فردوس حیدر، دنیا خالی ہوتی جاتی ہے

زاہدہ حنا  اتوار 22 جنوری 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

ہماری ایک دراک اور بے باک لکھنے والی فردوس حیدر چلی گئی۔ اتنی خاموشی سے کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔ کئی ناولوں، افسانوی مجموعوں، ٹیلی وژن سیریلز کی نمودار لکھنے والی نے اس دنیا سے پردہ کیا اور کم سے کم میری اطلاع کے مطابق اخبار میں خبر نہ آئی۔

عجیب اتفاق ہے کہ فردوس سے میری پہلی ملاقات 1982ء کے آرٹس کونسل میں ہوئی تھی اور دسمبر 2016ء میں اسے آخری بار آرٹس کونسل کی سالانہ ادبی کانفرنس میں دیکھا۔ اس وقت کوئی سیشن چل رہا تھا، میں نے اسے مڑکر دیکھا۔ کتابی چہرے کی زردی ذرا گہری ہوگئی تھی۔ ہماری آنکھیں ملیں تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ محفل ختم ہوتو ملتے ہیں، اس نے سر ہلا کر میری بات کا جواب دیا۔ تقریریں ختم ہوئیں تو میں اٹھ کر اس کی طرف بڑھی لیکن لوگوں کا ریلا تھا جس میں ہم دونوں بہہ گئے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ نگاہوں کا وہ ملنا ہماری آخری ملاقات ہوگی۔

وہ دوست میری تھی لیکن اس کی رخصت کی خبر مجھے پنڈی سے میری بیٹی سحینا نے دی۔ سحینا نے کہا کہ فردوس آنٹی ایک دن پہلے گوجرانوالہ میں دفن بھی کی جا چکیں۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ لیکن یہاں ہمیں تو خبر ہی نہیں ہوئی۔ کسی اخبار میں شاید کوئی خبر بھی نہیں چھپی۔

’’فردوس آنٹی کو تعلقات عامہ کا فن نہیں آتا تھا اور پھر عرصے سے میں بھی تو کراچی میں نہیں ہوں‘‘۔ اس کے لہجے میں آنسوؤں کا نم تھا۔ وہ کراچی میں تھی تو ہر ہفتے دس دن پر فردوس سے ملنے جاتی اور مجھے اپنی دوست کی تازہ خبریں اپنی بیٹی سے ملتیں۔ ان دونوں کا گہرا تعلق تھا۔ فردوس سے فون پر بات ہوتی تو وہ نہایت محبت سے سحینا کا ذکر کرتی۔ تصوف، انگریزی ادب اور مصوری پر ان کی باتیں ہوتیں۔ آپس میں کتابوں کے تبادلے ہوتے۔

چند ہفتوں پہلے ہم دونوں کے ایک مشترک دوست یوسف شاہد کا فون آیا تو وہ فردوس کی طرف سے تشویش میں مبتلا تھے ’’فردوس آپا کی طبیعت خاصی خراب ہے‘‘۔ ’’چلیں ہم انھیں دیکھنے چلتے ہیں‘‘ میں نے کہا۔ ’’میں ذرا ان سے پوچھ لوں۔‘‘ فردوس کا پیغام آیا کہ میں کچھ سنبھل جاؤں تو تم دونوں ضرور آؤ۔ ہم جب یہ باتیں کررہے تھے تو یوسف کو اور مجھے خبر بھی نہ تھی کہ فردوس خون کے کینسر سے اپنی آخری جنگ لڑ رہی ہے۔ لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ فردوس نے ہم سے پردہ کرلیا ہے۔ آرٹس کونسل کے اس سیشن میں بھی وہ شاید اس لیے آئی تھی کہ آخری بار اس ادبی چہل پہل کو دیکھ لے جسے وہ سالہا سال تک اپنی زندگی سمجھتی رہی تھی۔

فردوس حیدر نے اپنی اور میری دوستی کے حوالے سے ایک جگہ لکھا تھا۔ ’’میرا شمار زاہدہ کے چند ان دوستوں میں ہے جو بچھڑنے اور ملنے کے عمل سے بے نیاز رہتے ہیں۔ جہاں بھی ہیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف لیکن ایک دوسرے سے باخبر تمام تر نیک خواہشات کے ساتھ۔ ہماری وابستگی روحوں کے اس گروپ سے ہے جو دنیا میں کوئی پرانی یادداشت ساتھ لے کر آتی ہیں اور ایک دوسرے کو ملتے ہی پہچان لیتی ہیں کہ ہم پہلے کہیں ملے ہیں۔ کہاں اور کیسے یہ سوچنا بے معنی سا ہوجاتا ہے اور ملنا اہم لگنے لگتا ہے۔

تقریباً تین دہائی قبل ایک ادبی نشست میں میری زاہدہ حنا سے پہلی ملاقات ہوئی۔ متعارف ہوتے ہوئے اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور ہلکے سے دباؤ کے ساتھ اپنی دوستی کا احساس دلایا تو جگنو کی طرح چمکتا ہوا کوئی لمحہ میری گرفت میں آگیا۔ اس زمانے میں کراچی اور کراچی کے باسی میرے لیے اجنبی تھے۔ میرے دل نے کراچی میں مستقل رہائش کا فیصلہ کیا تھا۔ منطق کو پسِ پشت ڈال کر۔ شاید اس کا سبب یہ تھا کہ اللہ نے ہر جگہ مجھے اچھے دوستوں سے نوازا تھا، اس بار میں کراچی میں رہ کر اپنے اعتماد کو ایک بار پھر آزمانا چاہتی تھی۔اس زمانے میں میرے گھر کالے پل سے گلشن اقبال کا راستہ بیس یا پچیس منٹ میں طے ہوجاتا تھا۔ سڑکوں پر اتنا ٹریفک نہ تھا۔

میں ہر دوسرے دن زاہدہ کے ہاں پہنچ جاتی۔ وہاں دیگر ادیبوں سے بھی ملاقاتیں ہوتیں۔ جمیل زبیری، طاہر آفریدی، سلطان جمیل نسیم، انیس صدیقی اور کئی دیگر ادیب گلشن اقبال میں رہتے تھے۔ کسی نہ کسی کے یہاں ادبی نشست ہوتی۔ افسانے پڑھے جاتے، سنے جاتے، گفتگو ہوتی، تنقید ہوتی، مزید لکھنے کی تحریک ملتی۔ وقت نے سب کو اپنے اپنے مسائل میں الجھا دیا یا مصروف کر دیا۔ دوستوں کی محفلیں کم ہوئیں اور پھر ختم ہو گئیں۔ فاصلے بڑھ گئے۔ لیکن میں اور زاہدہ جہاں بھی ملتے اسی طرح ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور ہلکے سے دباؤ کے ساتھ ایک دوسرے کو اپنی دوستی کا احساس دلاتے‘‘۔

اور پھر اسی سلسلۂ خیال میں فردوس نے میری والدہ کو یاد کیا تھا ’’زاہدہ اگر گھر میں نہ ہوتی تو میں اس کی والدہ کے پاس بیٹھتی۔ کم گو، نہایت شفیق اور نفیس خاتون۔ زیرِ لب مسکراہٹ لیے نہایت پیار سے کہتیں ’’کھانا تیار ہے اور لہسن کی چٹنی بھی ہے۔‘‘ میں انکار نہ کرسکتی۔ ان کا مسکراتا ہوا شفیق چہرہ آج بھی میری نگاہوں میں ہے۔ سوچتی ہوں یہ کیسا تعلق ہے۔ کیسا رشتہ ہے جو ایسے لوگ کمزور اور تنہا لمحوں میں چپکے سے سامنے آبیٹھتے ہیں۔ مسکراتے ہوئے، ہمت بڑھاتے ہوئے‘‘۔

ہم دونوں کبھی ہر دوسرے چوتھے دن ملے اور کبھی چار چھ مہینے نہیں ملے لیکن فون پر باتیں کرلیں، سحینا اور یوسف شاہد کے وسیلے سے ایک دوسرے کو یاد کیا اور خوش ہولیے۔ اب وہ چلی گئی ہے تو شین فرخ، کشور ناہید، عذرا اصغر اور نجمہ عثمان کے فون چلے آرہے ہیں۔ سب ہی اسے یاد کررہے ہیں۔ سب ہی دل گرفتہ ہیں۔ میں نے امریکا میں فردوس کی اور اپنی عزیز دوست ثریا جبیں کو بھی خبر دی ہے۔ثریا کو یقین نہیں آرہا۔

فردوس محض ایک عزیز دوست نہیں، بہت اچھی لکھنی والی تھیں۔ ان کے مزاج میں انحراف اور بغاوت تھی، یہی وجہ تھی کہ ان کی کہانیاں ہمارے یہاں کچھ لوگوں کو چبھتی تھیں۔ رام لعل نے ان کے بارے میں بجا لکھا تھا کہ، ان کی کہانیاں تیسری دنیا کے سیاسی اور سماجی جبر کے خلاف احتجاج ہیں۔ اسی طرح اردو کے اہم ادیب جوگندر پال نے ان کی کہانیوں کا احاطہ یوں کیا تھا کہ ’’فردوس حیدر کی کہانیاں بالکل ایسی ہیں، جیسی سادہ سے پیپل کے پتے کے اندر ہی اندر اس کی باریک رگیں۔ یہ تخلیق مصنف کے اس قدر قابل مطالعہ ہونے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے‘‘۔

فردوس کے بارے میں سوچتی ہوں تو خیال آتا ہے کہ کیا لوگ ہوتے تھے، کاشان سے کشمیر کبھی، دلی اور کبھی لاہور کی طرف کھنچے چلے آتے۔ رزق کی تلاش میں کچھ آگرے اور کچھ میرٹھ کا رخ کرتے۔ فردوس کے دادا پردادا کی زرعی زمینیں جب مہاراجا ہری سنگھ نے ہتھیا لیں تو یہ لٹا پٹا گھرانہ کشمیر جنت نظیر سے نکلا اور گجرانوالے پہنچ کر دم لیا۔ وہاں کی مٹی سے فردوس کا خمیر اٹھا۔ پر دادا صوفی جمال الدین عرف میاں جی نے پیٹ کا جہنم پاٹنے کے لیے اینٹیں بنائیں اور باپ نے ٹیلی فون کے محکمے میں ملازمت کی۔ وہ ایک پڑھے لکھے آدمی تھے۔

نظریاتی اعتبار سے مارکس وادی، شعر کہتے تھے لیکن پس منظر میں رہنا پسند کیا۔ شاید یہی سبب ہو کہ انھیں فردوس کی تعلیم و تہذیب سے بہت دلچسپی تھی۔ بیٹی نے تخلیق کے آسمان پر اڑنا چاہا تو باپ نے کوئی قدغن نہ لگائی۔ یوں وہ ناول نگار، افسانہ نگار اور سفر نامے لکھنے والی ہوئی۔ انڈس ٹیلی وژن کے لیے اس نے پاکستان کا پہلا سوپ آپیرا ’’جال‘‘ لکھا جو بہت مقبول ہوا۔ یہ روزی روٹی کا ایک باعزت ذریعہ تھا۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ سو ڈیڑھ سو قسطوں کا سیریل بھی لکھیں اور افسانے بھی اسی تواتر سے لکھتے رہیں۔

زندگی میں فردوس نے کئی ذاتی صدمے سہے اس کا کمال یہ تھا کہ اپنے زخموں کا اشتہار دیے بغیر وہ زندگی کو جھیلتی رہی، بچوں کی پرورش کرتی رہی۔ کبھی تصوف کا سہارا لیا اور کبھی مائنڈ سائنسز کا۔ اپنے شوہر کی ملازمت کے سبب وہ کچھ عرصہ بنکاک میں رہی اور کچھ دن اس نے استنبول میں گزارے۔ ان دونوں شہروں کی جھلکیاں اس کے افسانوں میں ملتی ہیں۔ پاکستان جن عذابوں میں گرفتار ہے، اسے فردوس نے اپنی کہانیوں میں خوب رقم کیا۔ تب ہی ہمارے معتبر نقاد وزیر آغا نے لکھا ’’فردوس حیدر عصری صورتحال کی بہت اچھی نباض ہیں یہ عصری صورتحال محض ملکی سرحدوں تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح کو بھی اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے‘‘۔

اسے نئی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا۔ اس نے ترکی سیکھی، کراچی میں غیر ملکیوں کو اردو سکھائی۔ رنگوں اور کینوس سے تعلق تھا، سو مصوری کی۔ ایک مضطرب روح تھی جو چین کی تلاش میںتھی لیکن چین بھلا کسے میسر آیا ہے جو اسے آتا۔

اس نے زندگی کے آخری تیس پینتیس برس کراچی میں گزارے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب شہر اپنوں کے ہاتھوں لہولہان ہورہا تھا۔ فردوس نے وہ ابتلا دیکھی اور اسے شدت سے محسوس کیا۔ اس کی کہانیاں نہیں شہر کے نوحے ہیں۔ ان سے کراچی کے اس دور کی تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔ وہ چلی گئی ہے، خاموشی سے اور ہم سے بے اعتنائی کا شکوہ کیے بغیر۔ وہ ایسی ہی تھی، اس جیسے لوگوں سے دنیا خالی ہوتی جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔