نئی سرد جنگ کا آغاز ؟

غلام محی الدین  منگل 1 جنوری 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

روس کے صدر ولاڈیمرپوٹن نے روس کی تاریخ میں امریکا کے خلاف ہونے والی آج تک کی سخت ترین قانون سازی ’دیما یاکو ولوو قانون‘ کے مسودے پر دستخط کر دیے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال تھاکہ روس امریکا میں میگنیٹسکی ایکٹ کے نام سے روس کے خلاف ہونے والی قانون سازی کے جواب میں اس حد تک نہیں جائے گا، لیکن اندازوں کے برخلاف ایوان بالا سے متفقہ منظوری کے بعد صدر نے بھی مسودے پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ روسی قانون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

دونوں ملکوں میں ہونے والی قانون سازی دو انسانی ناموں سرگئی میگنیٹسکی اور دمیتری یاکوولووسے منسوب ہے۔ آیئے !پہلے ان ناموں سے وابستہ واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ میگنیٹسکی ایک روسی وکیل تھا جو روس کے سب سے بڑے غیر ملکی سرمایہ کاری فنڈ ہر میٹیج کیپٹل کے لیے کام کرتا تھا۔ ہر میٹیج کیپٹل مینجمنٹ برطانیہ میں قائم فرم ہے جو سرمایہ کاری کے امور میں پیشہ ورانہ مشاورت فراہم کرنے کا کام کرتی ہے جب کہ روس میں اس فرم کے قانونی معاملات کی دیکھ بھال فائرسٹون ڈنکن نامی لأ فرم کے اٹارنی سرگئی میگنیٹسکی کیا کرتے تھے۔ ہر میٹیج کیپٹل پر روس کی وزارت داخلہ نے ٹیکس چوری اور فراڈ کا الزام لگایا۔ دوسری جانب ہر میٹیج کیپٹل کا موقف تھا کہ روس کے سرکاری حکام کرپشن اور بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ بات بار بار روسی میڈیا کو بھی بتائی گئی۔

میگنیٹسکی، ہر میٹیج کیپٹل پر لگائے جانے والے الزامات کے دفاع پر مامور تھا۔ اسی دوران فرم کے شریک بانی، بل براؤڈر کو ملک بدر کر دیا گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات اور اس کے نتیجے میں روسی حکام پر الزامات عائد کرنے کے بعد میگنیٹسکی کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ہر میٹیج کیپٹل کے جرائم میں اعانت کی ہے اور خفیہ ساز باز کے ذریعے دھوکا دہی کا مرتکب ہوا ہے۔ میگنی ٹسکی 11 ماہ تک بغیر مقدمہ چلے قید رہا اور اسی دوران بیماری سے ہلاک ہو گیا۔ معاملے کی اصل حقیقت کے بارے میں کوئی مستند رائے تو نہیں دی جا سکتی لیکن امریکا اور برطانیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ حریف ملکوں میں جاسوس اور سازش کے لیے زیادہ تر تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔

خیر اس واقعے کے بعد امریکا نے ’میگنیٹسکی ایکٹ‘ کے نام سے قانون پاس کیا جس کے تحت میگنیٹسکی کے خلاف کارروائی کرنے والے تمام اہلکاروں سمیت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث تمام روسی اہلکاروں کو امریکی ویزے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا۔

اب آتے ہیں دمیتری یاکوولوو کی طرف۔ دمیتری ڈیڑھ دو سال کا روسی یتیم بچہ تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہزاروں یتیم روسی بچے دیگر ممالک کے بے اولاد والدین نے گود لیے ہیں۔ ان بچوں کی کُل تعداد کا نصف صرف اکیلے امریکا میں پہنچا ہے اور یہ سلسلہ نئی قانون سازی سے پہلے تک جاری تھا۔ دمیتری کو مائلز ہیرسن نامی امریکی شخص نے گود لیا تھا۔ ایک روز یہ شخص اس معصوم بچے کو اپنی گاڑی میں ہی چھوڑ کر کام پر چلا گیا۔ 9 گھنٹے بعد کسی کی نظر گاڑی کے اندر پڑی تو وہاں دمیتری مردہ حالت میں پڑا تھا۔ مسلسل دُھوپ پڑنے سی اُسے سن اسٹروک ہو گیا تھا۔

یہ خبر روس کے اندر بڑے دُکھ سے سنی گئی لیکن اصل ردعمل اس وقت سامنے آیا جب امریکی عدالت نے بچہ گود لینے والے ماں باپ کو محض اس بنیاد پر بری کر دیا کہ وہ عدالت میں روپڑے تھے اور یہ کہ واقعہ غلط فہمی کی بنا پر ہوا اور اس میں امریکی شخص کا کوئی قصور نہیں۔ یہ اُس ملک کی عدالت کا فیصلہ تھا جہاں کُتوں اور بلیوں سے بد سلوکی پر سزائیں اور جرمانے ہو جاتے ہیں۔ اب روس نے امریکی قانون سازی کے جواب میںدیما یاکوولوو قانون منظور کیا ہے۔ میگنیٹسکی ایکٹ پر ردعمل کے اظہار میں روسی امریکا سے دو قدم آگے بڑھ گئے ہیں۔ دیما یاکوولوو قانون کے تحت اب روسی بچے امریکیوں کے سپرد نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس قانون کے تحت وہ تمام روسی سیاسی تنظیمیں غیر قانونی قرار پائیں گی جو امریکا سے مالی معاونت حاصل کرتی ہیں۔

دوسرے ملکوں میں غدار پیدا کرنے کا سب سے مؤثر امریکا ذریعہ مالی معاونت ہی ہے۔ وہ تمام این جی اوزجو امریکا سے فنڈز حاصل کرتی ہیں یا جن کے عہدیداروںمیںامریکی شہری شامل ہیں وہ بھی غیر قانونی قرار پائیں گی۔ یو ایس ایڈ اور دیگر غیر ملکی مالی معاونت سے چلنے والی تنظیموں اور اداروں کو پہلے ہی ہدایت کی جا چکی ہے کہ وہ خود کو ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘ کے طور پر رجسٹر کرائیں۔ یہ وہی اصطلاح ہے جو سرد جنگ کے دور میں استعمال کی جاتی تھی۔

امریکا غیر ممالک میں اپنے ایجنٹوں کے پیٹ اس قدر بھرے رکھتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مخصوص معاملات (جو امریکا کے مفاد میں ہوتے ہیں) پر وہ ایسی چیخ پُکار کرتے ہیں کہ آسمان بھی کانپ اٹھتا ہے۔ ہمارے اپنے ملک میں ہم اس طرح کے نظارے بارہا دیکھتے رہتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر شکیل آفریدی جیسے بھی ہیں جو ا مریکہ کے لیے ہر حد پار کر جاتے ہیں اور انسانی حقوق کے وہ علم بردار بھی جن کو مخصوص جگہوں پر انسانیت پر ہونے والے مظالم بے چین کیے رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے اس قانون پر روس کے اندر سے انسانی حقوق والے بڑے تلملا رہے ہیں۔ روس کی لڈمیلا ایلگزیویا نامی ایک انسانی حقوق کی خاتون کا رکن نے تو اس قانون کو آدم خوری کے مترادف قرار دے دیا ہے۔

اس بارے میں روسی صدر کا ردعمل انتہائی غیر متوقع اور سخت رہا۔ ان کاکہنا تھا کہ روس میں کام کرنے والی امریکا نواز این جی اوز ہماری ملکی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ اُن کے نزدیک امریکی رویہ انتہائی شرمناک اور متکبرانہ ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون نے روسیوں کے لیے مواقعے محدود کیے ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ بڑی تعداد میں بچوں کا بیرون ملک چلے جانے سے ہمارے اپنے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا ’’دنیا میں بہت سے ایسے ملک ہوں گے جہاں کے حالات روس سے بہتر ہیں تو کیا اپنے سارے بچے وہاں بھجوا دیے جائیں؟ اور شاید خود بھی وہاں منتقل ہو جائیں؟ اگر ہم نے اپنے بچے غیروں کو سونپ دیے تو ہم خود برباد ہوجائیں گے۔

اس قانون کے ساتھ ہی اندرون ملک بچوں کو گود لینے کے ضوابط کو بھی حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ اور اس بات کی تحقیقات بھی شروع ہو گئی ہیں کہ جب دمیتری یاکوولوو کے داد دادی اس کی دیکھ بھال پر آمادہ تھے تو پھر اسے امریکا کیوں بھجوایا گیا۔ بے اولاد والدین کو بچوں کی فراہمی ایک بزنس بن چکا ہے ۔ بچے مہیا کرنے کے لیے بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں۔ امریکا میں ہزاروں کی تعداد میں بے سہارا بچے موجود ہیں لیکن ان میں غالب اکثریت سیاہ فام بچوں کی ہے اس لیے امریکا میں ان مانگ نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس نئی صورت حال سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اگر روس واقعی اپنی اس کردار کو قبول کرلے جس سے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس نے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی تو دنیا کے اندر پھر سے طاقت کا توازن قائم ہوجائے گا۔ ہمارے جیسے زیرِعتاب ملکوں کے لیے اس میں خیر کے کئی پہلو ظاہر ہوں گے اور امریکی من مانی کا تدارک ہو گا۔

دوسرے یہ کہ ہمیں اس بات پر بھی تھوڑا غور کرنا چاہیے کہ کسی ملک کی خوشحالی دیکھ کر پاگل ہو جانے کے بجائے اگر ہم اپنے ملک کو کسی قابل بنا لیں تو کیسا ہو؟ اور آخر میں یہ کہ پاکستان اپنے معاملات میں امریکی اثرورسوخ اور دھونس دھاندلی سے جنتی جلدی ممکن ہو جان چھڑا لے کیونکہ اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے مستقل بندوبست کے لیے وہ پاکستان پر کبھی بھی ترس نہیں کھائے گا،اس بات کے اشارے سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین کے حالیہ بیان سے بھی ملتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔