چیف الیکشن کمشنر کی آرمی چیف سے ملاقات

ملک منظور احمد  منگل 1 جنوری 2013
حکومتی حلقے آرمی چیف  اور چیف الیکشن کمشنر  کے درمیان ملاقات کو ’’اتفاقی‘‘ قراردے رہے ہیں۔  فوٹو : ایکسپریس/فائل

حکومتی حلقے آرمی چیف اور چیف الیکشن کمشنر کے درمیان ملاقات کو ’’اتفاقی‘‘ قراردے رہے ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس/فائل

اسلام آ باد: چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر)فخرالدین جی ابراہیم کے درمیان نادرا ہیڈکوارٹراسلام آباد میں ہونے والی ملاقات آئندہ عام انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے۔

چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے چیف الیکشن کمشنر کو ہرممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔کچھ عرصہ سے عام انتخابات کے التوا ء اور قومی حکومت کے قیام کی قیاس آرائیاں گردش کررہی ہیں۔دونوں چیف صاحبان کے درمیان اس طے شدہ ملاقات کے بعد عام انتخابات کے التواء کی قیاس آرائیاں اور تمام تر ابہام ختم ہوجانے چاہئیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی کے درمیان یہ ملاقات کافی دنوں سے متوقع تھی۔

باخبر حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں چیف صاحبان ایک دوسرے کے دفاتر میں ملاقات کرنے سے محض اس لئے گریزاں تھے تاکہ عام انتخابات کی ساکھ اور شفافیت کے حوالے سے کسی ادارے کی مداخلت کا تاثر نہ ملے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویزکیانی اور چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے درمیان ملاقات کو طے شدہ حکمت عملی کے تحت انتہائی خفیہ رکھاگیا اور بعدازاں اس ملاقات کو ’’اتفاقی‘‘ قراردیاگیا۔ اس ملاقات کو اگر اتفاق بھی قراردیاجائے ،تب بھی یہ ملاقات ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات میں کہا ہے کہ عام انتخابات کے التوا کی تمام تر قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں اور انتخابات مقررہ نظام الاوقات کے تحت ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر کا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری کے 14جنوری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کے اعلان کے بعد ایک بار پھر قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں ہیں اور لانگ مارچ کی ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے کہاجارہا ہے کہ عام انتخابات کو ملتوی کرانے کی مبینہ سازش کے پیچھے ڈاکٹرطاہرالقادری اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

سرکردہ سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ اب جبکہ عام انتخابات کے انعقاد میں چند ماہ رہ گئے ہیں، ڈاکٹرطاہرالقادری کے لانگ مارچ کا قطعی کوئی جواز نہیں ہے۔ وفاقی حکومت اس لانگ مارچ کو روکنے سمیت دیگر تمام آپشنز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کررہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کیلئے اسی متوقع لانگ مارچ کے پیش نظر سکیورٹی کی صورتحال پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ حکومت پر اپوزیشن کا دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔ نگران کابینہ میں شامل ہونے کیلئے سیاسی جماعتوں کے قائدین اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے کررہے ہیں۔

وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اور صدر مملکت آصف علی زرداری سمیت دیگر تمام حکومتی شخصیات آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں پرعزم ہیں۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ آخری لمحات میں کسی کو نظام لپیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس اہم بیان کے پس پردہ کیا محرکات ہیں،حکومت کو کس سے خطرہ ہے اور کون یہ نظام لپیٹنا چاہتا ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی نے فوج کو سیاست اور حکومت سے دور رکھا ہے۔گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران کئی بار ایسے اتارچڑھائو آئے اور کئی بار داخلی عدم استحکام اس حد تک عبور کرگیا کہ تیسری قوت جمہوریت پر آسانی سے شب خون مارسکتی تھی تاہم اس موجودہ نظام اور جمہوریت کو برقرار رکھاگیا اور افواج پاکستان نے کوئی مداخلت نہیں کی۔جمہوری حکومت کی 5سالہ آئینی مدت کی تکمیل خوش آئند ہے ،حکمرانوں کو نظام لپیٹے جانے کا خوف شاید اس لئے ہے کہ اب عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہونے والا ہے۔گزشتہ ساڑھے چارسالوں کے دوران مہنگائی،لاقانونیت،دہشت گردی ،انتہاء پسندی ،اقربا پروری ،کرپشن اور دیگر گوناگوں مسائل کے انبار کی وجہ سے عوام کی زندگی دوبھر ہوگئی ہے۔

2012ء بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے،حکومت تمام تر دعوئوں کے باوجود عوام کو ریلیف نہ دے سکی۔ ملک بھر میں سی این جی کے بحران کے بعد اب عوام پٹرول سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں لوگ پٹرولیم مصنوعات کی شدید قلت کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ اگر حکمرانوں نے عوامی مشکلات کا ازالہ نہ کیااور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ جاری رکھاتو حالات یقیناً پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ جائیں گے۔ عوام الناس کو روز مرہ اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے،عام انتخابات سے پہلے عوام کی مشکلات میں اضافہ حکومت کی رہی سہی ساکھ کے لئے زہرقاتل ہے۔

اسلام آباد میں ایک سینئر سفارتکار کی رہائش گاہ پر جمع بعض غیر ملکی سفارت کار پاکستان میں توانائی اور پٹرولیم مصنوعات کے بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جن ممالک میں جنگ ہورہی ہوتی ہے وہاں بھی لوگوں کی اتنی لمبی لائنیں ہم نے پٹرولیم مصنوعات کے حصول کے لئے نہیں دیکھیں، جتنی لمبی لائنیں یہاں دیکھی جارہی ہیں۔ یہ ریمارکس من حیث القوم ہمارے لئے شرمناک ہیں۔ اقوام عالم میں ملک کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔

داخلی اور خارجی چیلنجز میں اضافہ سے بحران بڑھ رہا ہے اور انہی گھمبیر حالات میں لانگ مارچ کی کال سے عدم استحکام میں اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت نے سنجیدگی کے ساتھ جنگی بنیادوں پر اقدامات نہ کئے تو جولوگ انقلاب کے نعرے لگارہے ہیں اس کی راہ مزید ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ طالبان نے حکومت کو مشروط مذاکرات کی پیشکش کی ہے اور مذاکرات کیلئے شرائط رکھی ہیں۔ بظاہرحکومت ان شرائط کو پورا نہیں کرسکتی،مشروط مذاکرات کی پیشکش پر حکومتی حلقے بھی تقسیم ہوگئے ہیں، بعض وزراء یہ بیانات دے رہے ہیں کہ حکومت کو طالبات کی مذاکرات کی پیشکش کو قبول کرلینا چاہیے جبکہ اکثریت اس پیشکش کے خلاف ہے۔ حکومتی رٹ کو سبوتاژ کرنے کیلئے طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ باعث تشویش ہے،عسکری اورخارجہ امور کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ طالبان کے ساتھ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔