من پسند تقرریاں

محمد سعید آرائیں  پير 23 جنوری 2017

وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر میرٹ پر زور دیتے ہوئے کہاہے کہ طلبا کے داخلے میرٹ پر ہونے چاہئیں اور اساتذہ کا تقرر بھی میرٹ پرکیا جائے۔انھوں نے یہ بات اسکولوں کو دو سو بسوں کا عطیہ دینے کی تقریب کے موقعے پر خطاب میں کہی۔ میرٹ پر ملازمتیں اور داخلے دینے کی تلقین زیادہ تر وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی طرف سے ملتی ہے اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی میرٹ کا بہت ذکرکرتے ہیں جب کہ میرٹ کا ذکر سندھ میں کم ہی سننے کو ملتا ہے۔ البتہ سپریم کورٹ اورسندھ ہائی کورٹ میں سندھ میں میرٹ کی پامالی اور میرٹ پر تقرر و تبادلے نہ ہونے کے ریمارکس،گڈگورننس کے فقدان کی شکایات عام سننے میں آتی ہیں۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری میرٹ اورگڈ گورننس کے الفاظ سے زیادہ واقف نہیں ہیں اور وہ کبھی سندھ میں میرٹ کا ذکر نہیں کرتے مگر انھیں پنجاب اور وفاقی میں گڈگورننس کا فقدان ضرور نظر آتا ہے ۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے 5 سالہ دور میں ان کی طرف سے میرٹ پر عمل کی تلقین تو شاذ و نادر ہی کسی خاص موقعے پر سنائی دی ہو مگرعدالتوں میں ملک بھر میں میرٹ پر عمل نہ ہونے اور تقرروتبادلوں کے لیے میرٹ کو نظر انداز ہونے کے ریمارکس ضرور سنے گئے اور یہاں تک کہا گیا کہ یہاں جمہوریت نہیں بادشاہت ہے اور حکمرانوں نے من پسند تقرریاں کرتے ہوئے میرٹ کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی اور جس کو نوازنا ہو نوازتے ہوئے میرٹ کے ساتھ قوانین کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے اور نا انصافیاں ہونے پر متاثرین مجبور ہوکر حکومتی فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس سے رجوع کرتے ہیں۔

میرٹ اورگڈگورننس کا ذکر اپوزیشن میں ہوتا ہے مگر جب اپوزیشن کو اقتدار مل جاتا ہے تو میرٹ اور گڈگورننس سمیت سب کچھ بھلادیا جاتا ہے اور وہ اقتدار میں آتے ہی عقل کل بن جاتے ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدے اوردعوے کچھ یاد نہیں رہتے اور اقتدار کے نشے میں دھت ہونے کے بعد اور خوشی میں اقتدار کا پہلا سال ہنی مون پیریڈ ہوتا ہے، جس میں سب سے پہلا کام پسندیدہ افسران کو کھڈے لائن لگاکر وہاں اپنی پسند کے بااعتماد افسروں کو لگایا جاتا ہے اور ہر محکمے میں اپنے حامی بھرتی کرنے کے لیے خالی جگہیں تلاش کی جاتی ہیں اور اسی سلسلے میں معیار صرف اور صرف ذاتی وفاداری اور اپنوں کو نوازنا ہوتا ہے اگر سرکاری محکمے میں جگہ نہ ہو تو اضافی بھرتی کے لیے نئے عہدے تخلیق کیے جاتے ہیں اور بجٹ اور میرٹ کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی سرکاری محکموں میں او ایس ڈیزکی جگہ تو ہوتی ہے اس لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر کمیشنوں کے چیئرمین من پسند لوگ لگائے جاتے ہیں۔

وفاق اور صوبوں میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وزیروں کی فوج بھرتی کرنے کی گنجائش نہیں رہی جس کی وجہ سے مشیر، معاونین خصوصی اورکوآرڈینیٹرز کی بھرتی شروع ہوجاتی ہے۔ مشیروں کی تعداد بھی اب محدود ہے، اس لیے سندھ میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے تھوک کے حساب سے معاونین خصوصی مقررکیے اور انھیں غیر قانونی طور پر محکمے دے کر وزیروں کی طرح کابینہ اجلاس میں بھی بٹھایا جانے لگا۔ جس پر عدالت عالیہ نے سرزنش کی تو مشیر و معاون خصوصی تو برقرار رکھے گئے مگر اندرون خانہ وہ محکمے بھی دیکھ رہے ہیں۔

اب تو ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو بھی صوبوں میں نوازا جارہا ہے اور معاون خصوصی بھی اپنے کوآر ڈینیٹر رکھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک رکن سندھ اسمبلی کو اپنا معاون خصوصی بنایا تھا تو پیپلزپارٹی نے بھی سینیٹرکو مشیر بنادیا سیاسی حکومتوں کے لیے اپنی حکومتوں میں سیاسی عہدے بھی تخلیق کر رکھے ہیں جن کی قانون میں گنجائش ہو نہ ہو جب اپنوں کو نوازنا ہو تو نواز ضرور دیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد صدر آصف زرداری نے کابینہ سے فارغ کیے گئے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم مقررکرکے ملک بھر کو حیران کردیا تھا۔ رحمان ملک وزیر سے مشیر داخلہ اور پھر وزیر داخلہ بنتے بھی دیکھے گئے۔

جب جسٹس سعید الزماں صدیقی صدر بننے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو ن لیگ نے انھیں 2008 میں اپنا صدارتی امیدوار مقررکیا تھا اور جب وہ کامیاب ہونے کی پوزیشن میں تھے تو انھیں اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرکو نظر انداز کردیاگیا، ڈاکٹر قدیر نے ایٹمی دھماکے کرانے کا اعزاز دلایا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سعید الزماں کو 79  سال کی عمر اور شدید علالت میں جب گورنر سندھ بنایا گیا تو حکومت مخالفین نے کہاکہ پیغام دیا گیا ہے کہ جب ہم کسی کو بھی نوازنا چاہیں تو سعید الزماں صدیقی کی طرح نواز دیتے ہیں، مخالفین ن لیگ کی قیادت کو نہیں جانتے کہ وہ وقت پر نہیں کسی وقت خاص پر ہی نوازتے ہیں۔

ن لیگ کی قیادت کے لیے مشہور ہے کہ وہ وعدے اوراعلانات تو کر دیتی ہے مگر ان پر عمل کم ہی ہوتا ہے یا وہ بھول جاتی ہے۔گزشتہ سال بجلی کی لوڈشیڈنگ نصف کرنے کا اعلان کیا گیا تھا مگر عمل کرانا بھول گئی۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں ملک میں پیسہ بھی ہوتا تھا اور ملازمتیں بھی کیونکہ انھیں اپنی پارٹی والوں اور حلیفوں کو نوازنا ہوتا تھا جو بعد میں ن لیگ کی قیادت  نے دونوں بار فارغ کرائے کیونکہ وہ سیاست دان کے ساتھ تاجر اورصنعت کار ہیں جس پر پی پی کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی لوگوں کو روزگاردیتی ہے اور ن لیگ کی قیادت اقتدار میں آکر لوگوں کو بے روزگار کر دیتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو تینوں بار اقتدار پی پی پی کے بعد ہی ملا اس لیے انھیں لوگوں کو ملازمتیں دینے کا موقع ہی نہیں ملتا کیوںکہ پی پی دور میں غیر قانونی بھرتیاں ہوجاتی ہیں اور کسی محکمے میں جگہ ہی نہیں ہوتی ، البتہ اوپری سطح پر وہ بھی نواز ہی دیتے ہیں ۔ صدر جنرل پرویزمشرف اپنے افسروں کو نوازتے تھے ، یہ حقیقت ہے کہ اپنوں کو ہر دور میں نوازا  گیا اور من مانے تقرر ہوتے آرہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔