گوجرہ سانحہ، ریلوے حادثات کا افسوسناک تسلسل

ایڈیٹوریل  پير 23 جنوری 2017
۔ فوٹو: فائل

۔ فوٹو: فائل

ایک اورالمناک سانحہ، بغیرپھاٹک ریلوے کراسنگ پرگزرتی ہوئی کارکو ٹرین ایک کلومیٹر تک گھسیٹی ہوئی لے گئی، دوسگے بھائیوں سمیت چھ افراد جاں بحق ہوئے جب کہ حادثے کا شکارافراد کے اعضا دور دور تک بکھرنے سے  لاشیں ناقابل شناخت ہوگئیں۔ سانحے کی تفصیلات انتہائی اندوہناک ہیں، جنھیں پڑھ کر ہرآنکھ اشکبارہوجاتی ہیں۔ ریلوے حادثات کے تسلسل اوراس میں قیمتی جانوں کے ضیاع نے بہت سے سوالات کوجنم دیا ہے۔

جہاں تمام سرکاری ادارے تنزلی اورزبوں حالی کا شکار ہیں وہی ریلوے کی حالت زار مختلف نہیں۔ادھر سیاست اور سیاست دانوں کے کیا کہنے، پی آٹی آئی نے وفاقی وزیرریلوے کے استعفیٰ اورقومی اسمبلی میں قراردادجمع کرانے کا کہا ہے۔جب کہ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق یہ کہہ کرخودکو بری الذمہ قرار دیا کہ بغیر پھاٹک والے راستوں کو محفوظ بنانا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔

ایک احتجاج اور دوسرا اپنی صفائی دے کر انکارکررہا ہے ۔کوئی پوچھے عوام کس کے رحم وکرم پرہیں۔اس وقت3987 میں سے 2470 ایسی کراسنگ ہیں، جن پرپھاٹک موجود نہیں۔ بات تو واضح ہے،ایسی گزرگاہوں پرحفاظتی اقدامات حکومت نے نہیں کیے، جب کہ جلد بازی کا مرض تو بحیثیت قوم ہمیں لاحق ہوچکا ہے۔ حادثے کی ذمے داری کار ڈرائیور پر بھی عائد ہوتی ہے جس نے ٹرین آتی دیکھ کر بھی اسپیڈ بریکر، اورباقی لوگ کھڑے ہونے کے باوجود کراسنگ سے گزرنے کی کوشش کی جس پر حادثہ پیش آیا، ایسے واقعات کی روک تھام ہمیں عوام میں شعور وآگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ قوانین کا احترام کریں ، ڈرائیونگ تحمل اور برداشت اور سوجھ بوجھ کے ساتھ کریں، یہ حادثہ ہمیں غوروفکر کی دعوت دیتا ہے کہ ہمارا قومی مزاج کتنے بگاڑ کا شکار ہوچکا ہے ۔

حکومت پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حادثات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے ، جو بھی قصور وار ہو، اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ قیمتی انسانوں جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لیے صوبائی حکومتیں، وفاقی حکومت اور پاکستان ریلوے کے ساتھ مل کر ایک روڈ میپ تیار کرنے کے لیے سنجیدگی سے لائحہ عمل طے کریں تاکہ عوام کے جان ومال کا تحفظ کیا جا سکے۔ جن کراسنگ پر پھاٹک موجود نہیں ہیں ، وہاں پر فوری پھاٹک اورعملہ تعینات کر کے حادثات سے بچاؤ کی تدبیر کی جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔