اسامی برائے گورنر سندھ

ندیم جاوید عثمانی  پير 23 جنوری 2017
سعید الزماں صدیقی صاحب کی بیماری اور حالت پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرتے کہ وہ سب کو دکھائی دے رہی تھی، ہاں کچھ کرتا دھرتا ذہنی بیماروں کے فیصلوں پر تبصرے کا حق ضرور ملنا چاہئیے۔ فوٹو: فائل

سعید الزماں صدیقی صاحب کی بیماری اور حالت پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرتے کہ وہ سب کو دکھائی دے رہی تھی، ہاں کچھ کرتا دھرتا ذہنی بیماروں کے فیصلوں پر تبصرے کا حق ضرور ملنا چاہئیے۔ فوٹو: فائل

فی الوقت حکومتی کارکردگی کی طرح گورنر سندھ کے عہدے کی کرسی ایک بار پھر خالی پڑی ہے۔ دیکھا جائے تو گورنر سندھ سعید الزماں صدیقی صاحب کا دورِ گورنری جتنا مختصر رہا، وہ اتنے ہی زیادہ موضوعِ گفتگو رہے۔ اُن کی عمر اور صحت کی تمام عمر اتنی زیرِ بحث نہ رہی ہوگی جتنی اس قلیل عرصے میں رہی۔ سعید الزماں صدیقی صاحب کو گورنر بنانے کے حکومتی فیصلے کے اعلان نے ہی لوگوں کو ایک سستی تفریح فراہم کردی تھی، بہرحال دن رات پانامہ لیکس کے موضوع پر بات کرنے والوں کو کوئی نیا موضوع تو دینا ہی تھا۔

یوں تو حکومتی فیصلوں کی طویل فہرست میں غلطیوں کی کچھ کمی تو نہ تھی جو سعید الزماں صدیقی صاحب کو بطور گورنر سندھ منتخب کرکے مزید ایک غلط فیصلے کا اضافہ کردیا گیا تھا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اِس عمر اور صحت پر گورنری کی کرم نوازی کرنا درحقیقت اُن نوازشات کا بدل تھی جو اپنے دورِ جسٹس میں سعیدالزماں صدیقی صاحب کی جانب سے کی گئیں۔

انسان کے جسم میں جس طرح رگوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے، کہتے ہیں بالکل اِسی طرح ریاست میں بھی رگوں کے اس جال کی مانند وزراء اور اُن کی وزارتوں کا جال پھیلا ہوا ہے، جن میں سے کچھ وزیروں کی مثال فالج زدہ مریض کے جسم کی اُن رگوں کی مانند ہے جن کا اس جسم کے لئے ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لگ بھگ 14 سال کی ایک طویل مُدت کے لئے سابقہ گورنر عشرت العباد بھی رہے اور اگر ’کیوں‘ اور ’کس لئے‘ جیسے سوالات اُٹھائیں جائیں تو بحیثیت گورنر اُن کی کرسی سے لے کر اُن کی کارکردگی تک آپ کو ہر چیز گونگی ملے گی۔

قریب 14 سال کی اُن کی یہ گورنر شِپ بھی سیاسی تعلقات کرم نوازی اور نوازشات اور پرت در پرت مفادات اور مصلحتوں میں لپٹی دکھائے دے گی۔ بہرحال یہ تمام داؤ پیچ اور ہتھکنڈے سیاسی گُر کہلائے جاتے ہیں (ہتھکنڈوں کے ساتھ اُوچھے اس لئے نہیں لکھا کہ جو لوگ ان ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہیں ان کے اُوچھے ہونے کا راز کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تو صرف ہتھکنڈے لکھنا ہی کافی لگا)۔

خیر بات ہورہی تھی 14 سال عشرت العباد کے زیرِ بار رہنے والی گورنر کی کرسی کی جو اِن 14 برسوں میں اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ یار لوگ کہتے ہیں کہ یہ 3 ماہ بھی سعید الزماں صدیقی صاحب کا بوجھ نہ اُٹھا سکی۔ حالانکہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ حکومت کے اُس فیصلے کا بوجھ نہ اُٹھا سکی جو سعید الزماں صاحب کی صورت میں اِس کرسی پر ڈالا گیا۔

اپنے اس فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لئے یہ حکومتی موقف خاصہ مضحکہ خیز دکھائی دیتا ہے کہ گورنر کے لئے سعید الزماں صدیقی صاحب سے زیادہ موزوں شخص اس عہدے کے لئے اور کوئی نہیں۔ اِس حوالے سے جسٹس سعیدالزماں صدیقی کے اُس دور کی مثالیں دی گئیں کہ جب وہ کتنے قابل رہے۔ اب اگر ہم اُن کی تمام تر قابلیتوں کو ایک طرف رکھ دیں تو یہ سوال باقی بچتا ہے کہ یہ حکومتی فیصلہ کس قدر قابل تھا؟

قابلیت کے معیار کو پرکھنے کے لئے صرف یہ نہیں یاد کیا جاتا کہ کوئی کتنا قابل رہا ہے، بلکہ اُن تمام عوامل کی بھی جانچ کی جاتی ہے کہ آیا عمر کے اِس دور اور صحت کے ہمراہ وہ کتنا قابل ہے۔ اگر آپ اس کے متعلق سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں اُٹھتے ہر سوال کا جواب نفی میں آئے گا۔

سعید الزماں صدیقی صاحب کی بیماری اور حالت پر ہم کوئی تبصرہ نہیں کرتے کہ وہ سب کو دکھائی دے رہی تھی، ہاں کچھ کرتا دھرتا ذہنی بیماروں کے فیصلوں پر تبصرے کا حق ضرور ملنا چاہئیے، جن کے فیصلوں میں سے اگر سیاسی اور ذاتی مفادات نکال دئیے جائیں تو سمجھ بوجھ اور دور اندیشی کا کہیں نشان نہیں ملتا۔

اب ایک بار پھر گورنر کی اسامی خالی ہے، قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے یا نکالا جاتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن ساتھ ہی وقت یہ بھی ثابت کردے گا کہ آیا اِس بار عقل و دانش کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یا حکومتی روایت کے تحت ایک بار پھر یہ کرسی سیاسی اور ذاتی مفادات کی نظر ہوجائے گی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔