پی پی اور ن لیگ کے حق میں ایک کالم

اقبال خورشید  پير 23 جنوری 2017

عزیزو، بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ وقت ایک دولت۔

بڑے بوڑھے اٹھتے بیٹھے یہی نصیحت کیا کرتے تھے کہ میاں وقت کی قدر کرو، گیاوقت پھر نہیں آتا، وقت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کچھ بڑے ہوئے، تو جانا کہ مذکورہ نصیحتیں کم از کم کراچی کے لیے نہیں کہ یہاں کے شہری بڑے رئیس ۔ وقت لاکھ بیش قیمت صاحب، مگر اتنا بھی نہیں کہ کراچی والوں کو ستائے۔ یاروںکا ہاتھ کھلا ۔ روز یہ دولت ٹریفک جام میں اڑا دیتے ہیں، اور ذرا نہیں اتراتے۔ بیتے دنوں میں اس مشق کے کچھ اوقات مقرر تھے، مگر اب الحمدللہ صبح شام کی تفریق نہیں۔ ذراکھڑکی سے جھانک پیارے، سڑک پر گاڑیوں کا ازدحام ہوگا۔ موٹر سائیکل سواروں سے ٹرک ڈرائیور تک، سب کان ناک صاف کرتے، جمائی لیتے، فیاضی سے یہ دولت اڑا رہے ہوں گے۔

شہری سندھ حکومت کے ممنون ہیں، جس نے اِس پھیلتے بکھرتے شہر میں جگہ جگہ  کھدائی کا اہتمام کیا، جابجا گڑھوں کا انتظام کیا، بے ربط منصوبے شروع کیے، گاڑیوں کی تعداد تو بڑھائی، مگر غلطی سے بھی سڑکیں کشادہ نہیں کیں۔ ان نیک بختوں کا مقصد یہی تھا کہ شہر میں کچھ ٹریفک جام ہووے، عوام وقت نامی دولت دونوں ہاتھوں سے لٹائیں، راستے میں پھنسے پھنسے خیالی پلاؤ پکائیں، اپنے رب کا شکر بجا لائیں۔

سندھ سرکار کو خوب خبر کہ آدمی وہی اچھا، جسے اپنی حیثیت یاد رہے۔ اور آدمی کی حیثیت کیا ہے؟ خاک سے نکلتا ہے، خاک چھانتا ہے، اور خاک ہوجاتا ہے۔ اسی احساس کو قوی کرنے کے لیے جگہ جگہ سائیں سرکار نے خاک کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اورنگی ہو، کورنگی یا کلفٹن، ہر سڑک دھول سے اٹی۔ ہر جگہ خاک اڑ رہی ہے۔ انتظام ایسا زوردار کہ صبح نہا دھو کر نکلو، شام میں لوٹو، تو اپنا وزن ایک ڈیڑھ کلو زیادہ پاؤ۔ سر سے پیر تک دھول میں اٹے ہوئے۔ ذرا سوچو تو، یہ خدمت بالکل مفت ہے، سرکار تم سے ایک دھیلا بھی نہیں لیتی۔ فوراً سجدے میں گر جاؤ۔

درویشوں کی اس زمین کے وزیر، مشیر بھی درویش۔ اور خواہش مند کہ ساحلی شہر کے دو کروڑ باسی بھی صوفی بن جائیں۔ تمھیں خبر ہوگی کہ غصہ حرام، اور غصہ ناک پر ہو، تو ناک میں دم کر دیتا ہے۔ کراچی والوںکی اسی اونچی ناک کا علاج کرنے کے لیے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں لگا دیے ہیں۔ افرادی قوت بھی ہے، اور فنڈز بھی بہت، مگر کچرا یوں نہیں اٹھاتے کہ کچرا ہوئے گا، تو تعفن اٹھے گا، تعفن ہوگا، تو شہریوں کو ناک ڈھانپی پڑے گی، اور جب ناک ڈھکی ہوگی، تو غصہ کو بیٹھنے کی جگہ ہی ملے گی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ شہری شانت من کے ساتھ سڑکوں پر وقت کی دولت لوٹائیں گے، ایک روز چپکے سے درویش بن جائیں گے۔۔۔ ارے، یہ مت سمجھیں کہ ہم چپکے چپکے طنز کر رہے ہیں۔ نہیں جناب، ہم تو یقین رکھتے ہیں کہ جوتا مارنا ہے، تو بھگو کر مارا جائے۔ ہم نے جو کہا پیارے، نیک نیتی سے کہا۔ کراچی کے دو کروڑ باسیوں کے مانند ہم بھی سندھ سرکار کے شکر گزار ہیں۔

صوبے سے نکل کر اب وفاق پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ادھر ن لیگ کی حکومت۔ ہیں تو ہم اُن ہی کی رعایا، مگر شاید میاں صاحب پنجاب ہی کو پاکستان سمجھنے میں مطمئن۔ اور اگر وہ مطمئن، تو ہم بھی مسرور۔ اچھی رعایا وہی، جو شاہ کی خوشی میں خوش رہے۔ کچھ عرصے سے پاناما کا شور ہے۔ میاں صاحب کے نام پر حرف کیا آیا، عمران خان لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑ گئے۔ لاٹھی ٹیک کر چلنے والی پیپلزپارٹی نے بھی موقع غنیمت جانا، اور لال انگارہ ہوگئی۔ بدعنوانی کا شور مچا۔ دربار لگا۔ دلائل کے انبارے لگائے گئے۔

لوگ ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ پڑے۔ عوام غلطاں و پیچاں، وزرا فارسی بگھار رہے ہیں۔ بھائیو، مقدمہ ابھی کورٹ میں ہے۔ بہتر یہی کہ فقیر خاموش رہے۔ مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ یہاں کرپشن کا چلن عام۔ یاروں کے لیے اچھا حکمراں وہی، جو خود بھی کمائے، سالے بہنوئی کے لیے بھی ماحول گرمائے۔ کوئی حکومت بنائے، اور کرپشن نہ کرے، ایسوں کو ہمارے نزدیک حکومت کا حق ہی نہیں۔ عوام کی سوچ بھی یہی صاحب۔ جب ہی تو بار بار ان ہی کو ووٹ دیتے ہیں، جن کے وعدے کھوکھلے نکلے، دعوے جھوٹے ثابت ہوئے، اور جنھوں نے جم کر دولت کمائی۔ جی، پاکستانی سیاست داں میں یہ خوبیاں شرط۔

پبلک کو خبر کہ ٹیکس چوری اور اثاثے چھپانے کے الزامات سچے۔ مگر انھیں پروا نہیں۔ چائے خانوں میں اکٹھے ہوتے ہیں، تو یہی کہتے ہیں: ’’بھیا، سیاست میں تو یہ سب چلتا ہے۔ اس میں کیسی برائی۔‘‘ حقہ گڑگڑاتے ہیں، اور فرماتے ہیں: ’’ اگر یہ سب نہ ہو، تو لطف جاتا رہے۔ دل بہلانے کا بھی سامان ہونا چاہیے۔‘‘

ادھر ہمارے وزیر، مشیر خود کو ایمان دار ضرور کہتے ہیں، مگر کبھی دل سے نہیں کہتے۔ کبھی اپنی ایمان داری ثابت کرنے کی ستھری نکھری کوشش نہیں کی۔ انھیں خوب خبر کہ اگر ایک بار ان پر ایمان داری کا ٹھپا لگ گیا، تو سمجھو کیریئر داغ دار ہوا۔ تب تو یہی بہتر ہوگا کہ سیاست چھوڑ کر چاٹ کا ٹھیلا کر لیں۔ گو اس کے چلنے کا بھی امکان نہیں۔

ہاں، تو ہم کہہ رہے تھے کہ یہ چیخ پکار، دشنام طرازیاں بے سبب نہیں۔ کہیں کوئی چور ہے، جب ہی اتنا شور ہے۔ آگ نہ ہو، اور دھواں اٹھے، بھلا یہ ممکن؟ کرپشن اور بدعنوانی کے الزام میں کچھ نہ کچھ صداقت تو ضرور۔ مگر یہاں جو نظام رائج، جیسا معاشرہ، اس میں قصور وار سزا پائے، اس کا امکان کم۔ دیکھ لیجیے، کل تک تو عمران خان کی مخالفت یہ کہہ کر کی جاتی تھی کہ اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ، مقصد جمہوریت کی بساط لپٹنا، مگر اب جب کہ دھرنے کے دنوں کی سازشوں پر کھل کر تبصرے ہوچکے، نام لے لیے گئے، الزامات دھر دیے گئے، ایسے میں پاناما کیس میں خان کی مخالفت کیوں؟

سبب یہی کہ اگر اس کی بات مان کر بدعنوانی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جائے، کرپٹ سیاست دانوں کو نکال باہر کیا جائے، تو اس میدان میں کل خاک اڑ رہی ہوگی۔ بہتر یہی کہ رائی کا پہاڑ نہ بنایا جائے، رسی ڈھیلی چھوڑ دی جائے۔ کرپشن چلتی رہی، الزامات، مغلظات کا سلسلہ دراز ہو، کراچی کے باسی وقت کی دولت سڑکوں پر لٹاتے رہیں۔ قاتل کرامات کرتے رہیں۔ نہ تو دامن پر کوئی چھینٹ ہو، نہ خنجر پر کوئی داغ۔ پیپلزپارٹی زندہ باد، ن لیگ زندہ باد!

ہم کوجو ملا ہے، وہ تمھیں سے توملا ہے

ہم اور بھلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔