طاہر القادری کس کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں؟

نصرت جاوید  منگل 1 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

گڑھی خدا بخش میں 27 دسمبر2012 کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے روز بلاول بھٹو زرداری اسٹیج پر آ کر مختصر ترین لفظوں میں صرف یہ اعلان کرنا چاہتے تھے کہ وہ اب کل وقتی سیاست کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ ان کا لمبی چوڑی تقریر کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ پتہ نہیں کیوں، کیسے اور کن لوگوں نے بالآخر انھیں ایک تفصیلی خطاب کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس خطاب کے بعد پیپلز پارٹی کے جذباتی جیالے اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ ان کا نیا چیئرمین اپنی ماں کا بیٹا دکھتا ہے اور خاصی نستعلیق اُردو بولنا بھی سیکھ گیا ہے۔ بھٹو اور اس کی پارٹی کے ازلی مخالفوں کا سارا زور موروثی سیاست کی خامیوں کا سیاپا کرنے پر مرکوز رہا ہے۔

بطور ایک رپورٹر کے میرا اصل اعتراض ان کی تقریر کے متن پر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے اس دورِ حکومت میں قابل فخر باتیں دریافت کرنا تقریباََ ناممکن ہے۔ آصف علی زرداری کا کارنامہ ہے تو صرف اتنا کہ انھوں نے 2008 کے انتخابات میں واضح برتری حاصل نہ کرنے کے باوجود اپنی پارٹی کی حکومت بنائی، خود صدر منتخب ہوئے اور ہر طرح کے سمجھوتے کرتے ہوئے اپنی آئینی معیاد حکومت پوری کرنے کے قریب پہنچے۔ پاکستان جیسے غیر مستحکم ملک میں جہاں فوج کی چھتری کے بغیر دو تہائی اکثریت کے باوجود وزیر اعظم اپنے اقتدار کا تیسرا سال بھی ختم نہیں کر پاتے تھے، اتنے عرصے تک قائم و دائم رہنا اپنی جگہ ایک بہت اہم بات ضرور ہے۔ مگر خلقِ خدا کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ایک ووٹر تو بس یہ جاننا چاہتا ہے کہ ہر طرح کے سمجھوتوں کے بعد اپنا اقتدار قائم رکھنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسے کیا دیا۔

مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور بے روزگاری کے اس طویل موسم میں اقتدار میں رہنے والوں کے خلاف نفرت، غصہ شدید اور گہرا ہو جاتا ہے۔ بلاول بھٹو کو اس غصے کے اعتراف کے بعد اسے دور یا کم کرنے کے لیے کچھ ٹھوس دلائل دینا چاہیے تھے۔ اگر ایسے دلائل میسر نہ تھے تو کھلے دل سے یہ اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا کہ بہت ساری داخلی اور بین الاقوامی وجوہات کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کی 2008کے بعد والی حکومت کوئی اچھے کام اس لیے بھی نہ کر پائی کہ وہ ایک مخلوط حکومت چلا رہی تھی اور اسے قائم رکھنے کی خاطر اپنے اتحادیوں کی ہمہ وقت دلجوئی کے لیے مجبور۔ ایسی مجبور حکومت ہرگز اس قابل نہ تھی کہ اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری اسے اپنا کر اس کے دفاع میں لمبی چوڑی تقریر فرما دیتے۔

زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ بلاول بھٹو خود کو اس حکومت سے قطعی لاتعلق ہونے کا تاثر دیتے۔ یہ تاثر پیدا کرتے ہوئے وہ کسی نہ کسی طرح بڑی ذہانت سے یہ پیغام بھی دے سکتے تھے کہ اب اگر انھیں موقعہ دیا گیا تو ان کی جماعت وہ فاش غلطیاں ہرگز نہ دہرائے گی جس کا یوسف رضا گیلانی اور اب راجہ پرویز اشرف کے دور میں بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلسل ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ اپنے ’’انکل‘‘ برگدوں کی چھائوں تلے بلاول ہرگز نمو نہ کر پائیں گے۔ اپنی والدہ کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے معاملات پر مکمل کنٹرول کرتے ہوئے انھیں آہستہ آہستہ ان برگدوں کو خدا حافظ کہنا ہو گا۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

میری ناقص رائے میں ان کی تقریر کا ابتدائیہ ہی ان کی آیندہ سیاست کی اصل بنیاد ہونا چاہیے۔ اس ابتدائیے میں انھوں نے اپنی والدہ، ملالہ اور بشیر بلور کو ایک روشن خیال سوچ کی علامتوں کے طور پر پیش کیا جنھیں شدت پسند اپنی راہ کی اصل رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ ایک روشن خیال سوچ کی علامتوں کو اپنانے کے بعد بلاول بھٹو کو ایک طویل فکری اور نظریاتی جنگ کی تیاری کرنا ہو گی اور صرف اس جنگ کی تیاری کرتے ہوئے وہ اپنی نسل کے پاکستانیوں سے گہرا اور دیر پا رشتہ استوار کر پائیں گے۔ یہ نہ ہوا تو ان کی جماعت کو ہمیشہ کسی نہ کسی ’’منموہن سنگھ‘‘ کی ضرورت رہے گی اور ’’راہول‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے نظر نہ آ سکیں گے۔

یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یاد آیا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کی سیاست کو ایک طویل المدتی تناظر میں زیر بحث لانے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ محترمہ کی پانچویں برسی سے چار روز قبل کینیڈا سے ایک قادری مینار پاکستان پر نمودار ہوئے اور ’’فرسودہ نظام‘‘ کو بدلنے کے لیے 10جنوری کی ڈیڈ لائن دے دی۔ وہ جن چیزوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، انھیں پورا کرنا کم از کم موجودہ حکومت کے بس میں نہیں۔ ظاہر ہے ان قادری صاحب کو اب اپنے دعوے کے مطابق 40 لاکھ پاکستانیوں کو اسلام آباد لانا ہو گا۔ شاید وہ ایسا کر لیں کیونکہ الطاف حسین نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

اب تو پہلے 14جنوری ہو گا۔ آیندہ سیاست کی بساط تو اس دن کے بعد بچھے گی۔ پیپلز پارٹی کے جن لوگوں سے میری بات ہوئی وہ بڑے اعتماد سے اس دن کے منتظر نظر آئے۔ ان کی اکثریت یہ سوچتی ہے کہ وہ دن آئے گا اور پھر چلا جائے گا۔ ایک قابل اعتماد ذریعے سے یہ پتہ بھی چلا ہے کہ آصف علی زرداری بڑی سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ طاہر القادری کی اصل فکر شہباز شریف اور عمران خان کو کرنا چاہیے کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے جیسے تیسے اپنی مدت پوری کر لی ہے۔ ’’سسٹم‘‘ چلتا رہے گا تو ان کی جماعت کو آیندہ انتخابات کے بعد حزب مخالف کی سیاست کرنے میں کوئی زیادہ اذیت محسوس نہ ہو گی۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز آیندہ کی حکومت بنانے کو تیار نظر آ رہی تھی۔

طاہر القادری اپنے 14 جنوری کے مارچ سے در حقیقت اس جماعت کے امکانات کو معدوم بنا دیں گے۔ دوسرا نقصان عمران خان کا ہو گا جو موجودہ انتخابی نظام میں کسی قسم کی انقلابی تبدیلیاں لائے بغیر بھی پرچی کے زور پر سونامی لانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ایک حوالے سے دیکھا جائے تو آصف علی زرداری کی سوچ درست نظر آتی ہے۔ مگر نواز شریف کے بقراطوں کی طرف سے مجھے طاہر القادری کو للکارنے کی کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔ شاید ان کے ذہن اس بات پر مطمئن ہیں کہ کینیڈا کے قادری نے 14جنوری کو اپنا مجمع تو اسلام آباد میں لگانا ہے۔ وہ جانیں اور رحمٰن ملک کی Crowd Management میری نظر میں ’’شریکوں‘‘ کی مشکلات پر خوش ہونے والی یہ سوچ کافی طِفلانہ اور سیاسی طور پر تباہ کن ہو سکتی ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے۔

وہ دل سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے باہمی ’’مک مکا‘‘ کو روکنے والی قوتوں کے ابھرنے پر خوش ہے۔ مگر اس سے کہیں زیادہ پریشان کن تحریک انصاف میں بیٹھے وہ لوگ ہیں جو خود کو کینیڈا سے آئے قادری کی جانب سے ’’اہل، ایمان دار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت کی راہ بن جانے کی صورت میں اپنا فائدہ ہی فائدہ دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان کو فوری طور پر یہ جان لینا چاہیے کہ روٹی وہی کھاتا ہے جو اسے آٹے سے بنا کر پکاتا ہے۔ کینیڈا سے آئے قادری نے جو ہنڈیا چڑھائی ہے وہ پک گئی تو اس کا فائدہ عمران خان اور ان کی تحریک ہر گز نہ اُٹھا پائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔