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟
فیصل صالح حیات: میں آپ کو اپنا بتا سکتا ہوں کہ جب تک میں وزیر داخلہ تھا اس وقت تک پاکستان کی سرزمین پر کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوا۔

ایکسپریس: الزام یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کا جو بیج آپ کے دور حکومت میں بویا گویا وہی آج تناور درخت بن چکا ہے۔ 2004ء سے قبل جب تک پاک فوج قبائلی علاقوں میں نہیں گئی ہر طرف سکون تھا، اور یہ قبائلی پاکستان کا دفاع کرنے والے لوگ تھے، لیکن فوجی آپریشن کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ وزیرستان میں پہلی بار فوج کس بنیاد پر اور کس کے دباؤ پر بھیجی گئی؟صالح حیات: دیکھیں! 2002ء سے پہلے ہمیں ان علاقوں میں کوئی چیلنج تھا ہی نہیں، ایک چیز کو آپ ذہن میں رکھیں کہ ہماری وہاں پر ایف سی ہے، جو فوج کا حصہ ہے، لیکن وہ باقاعدہ فوج نہیں اور یہ ایف سی 2002ء نہیں بلکہ اس سے کہیں پہلے کی ان علاقوں میں موجود ہے، جو انہی علاقوں کے لئے بنائی گئی تھی۔ جب میں وزیر داخلہ تھا تو اس وقت فاٹا میں ایک ڈویژن تعینات تھی، جس میں 25 سے 30ہزار لوگ ہوتے ہیں، بنیادوں طور پر ایف سی نے وہاںکام کیا، لیکن بعد میں جب یہ سوات بھی پہنچ گئے تو ریگولر فوج کو بھی ایف سی کی معاونت کے لئے وہاں جانا پڑا۔

ایکسپریس: افغان طالبان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی مکمل سرپرستی پاکستان نے کی، یہ سلسلہ پی پی کے دور 1970ء سے شروع ہو گیا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے معاملات میں ہماری مداخلت درست فیصلہ تھا؟
فیصل صالح حیات: میں مداخلت کی بات تو نہیں کروں گا، میں صرف اتنا کہوں گا کہ آپ نے اپنی قومی مفادات کے مطابق فیصلے کرنا ہوتے ہیں، آپ کو یہاں ایک مثال دوں کہ 1970ء میں جب بھٹو صاحب کی حکومت آئی تو اس وقت ہر جگہ ایک فلسفہ تھا سوشلزم کا، نیشنلائزیشن ہوئی لیکن وہی پی پی کی حکومت جب بے نظیر کے دور میں بنی تو ہم پرائیویٹائزیشن کی طرف چل پڑے، یہ سب پالیسیاں ہوتی ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے، کیوں کہ اگر ایسا نہیں کریں تو الگ تھلگ ہو جائیں گے، 1970ء کی جو پالیسیاں تھی، اس وقت ہمیں ان کے ساتھ چلنا پڑا اور آج کی جو پالیسیاں ہیں، ہمیں ان کے مطابق خود کو ڈھالنا ہے۔

ایکسپریس: عرصہ دراز بعد پاکستان کے روس سے تعلقات میں بہتری آرہی ہے، یہ پاکستان اور روس کی ذہنی بلوغت ہے یا پھر یہ کسی نئی علاقائی جھتے بندی کا ردعمل ہے؟
فیصل صالح حیات: میرے خیال میں یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کیوں کہ ماضی میں جب ہم نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تو وہ ہمیں چھوڑ گیا، اس سے پہلے بھی ہمارے ساتھ ایسا کر چکا ہے۔ ماضی میں امریکہ کے ساتھ ہمارا عجیب سا رومانس رہا ہے حالاں کہ سٹیٹس کے درمیان رومانس نہیں مفادات ہوتے ہیں، ہم مفادات کو چھوڑ کر جذباتیات میں چلے جاتے ہیں، جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، اس لئے یہ اچھا ہے کہ ہم نے دوسری طرف بھی رخ کیا اور اس سے بھی بڑھ کر جو چین سے ہمارے تعلقات بڑھ رہے ہیں، وہ بہت خوش آئند ہیں۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات معاشی ترقی کی ضمانت ہیں، ہمارا روس کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں، ہمیں اس کے ساتھ تعلقات بنانے چاہیں۔

ایکسپریس: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے صدر ہیں؟
فیصل صالح حیات: لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق میں صدر نہیں ہوں، لیکن فیفا مجھے ہی مانتی ہے۔

ایکسپریس: فیڈریشن میں خانہ جنگی کی وجہ سے پچھلے 20 ماہ سے قومی سطح پر فٹ بال کی سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں، اس پر تنازع پر روشنی ڈالئے؟
فیصل صالح حیات: خانہ جنگی نام کی اس میں کوئی چیز نہیں، ہم تو صرف کھیل کو فروغ دیا ہے، میں کیا کروں جب پنجاب حکومت اپنے دو سو اسلحہ بردار غنڈے بھجوا کر دفتر پر قبضہ کر لے تو میں اس میں کیا کر سکتا ہوں۔ ہم تو یہاں بچوں اور بچیوں کو فٹبال کھلاتے ہیں، جون 2015ء میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، پھرلاہور ہائی کورٹ نے وہاں ایک ایڈمنسٹریٹر تعینات کر دیئے، جو بھاری تنخواہ لے رہے ہیں، حالاںکہ میں نے آج تک کبھی اس ادارہ سے تنخواہ نہیں لی۔ میں نے پاکستان میں 50 کروڑ روپے سے زیادہ لاگت سے 8 پراجیکٹ بنوائے ہیں۔ جب میں نے 2003ء میں فٹبال فیڈریشن کو سنبھالا تو اس وقت انٹرنیشنل میچ کے لئے ہمارے کھلاڑی کو ایک سو روپے روزانہ ملتے تھے اور 2015ء میں ہمارا افغانستان سے آخری میچ ہوا، جس میں کھلاڑی کو ایک سو ڈالر روزانہ دیا گیا۔

پھر اس کے علاوہ ہر کھلاڑی کو سالانہ لاکھوں روپے ملتے تھے، فٹبال کے کھلاڑیوں کو عزت اور معاشی تحفظ دیا گیا، تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ہمارے کھلاڑیوں کے بیرون ممالک کے کلبوں سے کروڑوں روپے کے معاہدے ہوئے۔ ہم نے پریمئر لیگز شروع کیں۔ پی سی بی بھارت سے سیریز کھیلنے کے لئے بھیک مانگتا ہے جبکہ بھارت نے فٹبال ٹیم کو خود بنگلور میں کھیلنے کے لئے بلایا اور ہم نے وہ جیتی بھی۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ کے بعد پاکستان انٹرنیشنل کھلاڑیوںکے لئے نوگو ایریا بن گیا لیکن پاکستان فٹبال فیڈریشن واحد ہے، جس نے ہر سال انٹرنیشنل ٹیموں کو پاکستان بلایا اور وہ آئے۔ ہم نے دنیا کو دکھایا یہ کھیلنے کے لئے محفوظ ملک ہے۔

ایکسپریس: پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا موجودہ سٹیٹس کیا ہے اور آپ پاکستان میں فٹبال کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
فیصل صالح حیات: ہم نے عدالت میں کیس کیا ہے، جس کا فیصلہ محفوظ ہو چکا ہے، اب اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، فیصلے اس کے بعد ہی ہوں گے، میں امید کر سکتا ہوں کہ فیصلہ ہمارے حق میں آئے تاکہ ہم دوبارہ فٹبال کے فروغ کے لئے کام کر سکیں۔ اچھا یہاں ایک بات اور ضروری ہے کہ فیفا پہلے ہمیں اڑھائی لاکھ ڈالر دیا کرتی تھی اب پچھلے ایک سال میں اسے بڑھا کر ساڑھے 12لاکھ ڈالر کر دیئے، جو ہم نے اپنے کھلاڑیوں پر خرچ کرنے تھے، لیکن وہ پیسے ہمیں مل ہی نہیں رہے۔ اے ایف سی ہمیں پیسے دیتی رہی، ہم اس سے بھی محروم ہو گئے۔

ایکسپریس: شیعہ سنی اختلاف کا گڑھ جھنگ کو سمجھا جاتا ہے؟ کیا کبھی یہ مسئلہ یہاں حل ہو سکتا ہے؟
فیصل صالح حیات: اللہ کا بڑا کرم ہے جی کہ جھنگ اب شیعہ سنی اختلافات کا گڑھ نہیں رہا، اب وہاں سے یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔

ایکسپریس: آپ کے حلقہ کے لوگ بحیثیت سجادہ نشین شاہ جیونہ دربار آپ سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ جب ہم نے لوگوں سے آپ کی پی پی میں شمولیت پر رائے لی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارے لئے تو صرف مخدوم صاحب ہیں، وہ جس پارٹی میں بھی جائیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ میرا سوال یہاں یہ ہے کہ اتنی محبت اور مسلسل الیکشن جیتنے اور وزارت داخلہ جیسے کلیدی عہدوں پر رہنے کے باوجود سوائے چنڈ پل کے آپ نے کبھی حلقہ کی تقدیر بدلنے کا کیوں نہیں سوچا، آپ 6 بار منتخب ہوئے، وفاقی وزیر بھی بنے لیکن ان سب عہدوں کے باوجود علاقہ میں آج بھی گیس (جو صرف 30کلومیٹر دو جھنگ میںموجود ہے) تک نہیں، کوئی بڑا سرکاری ہسپتال نہیں، دو کالجز اب بنے ہیں، سیوریج اور صاف پانی کا کوئی انتظام نہیں، کیوں؟
فیصل صالح حیات: دیکھیں! ایک گھر میں رہتے ہوئے اگر ہماری روزانہ کی کمائی ایک سو روپے ہے تو ہم نے اپنے تمام اخراجات اسی میں سے کرنے ہیں، ہم نے یوٹیلٹی بلز، فیسیں، کرایہ وغیرہ دینا ہے، جو ہم اسی سو روپے کو سامنے رکھتے ہوئے تقسیم کرتے ہیں۔ کاش آپ میرے حلقے میں آج سے چالیس سال قبل آئے ہوتے تو آپ مجھے سے یہ سوال نہ کرتے، آپ اس وقت کے حالات دیکھتے اور آج دیکھتے تو آپ کو معلوم ہوتا کہ اس حلقہ میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ بلاشبہ میرا حلقہ نہایت پسماندہ ہے۔

جہاں ترقیاتی کاموں کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لیکن جب میں یہاں آیا تھا تو اس حلقہ میں کوئی سڑک تک نہیں تھی،میں نے کئی سو کلومیٹر لمبی سڑکیں بنوائیں، کمیونیکیشن نیٹ ورک بنایا،یہاں بجلی کا نام و نشان نہیں تھا، میں نے سینکڑوں دیہات کو بجلی دلوائی، آپ سوئی گیس کی بات کرتے ہیں تو میں سو سے زائد دیہات میں گیس پہنچا چکا ہوں، پھر میرے حلقے کاایک بہت بڑا اور دیرینہ مسئلہ چنڈ پل تھا، جو میں نے تعمیر کروایا،پھر ہزاروں نوکریاں دلوائیں(اس حوالے سے آپ پر الزام ہے کہ پیسے لے کر نوکریاں لگوائی گئیں) توپھر لوگ مجھے ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ الزام لگانا سب سے آسان کام ہے۔ پھرمنڈی شاہ جیونہ کا کالج میں نے بنوایا تھا، بے پناہ ہسپتال بھی بنوائے تھے۔ لیکن یہ بھی کہوں گا کہ ہمارے مسائل، وسائل سے کہیں زیادہ ہیں اور حلقہ سے جو بھی منتخب ہوتا ہے، ان سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ کام کروائیں۔

ایکسپریس: اب جبکہ آپ دوبارہ پی پی میں شامل ہو چکے ہیں تو این اے87 سے کون پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑے گا؟ یعنی آپ یا بیگم عابدہ حسین کا بیٹا عابد حسین امام؟ کیوں کہ آپ دونوں ایک پارٹی کے ہیں اور ایک ہی حلقہ ہے؟
فیصل صالح حیات: میں اس بارے میں کوئی ریمارکس نہیں دوں گا، یہ آپ پیپلزپارٹی کی قیادت سے پوچھیں۔

پسند نا پسند
میرا پسندیدہ کھیل فٹبال اورکھلاڑی لائنیل میسی ہے۔ موسیقی بہت شوق سے سنتا ہوں،خصوصاً غزلیں مجھے بہت پسند ہیں۔ فلمیں دیکھنے کا بچپن سے شوق ہے، 70ء کی دہائی میں لاہور کے کیپری سینما میں پہلا شو 3سے6 بجے ہوتا تھا، جو میں اور میرا دوست ضرور دیکھا کرتے تھے اور سب سے پہلے ہال میں پہنچتے تھے۔ایکشن سے بھرپور انگلش موویز بھی شوق سے دیکھتا ہوں۔

ڈرامہ سے کوئی دلچسپی نہیں، پسندیدہ اداکار وحید مراد، محمد علی اور ندیم ہیں، یہ بہترین اداکار تھے اور ہیں۔ گلوکاری میں ملکہ ترنم میڈم نور جہاں کا کوئی جوڑ نہیں، ان کے گائے گیت امر ہو چکے ہیں، اس کے بعد کشور کمار پسند ہیں۔ تاریخ سے متعلق کتب پڑھنے کا شوقین ہوں اور بہت ساری کتب میں نے پڑھی بھی ہیں، تاہم پسندیدہ کتاب ہٹلر کی آب بیتی’’ Mein Kampf‘‘ ہے، آپ اُس آدمی سے سو اختلاف کریں، لیکن ہٹلر نے دنیا پر جو اثرات مرتب کئے، ان کی تاثیر آج بھی موجود ہے، حالاں کہ آج آپ جرمنی جائیں تو وہ نازی ازم کو ڈس اون کرتے ہیں، لیکن اس کے اثرات ابھی بھی موجود ہیں۔ اس کتاب میں سیاست کے حوالے سے جو کچھ بیان کیا گیا، ان میں سے بہت ساری چیزیں آج بھی قابل عمل ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو میرے پسندیدہ سیاست دان ہی نہیں بلکہ آئیڈیل شخصیت بھی ہیں۔

ـ’’بھٹو صاحب کی زبردستی کا بدلہ30 سال بعد محترمہ سے لیا ‘‘
سکول کے زمانے میں، میں اور مرتضی بھٹو کلاس فیلوز اور بہت گہرے دوست تھے۔ یہ 1965ء کی بات ہے، بھٹو صاحب وزیر خارجہ تھے،لیکن انہوں نے ان دنوں استعفیٰ دیا ہوا تھا، ایک روز وہ ہمارے سکول آئے، مرتضی نے مجھے کہاکہ میرے والد مجھے لینے آئے ہوئے ہیں اور تم میرے ساتھ چلو۔ اس وقت ہم چھٹی کلاس میں پڑھتے تھے، اس لئے مجھے نہیں معلوم تھا کہ بھٹو کون ہیں؟

میں جب باہر نکلا تو دیکھا کہ بچوں کو لینے کے لئے آنے والے ڈرائیور سب اکٹھے کھڑے ہو کر بھٹو صاحب کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں، اس وقت مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ سب نعرے بازی کیوں کر رہے ہیں، لیکن بہت بعد میں مجھے ان نعروں کی حقیقت سمجھ میں آئی۔ اچھا بھٹو صاحب نے مجھے اور مرتضی کو گاڑی میں بٹھایا اور مال روڈ پر ایک ہوٹل (شیرٹن) لے گئے، جس کی آئس کریم بہت مشہور تھی، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کون سی آئس کریم پسند ہے، مجھے ہمیشہ سے ونیلا آئس کریم پسند تھی، میں نے اسی کا بتایا تو انہوں نے کہا کہ آج تم نے اپنی نہیں بلکہ میری پسند کی آئس کریم کھانی ہے اور مجھے چاکلیٹ آئس کریم پسند ہے، میں نے صاف انکار کر دیا لیکن بھٹوصاحب نے زبردستی مجھے چاکلیٹ آئس کریم کھلوائی، میں نے لاکھ منہ بنائے لیکن میری ایک نہ چلی۔

اچھا پھر آپ آجائیں 25،30 سال آگے۔ محترمہ یہاں لاہور میں میرے گھر آ کر رہتی تھیں، محترمہ کو چاکلیٹ آئس کریم کھانے کا بہت شوق تھا، جو شائد انہیں والد صاحب کی طرف سے ملا تھا۔ ایک روز شام کو ہم نکلے تو محترمہ نے کہا کہ آئس کریم کھاتے ہیں، ہم ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے۔ ہم گاڑی میں ہی بیٹھے تھے کہ ایک لڑکا آگیا، محترمہ نے اسے چاکلیٹ آئس کریم لانے کاکہا تو میں نے اس لڑکے کو روک دیا اور کہا کہ چاکلیٹ نہیں بلکہ ونیلا آئس کریم لاؤ۔ محترمہ نے کہا فیصل مجھے نہیں پسند ونیلا آئس کریم، تو میں نے ان سے کہا کہ آج سے 25،30 سال پہلے آپ کے والد نے زبردستی مجھے میری پسند کے برعکس چاکلیٹ آئس کریم کھلائی تھی، آج میں نے وہ حساب کتاب پورا کرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔