قومی یکجہتی: دہشت گردی کے خاتمے کا موثر ہتھیار

ایڈیٹوریل  پير 23 جنوری 2017
۔ فوٹو : اے ایف پی

۔ فوٹو : اے ایف پی

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اتوار کو پارا چنار کے دورے کے موقع پر سبزی منڈی میں ہونے والے بم دھماکے کے زخمیوں کی عیادت اور قبائلی عمائدین سے ملاقات بھی کی۔ اس موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ فرقہ‘ لسانی‘ صوبائی‘ علاقائیت نہیں ہم سب کی پہچان صرف پاکستانی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون اور امن کے لیے قبائلیوں کی قربانیوں کو سراہا۔

پارا چنار میں ہفتہ کو سبزی منڈی میں بم دھماکا ہوا تھا جس میں25افراد جاں بحق اور87 زخمی ہو گئے تھے‘ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 12کلو دھماکا خیز مواد پھلوں کی پیٹی میں رکھا گیا تھا جس میں بال بیرنگ اور کیل بھی شامل تھے‘ اتوار کو حساس اداروں کی اطلاع پر پارا چنار سے 8مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔

شمالی وزیرستان اور دیگر دور افتادہ دشوار گزار علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جو اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور ان علاقوں کو کافی حد تک تخریب کاروں سے پاک کرکے یہاں امن قائم کر دیا گیا۔ آپریشن کے باعث دہشت گردوں کی ایک تعداد ان علاقوں سے فرار ہو کر مختلف علاقوں میں چھپ گئی‘ اب ان دہشت گردوں کی باقیات وقفے وقفے سے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی واردات کر کے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتی رہتی ہے‘ ہفتے کو پارا چنار میں ہونے والا دھماکا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

شمالی وزیرستان‘ فاٹا اور دیگر علاقوں میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا ایک طویل عرصے تک اثرونفوذ رہا ہے اور وہ یہاں سے نکل کر ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے رہے ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق دہشت گرد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں اور جب کبھی انھیں موقع ملتا ہے وہ وہاں دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات کر دیتے ہیں۔ بلوچستان ایک تو پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث دہشت گردوں کو اپنی محفوظ پناہ گاہ محسوس ہوتا ہے دوسرا سرحد پار افغانستان سے بھی انھیں مختلف صورتوں میں امداد ملتی رہتی ہے۔

یہ بات بھی منظرعام پر آ چکی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز ہیں جہاں سے وہ نکل کر پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرتے ہیں۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے سرحدوں پر نگرانی کا نظام کافی سخت کر دیا گیا اور کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گرد کسی بھی صورت سرحد پار نہ کر سکیں۔ چونکہ یہ ایک دشوار گزار اور مشکل علاقہ ہے اس لیے کہیں نہ کہیں سے دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کی مدد سے بھیس بدل کر سرحد پار آ جاتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب تک داخلی اور خارجی سطح پر دہشت گردوں کو تعاون نہ ملتا رہے تب تک وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لیے ناگزیر ہے کہ داخلی سطح پر دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو تلاش کیا جائے اس کے لیے ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کے درمیان رابطے کا نظام مضبوط بنانے کے علاوہ مقامی سطح پر بلدیاتی نمایندوں سے بھی مدد حاصل کی جائے‘ گراس روٹ لیول پر عوام کی مدد اور تعاون دہشت گردی کے خاتمے میں ممد و معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

فاٹا اور دیگر علاقوں میں آپریشن کے باعث ایک طویل عرصے تک امن قائم رہا لیکن دہشت گردوں کی باقیات اب بھی موجود ہے جس کا خاتمہ کرنے کے لیے مقامی لوگوں کو متحرک کیا جانا ضروری ہے۔ دوسرا پاک افغان سرحد پر سیکیورٹی کے نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے اس کے علاوہ ان علاقوں میں مستقل بنیادوں پر فوجی چھاؤنیاں قائم کی جائیں اور یہاں اسلحہ کلچر جو دہشت گردی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اس کا خاتمہ کیے بغیر امن و امان قائم کرنا مشکل امر ہے۔

فوج‘ ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں اس علاقے میں جو امن و امان اور استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے دہشت گرد قوتیں اسے ڈی ریل کرنے کے لیے سرگرم دکھائی دیتی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ ایک بار پھر وہ اس علاقے میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سول اور عسکری قیادت بار بار اس عزم کا اعادہ کر چکی ہے کہ وہ کسی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے اور  ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے امن و امان کو یقینی بنائیں گے۔فرقہ واریت،لسانیت،صوبائیت اور علاقائیت کے سلوگن کو ترک کر کے اور بحیثیت ایک پاکستانی قوم کے متحد ہو کر ہی دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔