تیسرا پہلو

رفیع الزمان زبیری  بدھ 25 جنوری 2017

ڈاکٹرخالد جمیل اختر وہ ہیں جن کی زندگی میں کامیابی کے پیچھے تین عورتوں کا ہاتھ ہے۔ایک ان کی والدہ جنھوں نے بے پایاں محبت سے ان میں اعتماد پیدا کیا، دوسری شانزے جس نے انھیں ہمت اورحوصلے کی طاقت عطا کی اور تیسری فرح جس نے ان کا ہاتھ تھام کر ان کی زندگی بدل دی۔

ڈاکٹر خالد کی زندگی کی کہانی جو انھوں نے اپنی کتاب ’’تیسرا جنم‘‘ میں بیان کی ہے نوجوانوں کے لیے زندگی میں کامیابی کا نصاب ہے۔اب انھوں نے ’’تیسرا پہلو‘‘ کے عنوان سے ایک اورگائیڈ بک فراہم کی ہے۔ اس میں ان کا علم، ان کے مشاہدات اور تجربات ہیں جن کے بارے میں علی اشرف اور مدثر بشیر کہتے ہیں کہ ’’بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کی زندگی میں بڑی بڑی تبدیلیاں لاسکتی ہیں۔‘‘

اس کتاب کی ایک اورخصوصیت ہے کہ یہ ڈاکٹر خالد جمیل اور فرح خالد کی مشترکہ کوشش ہے۔

ڈاکٹر خالد جمیل لکھتے ہیں کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ایک وہ جو ہرکام کا منفی پہلو دیکھتے ہیں اور دوسرے وہ جومثبت سوچ رکھتے ہیں۔ان دونوں کو ہی ناکام سمجھیے۔ان کے علاوہ ایک اور طرح کے لوگ ہیں جو زیادہ کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جو شعوری یا لاشعوری طور پر خدشات اورخطرات سے غافل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ بہت آگے کی سوچتے ہی نہیں،کم ملے تو اسی کوکامیابی سمجھ کرخوش ہوجاتے ہیں اور چونکہ وہ خطرات وخدشات سے غافل ہوتے ہیں اس لیے بے خوف و خطر منزل پر پہنچ جاتے ہیں۔

عورت کی نفسیات کا ذکرکرتے ہوئے ڈاکٹر خالد لکھتے ہیں ’’عورت کی سب سے بڑی کمزوری اس کے حسن کی تعریف کرنے میں پوشیدہ ہے جب کہ اس کی مستقل کمزوری یہ ہے کہ اسے مظلوم سمجھا جائے۔‘‘

خالد اور فرح اپنے مشاہدات اور تجربات کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ہماری اس گفتگو کا نتیجہ ہیں جو ہم دوران سفر آپس میں کرتے رہے ہیں۔ ان سے ہوسکتا ہے کوئی متفق نہ ہو یا یہ کہ وہ ہماری طرح ہی سوچ رکھتا ہو۔

لکھتے ہیں ’’ہماری بدن بولی ہمارے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے بنتی ہے۔ آپ خود کو لاکھ چھپائیں آپ کا ذہن آپ کے جسم کی لاشعوری حرکات سے پڑھا جاسکتا ہے۔ ہمارا جسم، ہمارا چہرہ، ہمارے ہاتھ اور ہمارے چلنے اور دیکھنے کا انداز یہ سب بغیر زبان کے بذات خود گفتگو کرتے ہیں۔‘‘

ان مقامات کا ذکر کرتے ہوئے جہاں آدمی نے کبھی وقت گزارا ہوتا ہے، ڈاکٹر خالد لکھتے ہیں ’’جگہوں کی انسانوں کی طرح زبان تو نہیں ہوتی لیکن ان کی گود ضرور ہوتی ہے۔ ان میں اگر ہم کچھ لمحے گزار لیں تو ان کا لمس ہم ساری عمر نہیں بھول سکتے۔‘‘

’’شادی سے شادمانی تک‘‘ کے عنوان تلے وہ لکھتے ہیں ’’لوگ بیٹی کا رشتہ قائم کرتے وقت لڑکے کے کردار، مالی حیثیت، خاندان اور شکل وصورت کا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ اہم لڑکے کا اخلاق ہوتا ہے۔ شادی شدہ زندگی میں بیوی کو سب سے زیادہ ضرورت عزت واحترام کی ہوتی ہے، ایسا شوہر جو نہ صرف اس کی عزت کرے بلکہ اخلاق کا بھی اچھا ہو، اگر اخلاق کا اچھا ہوگا تو یقیناً اس کے گھر والے بھی اخلاق میں بہترین ہوں گے۔‘‘ ڈاکٹر خالد کا بیویوں کو مشورہ یہ ہے کہ وہ شوہر پرگہری نظر ضرور رکھیں لیکن شک کی نظر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر اس نے کچھ کرنا ہے تو وہ اتنا آزاد ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈ ہی لیتا ہے۔گھریلو جھگڑوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بڑا معاملہ نہ ہو تو بیوی کو جھک جانا چاہیے، یعنی:

اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیارکی بازی

جیتوں تو تجھے پاؤں‘ ہاروں تو پیا تیری

’’اپنے اندر کی دنیا‘‘ کے تحت لکھتے ہیں ’’ہم سب سونے سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور سوچتے ہیں۔ کچھ لوگ آنے والے کل کے بارے میں، کچھ گزرے ہوئے کل کے بارے میں۔ یاد رکھیے اس وقت کی سوچ آپ کی آنے والی نیند کی بنیاد بنتی ہے۔آپ کے سوچنے کا انداز آپ کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ سونے سے پہلے آپ کا شعور جاگ رہا ہوتا ہے اور آپ کی ہر حرکت، ہر سوچ اور فیصلہ شعوری طور پر کیا جا رہا ہوتا ہے۔ جب آپ سو جاتے ہیں تو پھر لاشعور اپنا عمل شروع کردیتا ہے۔‘‘

بڑھاپے کی زندگی کے بارے میں ڈاکٹر خالد جمیل لکھتے ہیں ’’ہمیں جوانی میں ہی بڑھاپے کا واضح خاکہ بنالینا چاہیے کہ اگر خدا نے عمر دی تو یہ یہ کروں گا۔ بھلے جوانی میں کنجوسی ہی کرنی پڑے، بڑھاپے کے لیے اپنی ضرورتوں کا انتظام ضرورکرلینا چاہیے۔ اپنے گھر میں رہیں۔ بیٹے کے گھر میں رہنے سے بہتر ہے کہ بیٹے کو ہی اپنے گھر میں رکھ لیں۔ بہو صرف بہو ہوتی ہے۔ یاد رکھیے بہو کیا بری ہوگی بیٹا ہی برا ہوتا ہے جسے ماں باپ کی عزت کرانی نہیں آتی۔ اپنی جائیداد آخری دنوں تک اپنے ہی نام رکھیے، آخرکار وہ بیٹوں تک پہنچ ہی جائے گی۔ بڑھاپے میں زندگی کا فلسفہ ایک ہی ہے۔ آپ کو کوئی خود پر بوجھ نہ سمجھے۔ کیا ہی اچھی بات ہو کہ بڑھاپے کا وقت زندگی کا سب سے خوبصورت وقت بن جائے۔‘‘

’’اچھی اور بری یادیں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر خالد جمیل نے اپنے مشاہدات کا ذکر کیا ہے اور انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ہماری زندگیوں میں بہت سی یادیں ایسی ہوتی ہیں جو اذیت ناک ہوتی ہیں۔ بہت سے ایسے تجربے اور واقعات ہوتے ہیں جو تمام عمر تکلیف دیتے رہتے ہیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی میں کچھ ایسے لمحات بھی ہوتے ہیں جو ہمیں مسرورکرتے ہیں۔ کچھ ایسی کامیابیاں بھی ہوتی ہیں جو ہمیں خوشی کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔ جن لوگوں کی زندگی میں اچھے واقعات زیادہ ہوں گے وہ شکر کرنے والے ہوں گے۔ اور جن کی زندگی میں اچھے واقعات کم ہوں گے وہ گلہ کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جذباتی زندگی میں پیش آنے والے تجربات، کامیابیاں اور پسندیدہ لمحوں کو یادداشت کے اس حصے میں رکھا کریں جسے ہم بار بار Visit کرتے ہیں۔‘‘

اپنے ایک ایسے ہی تجربے کی یادیں دہراتے ہوئے وہ لکھتے ہیں۔ ’’میں 1993ء میں ایک ٹریننگ کے لیے جاپان گیا۔ہمارے گروپ میں ایک نابینا لڑکی بھی تھی۔واجبی شکل صورت کی۔ میں نے دیکھا وہ ہر وقت ایک کونے میں بیٹھی رہتی تھی۔کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔ ہمارے گروپ کی ہر ہفتے ایک دوپارٹیاں ہوتی رہتی تھیں، وہ ان میں بھی خاموش بیٹھی رہتی تھی۔ایک مرتبہ ہماری پارٹی تھی تو اس سے پہلے میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا، تمہیں پتہ ہے تم کتنی خوبصورت ہو، اپنا دھیان نہیں رکھتی ہو، نہ ہی میک اپ کرتی ہو۔ اس نے کہا بتاؤ میرا چہرہ کیسا ہے؟ میں نے کہا، تمہارا چہرہ ایسا ہے، تمہاری آنکھیں ایسی ہیں۔ تم لڑکی ہو، لڑکیوں کی طرح تیارکیوں نہیں ہوتیں۔ میری باتوں سے اسے احساس ہوا اور وہ کہنے لگی کہ اچھا، میں آج شام تبدیل ہوکر آؤں گی۔ جب وہ آئی تو بہت اچھے کپڑے پہنے تھی، میک اپ بھی کیا ہوا تھا، ہاتھ میں چھڑی بھی اچھی تھی۔ سب لوگوں کی جو وہاں پارٹی میں موجود تھے، اس کی طرف نظریں اٹھیں اور ہر ایک نے اس کی تعریف کی۔ پھر وہ مجھے تلاش کرتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی۔

Doctor! ٰ

I don’t know you have discovered me or I have discovered you.

اس کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اس میں بہت تبدیلی آئی اور وہ ٹریننگ میں سرگرمی سے حصہ لینے لگی۔‘‘

ڈاکٹر خالد جمیل لکھتے ہیں ’’یہی وہ خوشگوار یادیں ہوتی ہیں جو آپ اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتے ہیں اور ان سے خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم زندگی میں ایسی خوشگوار یادوں کا ایک ذخیرہ بنالیں تو وہ جذباتی مفلسی جس کے ہم سب شکار ہیں ختم ہوجائے گی۔

کتاب کے آخر میں فرح خالدکی ایک نظم بھی ہے جس کے بارے میں وہ کہتی ہیں کہ یہ صرف اور صرف اپنے شوہر کے لیے ہے لیکن شاید ہر بیوی کے جذبات کی عکاسی کرسکتی ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’ہماری دنیا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔