مہلک امراض کے علاج کے لیے جدید بائیو ریزرونینس تھراپی متعارف

 ڈاکٹرمحمد علی خالد کی ایکسپریس فورم میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

 ڈاکٹرمحمد علی خالد کی ایکسپریس فورم میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

دنیا کی آبادی میں جیسے جیسے اضافہ ہورہا ہے، اسی رفتار سے بہت سی بیماریاں اور امراض انسانی صحت کے دشمن بن کر دنیا بھر میں پھیل رہے ہیں، کہیں قدرتی آفات بیماریوں کا سبب بنتی ہیں تو کہیں انسانوں کی اپنی کوتاہیاں، غلطیاں اور صحت و صفائی کے اصولوں سے انحراف امراض کی وجہ بن جاتا ہے، کہیں جغرافیائی تبدیلیاں موسم بدلنے کے ساتھ ساتھ امراض کی شدت بھی بڑھا دیتی ہیں تو کہیں مختلف قسم کے مسائل اور پریشانیوں میں گھرے رہنے کی وجہ سے لوگ ذہنی اور اعصابی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ تمام امراض اور بیماریاں معمولی شدت کے ساتھ حملہ آور ہوتی ہیں لیکن صحیح طریقہ علاج نہ ہونے، بیماری کی پروا نہ کرنے یا کسی بھی مرض کی دیر سے تشخیص کی وجہ سے یہی معمولی امراض رفتہ رفتہ مہلک بیماری کی شکل اختیار کرلیتے ہیں جس کی قیمت کبھی کبھی انسانی زندگی کی شکل میں دی جاتی ہے۔

دنیا بھر میں مختلف امراض کے علاج کے لیے مختلف طریقے اختیاری کیے جارہے ہیں، کہیں ڈاکٹر، فزیشن اور سرجنز ہیں جو اپنی اپنی فیلڈ میں مریضوں کی صحت کی بحالی کا کام کررہے ہیں تو کہیں ہومیو پیتھک اور یونانی دواؤں سے انسانی زندگی کو بیماریوں سے نجات دلانے کی کوششیں جاری ہیں، کہیں حکیم اپنے علم کی بدولت بیماریوں سے لڑ رہے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان سب چیزوں سے ہٹ کر انتہائی منفرد انداز میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے جدید ٹیکنالوجی (bio ressers therapy)بائیو ریزونینس کا استعمال کررہے ہیں۔

ان حضرات کا طریقہ علاج کچھ ایسا ہے کہ نہ کو مریض کے آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے نہ ہی اسے بہت دنوں تک اسپتال میں زیر علاج رہنا پڑتا ہے، یہ کام کچھ نیا ضرور ہے لیکن بہت تیزی سے خاص و عام میں مقبول ہورہا ہے، اس طریقہ علاج کو متعارف کرانے میں ایک نام ڈاکٹرمحمد علی خالد کا بھی ہے، وہ بائیو ریزونینس تھراپی کے ذریعے مختلف بیماریوں ’’ولسن ڈیزیز‘‘(Wilson Deseases)کے علاج کے لیے سرگرم ہیں۔

یہ طریقہ علاج نیا بھی ہے اور منفرد بھی، اس لیے عوام تک اس کی اہمیت اجاگر کرنے، ڈاکٹرمحمد علی خالد صاحب کے مقصد اور ان کے کام کے طریقہ کار کی تفصیلات سب تک پہنچانے کے لیے ہم نے ایکسپریس فورم میں ڈاکٹرمحمد علی خالد کو مدعو کیا جہاں ان سے جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی جس کی تفصیلات نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹرمحمد علی خالد کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کے ہر عضو (Organ) کے سیل کی فریکوئنسی (Frequency) مختلف ہوتی ہے۔ 144 کسی بھی عضو کی صحت مندی کی فریکوئنسی سمجھی جاتی ہے، کھانے پینے میں بے احتیاطی، مختلف چیزوں کی زیادتی کی وجہ سے یا کسی اور سبب Cell کی فریکوئنسی بدل جاتی ہے جس کے اثرات انسانی صحت پر مرتب ہوتے ہیں، ہم اپنے طریقہ علاج سے کسی بھی عضو (Organ) کو اس کی اصل فریکوئنسی دیتے ہیں تاکہ وہ پہلے کی طرح کام کرنے کے قابل ہوسکے۔

جب کوئی مریض ہمارے پاس آتا ہے تو پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس کے جسم میں کس جگہ بیماری ہے، پھر ہم اس سیل کو نارمل فریکوئنسی میں لانے کے لیے مخصوص تھراپی استعمال کرتے ہیں۔ جب فریکوئنسی بدلتی ہے تو اس کا اسٹرکچر بھی بدل جاتا ہے۔ سائنسدانوں کو مختلف اعضا کی فریکوئنسی کا ادراک ہوگیا ہے  اور اس فریکوئنسی کو مقررہ سطح پر رکھنا ہمارا کام ہے۔ ہم مختلف قسم کے جراثیموں اور ان سے پھیلنے والی بیماریوں کو ختم کرنے کیلیے اپنا میکینزم استعمال کرتے ہیں۔

اس سوال پر کہ کون کون سی بیماریوں کا علاج اس بائیو ریزونینس تھراپی سے ممکن ہے؟ ڈاکٹر نے بتایا کہ یوں تو تمام امراض کے لیے ہم یہ تھراپی استعمال کرتے ہیں، Polip کو ختم کرنے میں یہ طریقہ علاج سود مند ہے۔

ڈاکٹر خالدکا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کے طریقہ علاج کے کوئی سائیڈ ایفیکٹس (side effects)  ہیں ؟ تو میرا اُن سب کو یہی جواب ہے کہ اس تھراپی کے کوئی مضر اثرات نہیں ہیں، ہم جس بیماری کیلیے بھی فریکوئنسی  دیتے ہیں وہ بہت ٹارگٹڈ ہوتی ہے اور وہ جسم کے متاثرہ سیل کو ہی ہدف بناتی ہے۔

اپنے طریقہ علاج کی قومی و بین الاقوامی پلیٹ فارمز اور اداروں میں رجسٹریشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹرمحمد علی خالد نے کہا کہ ابھی ہم امریکی ادارے Food & Drug Administration (FDA) سے رجسٹرڈ نہیں ہیں تاہم اس حوالے سے کوشش کررہے ہیں۔ یہ طریقہ علاج جرمنی میں منظور شدہ ہے ، ہم اپنے طریقہ علاج میں روس، یوکرین اور آسٹریلیا کی مشینیں استعمال کررہے ہیں ، وہاں بھی ہمارے مراکز ہیں۔ سنگاپور میں ہمارا مرکزی دفتر ہے بلکہ وہاں ہمارے 2 مراکز ہیں۔ ان ملکوں میں ہم کام کررہے ہیں اور کسی نے کوئی اعتراض نہیں جس سے ہمیں حوصلہ ملا ہے اور اب ہماری کوشش ہے کہ اپنا نیٹ ورک وسیع کریں۔ پاکستان میں حکومت سندھ نے ہمیں اجازت نامہ دیدیا ہے ۔

ولسن ڈیزیز کے حوالے سے ڈاکٹرمحمد علی خالد نے بتایا کہ پاکستان میں ولسن ڈیزیز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد تقریباً 24، 25 ہزار ہے۔ جسم میں Copper کی سطح میں اضافے سے دماغ، جگر اور دیگر اعضا متاثر ہوتے ہیں اس کا دنیا بھر میں کوئی باقاعدہ علاج نہیں، صرف ایک دوائی وسینا سلی مین ہے جو تقریباً 10 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ کسی مریض کے جسم میں Copper کی سطح کو نارمل کرتی ہے۔ ہم یہ بات کہتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ ہم نے جو علاج 10 سال میں ہونا تھا اسے 4،3 ماہ میں کامیابی سے مکمل کیا ہے، جب ہم نے مریض کی پہلی اور ہمارے طریقہ علاج کے بعد کی رپورٹس انڈیا بھیجیں تو پہلے تو انہیں یقین نہیں آیا لیکن پھر وہ مان گئے۔

ڈاکٹرمحمد علی خالد نے بتایا کہ اس وقت پاکستان میں ہمارے پاس طریقہ علاج سے مستفید ہونے والے مریضوں کی تعداد 10 سے 15 ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ جوں جوں لوگوں کو اس ٹیکنالوجی کا پتہ چلے گا تو لوگوں کی بڑی تعداد اپنی صحت کی بہتری کے لیے ہم سے رجوع کرے گی۔ ہم نے ایک مریض بچے کا علاج شروع کیا جو جب ہمارے پاس آیا تو بالکل مفلوج تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ تھراپی کے بعد اب وہ آہستہ آہستہ بہتر ہو رہا ہے تاہم اسے مکمل صحت یاب ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔ Austism کے شکار بچے بھی ہمارے پاس آ رہے ہیں، اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہر 10ہزار میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکارہے۔

اس سوال پر کہ Copper کن اشیا میں زیادہ ہوتا ہے؟ ڈاکٹرخالد نے بتایا کہ ساگ، گوبھی، Nuts میں Copper (تانبے) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس کی زیادتی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

ایک سوال پر ڈاکٹرمحمد علی خالد نے کہا کہ اگر پاکستان میں ہمیں ایک جامع پلیٹ فارم مہیا کر دیا جائے تو ہم زیادہ سے زیادہ مریضوں کا علاج کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے لوگ ہمیں فون کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس پاکستان میں فی الحال اتنا بڑا نیٹ ورک نہیں کہ ہم ہر جگہ پہنچ جائیں۔ لوگوں میں ہماری ٹیکنالوجی کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ضروری ہے جس کے لیے میں ایکسپریس کا بے حد مشکور ہوں۔

جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کا طریقہ علاج موروثی بیماریوں کا علاج کر سکتا ہے ؟ تو ڈاکٹرخالد نے بتایا کہ Genes کے معاملات، گردے کے امراض وغیرہ کا ہم علاج کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آنکھوں کی ایک بیماری RP ہوتی ہے، اس کا بھی ہم علاج کر رہے ہیں، شروع میں ہمارے پاس اس بیماری کے 3 مریض آئے تھے جو تقریباً نابیناتھے لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرام ہے کہ ہماری تھراپی کے بعد ان کی بینائی بہتر ہو رہی ہے، اس کے علاوہ ہم پروسٹیٹ اور تھائیرائیڈ کے بھی امراض کے علاج کیلیے کام کر رہے ہیں۔ بلڈ کینسر اور لیوکیمیا جیسی بیماری کے شکار مریضوں کو بھی ہم اپنی تھراپی کے ذریعے صحیح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک اور سوال پر انھوں نے بتایا کہ سائنسی طور پر اگر ہم سے کوئی ثبوت مانگا جاتا ہے تو وہ فی الحال ہمارے پاس نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں 90 فیصد نان ڈاکٹر تھوڑا بہت سیکھ کر ڈاکٹر بنے ہوئے ہیں جس سے صورت حال خراب ہو رہی ہے اور صحیح ڈاکٹروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

تھیلیسیمیا کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ ہم تھیلیسیمیا مائنر کا علاج کر دیتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میجر میں اگر کسی مریض کو ہر ماہ بلڈ ٹرانسفیوژن کرائی پڑتی ہے تو ہماری تھراپی سے بلڈ ٹرانسفیوژن کی مدت بڑھ جاتی ہے۔ اب تو مختلف امراض کے شکار مریضوں کی صحت میں بہتری دیکھ کر ڈاکٹر ہماری تھراپی کے نتائج پر یقین کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ایک مریض کا Gall Blader ختم ہو گیا تھا وہ بھی ہمارے زیر علاج رہا۔ چند ماہ قبل SUIT کے ایک مریض کو بھی ہمارے پاس لایا گیا ہے، اسے 4،3 سال قبل کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور کینسر پھیپھڑوں (Lungs) میں چلا گیا تھا اب جب اس نے کچھ عرصے ہماری تھراپی کی تو اللہ کے فضل سے اسے بہت بہتری ہوئی اور اب SUIT نے لکھ کر دے دیا ہے کہ اسے کینسر نہیں ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ تمام مریض اس طریقہ علاج سے بہتر ہو سکتے ہیں وہ محروم نہ رہیں۔

اس سوال پر کہ آپ کی تھراپی کے اخراجات کتنے ہوتے ہیں؟ ، ڈاکٹرخالد نے بتایا کہ ایک تھراپی کی فیس 2000/= روپے ہے، ہم 58% رعایت بھی دیتے ہیں۔ اب یہ مریض کی کیفیت اور مرض کی شدت پر ہے کہ اسے کتنی بار تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ ہم پاکستان بھر میں اس جدید طریقہ علاج کے ذریعے غریب اور مستحق مریضوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں کیوں کہ پاکستان میں جتنے بھی طریقہ علاج ہیں وہ غریبوں کے لیے بہت مشکل ہیں اور بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جن کا اس جدید طریقہ سے جلد اور بہتر علاج ممکن ہوگیا۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں اس پر ریسرچ مکمل ہوچکی ہے اور جلد ہی اس علاج کو عام ہوتا دیکھیں گے لیکن ہم نے پاکستان میں اس کی ابتدا کردی ہے۔ اور مریضوں کی بہت بڑی تعداد علاج کے لیے رجوع کررہی ہے اور لوگوں کا اعتماد بڑھتا جارہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔