شب تنور اور شب سمور

عبدالقادر حسن  جمعـء 20 جنوری 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سردیوں کی رات تھی اور ایک مسافر رات بسر کرنے کے لیے کسی پناہ کی تلاش میں تھا اس نے دور سے دیکھا کہ اس ویرانے کی اس رات کو دور دور تک خیمے نصب ہیں اور کچھ چہل پہل بھی ہے۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور رات بسر کرنے کے لیے ان خیموں کے قریب چلا گیا۔ اس نے ایک خیمے میں جھانک کر دیکھا تو اسے جھڑک کر بھگا دیا گیا۔

اسی طرح دوسرے تیسرے خیمے میں بھی اسے رات بسر کرنے کی پناہ نہ مل سکی اسی دوران ایک بڑا سا خیمہ دیکھ کر اسے کچھ امید بندھی اور وہ اس بڑے اور بارونق خیمے کے قریب پہنچا اور رات بسر کرنے کی درخواست کی لیکن خیمے میں سردی سے بچ کر رات بسر کرنے والوں نے بھی اسے بھگا دیا۔ اس طرح ہر خیمے سے مایوس ہو کر اس نے قریب ہی ایک تنور دیکھا جو بجھ چکا تھا مگر اس میں حرارت ابھی باقی تھی چنانچہ یہ مایوس مسافر اس تنور کے قریب لیٹ گیا اور اس کی گرمی میں رات بسر کر لی۔

صبح اس نے خیمے والوں کو آرام کرتے دیکھا اور اپنی تنور کے کنارے بسر کرنے والی رات کو بھی یاد کیا تو اس کے منہ سے ایک جملہ نکلا کہ کچھ تنور کے کنارے لیٹ کر رات بسر کر گئے کچھ خیموں کے اندر گرم لحافوں اور سمور کے بستروں میں لپٹ کر رات بسر کر گئے لیکن نتیجہ یہ کہ دونوں نے رات بسر کر لی۔ گہری گرم نیند سونے والوں نے بھی اور کروٹیں بدل کر سردی جھیلنے والوں نے بھی۔ صبح نیند سے بیدار ہونے پر اس مسافر کے منہ سے ایک جملہ نکلا کہ ’’شب سمور گزشت و شب تنور گزشت۔ کہ تنور والوں کی رات بھی بسر ہو گئی اور سمور میں لپٹ کر سونے والوں کی بھی گزر گئی۔

اس مسافر کا یہ جملہ ادب کا ایک محاورہ بنکر زندہ ہو گیا۔ رات دونوں کی بسر ہو گئی لیکن ایک رات تاریخ کی مثال بن کر زندہ ہو گئی۔ آپ اور میں اب بھی سرد راتوں کو کسی فٹ پاتھ کے کنارے سکڑے ہوئے کچھ لوگوں کو سردی کا مقابلہ کرتے دیکھتے ہیں۔ ان کے قریب ہی آباد گھروں میں کچھ انسان لڑ بھڑ رہے ہوتے ہیں کہ ناشتہ کیا کریں۔ ہر کوئی اپنی پسند کا ناشتہ چاہتا ہے جب کہ اس کے گھر کے باہر فٹ پاتھ کی دیوار سے چپکے ہوئے لوگ اپنی صبح رات کے بچے کھچے کھانے سے کرتے ہیں اور پھر مزدوری پر نکل جاتے ہیں۔

’’شب تنور گزشت و شب سمور گزشت‘‘ اسی موقعہ پر کہا گیا ہے کہ کچھ لوگوں نے بجھے ہوئے کسی تنور کے پاس لیٹ کر اور کچھ نے گھروں کے اندر سمور کی رضائیوں میں لپٹ کر رات بسر کر لی۔ جس محروم انسان نے اپنی صبح اس جملے سے شروع کی اس نے تاریخ اور ادب کو ایک نادر جملہ دے دیا لیکن خود اس کے ضرب المثل بن جانے سے بے خبر رہا۔ زندگی کے یہی انداز ہمیں ہر صبح کو اپنے گردوپیش میں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مزدور بھی دکھائی دیتے ہیں جو بمشکل اتنی توانائی حاصل کر پاتے ہیں کہ صبح اپنے جسم و جان کو پھر سے زندہ کر سکیں تاکہ مزدوری پر نکل جائیں اور وہ لوگ بھی جو ہر صبح ناشتے کے انتخاب میں الجھ رہے ہوتے ہیں۔

انسانوں کی زندگی اسی کشمکش میں گزرتی ہے اور کسی صاحب دل اور ذوق کے منہ سے صبح سویرے یہ تاریخی جملہ نکل جاتا ہے کہ ’’شب سمور گزشت و شب تنور گزشت‘‘ یعنی سمور اور اونی بستروں میں رات بسر کرنے والے اور کسی بجھے ہوئے تنور کے کنارے لیٹ کر رات گزار لینے والے سبھی زندگی کی ایک اور رات کاٹ گئے۔ تاریخ بدل جاتی ہے وقت ایک اور کروٹ لے لیتا ہے۔

انسانی عمر میں ایک دن رات کی کمی یا اضافہ ہو جاتا ہے مگر زندگی اپنے معمول کے سفر پر روانہ ہو جاتی ہے۔ اس سفر میں رات دن بدلتے ہیں موسم بدلتے ہیں مگر انسان ان بدلے ہوئے اوقات میں زندگی کاٹ لیتا ہے۔ وہ بھی جنہوں نے اپنی رات سمور کے غلافوں میں لپٹ کر گرم بستروں میں گزاری ہے اور وہ بھی جو کسی تنور کے پاس لیٹ کر زندگی کی ایک اور رات گزارنے میں کامیاب ہو گئے۔ انسانی زندگی اسی تنور اور سمور کا نام ہے جو آپ کو ہر صبح دکھائی دیتی ہے اور ہر شام کو غروب ہو جاتی ہے۔ کسی تنور یا سمور کی تلاش میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔