سچائی کو اپنائیے، جھوٹ سے اجتناب کیجیے

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  جمعـء 27 جنوری 2017
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس میں سچ کا فائدہ ہے اور جھوٹ کے انجام نحوست کی وضاحت ہے۔ فوٹو : فائل

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس میں سچ کا فائدہ ہے اور جھوٹ کے انجام نحوست کی وضاحت ہے۔ فوٹو : فائل

سچائی ایسی صفت ہے، جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یک ساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی لیے شریعتِ اسلامیہ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے، اور ہر حال میں سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔

محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ سچ بولنے کی تعلیم دی اور جھوٹ بولنے سے منع فرمایا۔ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتی کہ آپؐ کو نبی و رسول نہ ماننے والوں نے بھی آپؐ کی سچائی اور امانت داری سے متاثر ہوکر آپؐ کو صادق اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا۔

تمام انبیائے کرامؑ نے بھی ہمیشہ سچ بولنے کی تاکید فرمائی۔ حضرت ابراہیمؑ کے متعلق فرمان الٰہی ہے: ’’ اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بے شک وہ نہایت سچے پیغمبر تھے۔‘‘ (سورۃ مریم )

حضرت یوسفؑ کے بارے میں قرآن کریم (سورۃ یوسف ) میں ہے : ’’ (اصل قصہ یہ ہے کہ) میں ( زلیخا) نے اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا اور وہ (حضرت یوسفؑ) بے شک سچا ہے۔ ‘‘

اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں بھی پوری انسانیت کو متعدد مرتبہ سچ بولنے کی تعلیم دی ہے۔ رب کائنات کا ارشاد ہے: ’’ اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘

(سورۃ التوبہ )

فرمان الٰہی ہے: (خدا فرمائے گا کہ) ’’ آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔‘‘

( سورۃ المائدہ )

اﷲ تعالیٰ جھوٹ بولنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’ اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتے جو اسراف کرنے والے ہیں اور جھوٹے ہیں۔‘‘

( سورۃ المؤمن )

چوں کہ جھوٹ کے نتائج سخت مہلک اور خطرناک ہیں، اور جھوٹ بولنے والے کے ساتھ دوسرے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہتے، اسی لیے آپؐ نے جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت وعیدیں بیان فرمائیں۔

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’سچائی کو لازم پکڑو کیوں کہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یک ساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ کی نظر میں اس کا نام سچّوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچتے رہو اس لیے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

(بخاری و مسلم)

سچ بولنے کی کیسی عظیم اہمیت ہے کہ انسان اپنی سچائی کے ذریعے جنت میں داخل ہوسکتا ہے، جو ہر انسان کی خواہش ہے۔ جب کہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے انسان کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلنا ہوگا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ دوزخ سے بچ جائے۔ قیامت تک آنے والے انس و جن کے نبی اکرم ﷺ نے جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لیے بتایا کہ اﷲ تعالیٰ کے دیگر احکام کو بجا لا کر سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔

حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ فروخت کرنے والے اور خریدار کو اختیار ہے جب تک وہ مجلس سے جدا نہ ہوں۔ اگر دونوں نے حقیقت کو نہ چھپایا اور سچ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر حقیقت کو چھپایا اور جھوٹ بولا تو سودے کی برکت ختم کردی جائے گی۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اِن دنوں ہم نے تجارت کو خالص دنیاداری کا کام سمجھ لیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ جھوٹ اور دھوکا دہی کے بغیر اب تجارت کام یاب نہیں ہوسکتی۔ حالاں کہ اگر تجارت اﷲ کے خوف کے ساتھ کی جائے اور کسی کو دھوکا دینے کی غرض سے نہیں، بل کہ سچائی اور امانت داری کو اپنا معمول بناکر کی جائے اور ناجائز کاموں سے پرہیز کیا جائے تو یہی تجارت عبادت بنے گی اور حلال تجارت کے ذریعے حاصل شدہ رقم کو اپنے اور گھر والوں پر خرچ کرنے پر اجر عظیم ملے گا اور اس کی وجہ سے ہمیں آخرت میں بھی کام یابی حاصل ہوگی۔

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو تاجر سچا اور امانت دار ہو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘

یہ حدیث مختلف کتب حدیث میں موجود ہے، اس کی سند پر بعض علماء نے کلام کیا ہے، لیکن یہ حدیث اچھے معنی اور مفہوم اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا ہمیں کاروبار میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔

حدیث میں بیان کیا گیا کہ خرید و فروخت کرنے والوں کو مجلس سے جدا ہونے سے قبل اپنے فیصلے سے رجوع کرنے یعنی خرید و فروخت کو منسوخ کرنے کا حق ہے۔ لیکن مجلس سے جدا ہونے کے بعد خرید و فروخت مکمل ہوجاتی ہے، اب بیچنے والے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ یہ کہے کہ میں اس چیز کو نہیں بیچنا چاہتا یا خریدار کہے کہ میں اس چیز کو خریدنا نہیں چاہتا۔ ہاں دونوں اپنی رضامندی سے اس معاہدے کو ختم کرسکتے ہیں۔ اگر بیچنے والا چیز کے قابل ذکر عیوب کو چھپا کر کوئی چیز فروخت کرے یا خریدنے والا دھوکا دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو خرید و فروخت میں کیسے برکت ہوسکتی ہے۔۔۔ ؟

اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم خرید و فروخت میں بھی جھوٹ کا سہارا نہ لیں بل کہ ہمیشہ سچ ہی بولیں۔ ہمارے اسلاف نے ہمیشہ سچ بول کر تجارت کی، اس لیے ہر میدان میں کام یاب ہوئے۔ مکہ مکرمہ کی مشہور تاجرہ حضرت خدیجہؓ نے سب سے افضل بشر حضور اکرم ﷺ کی تجارت میں دیانت داری کو دیکھ کر ہی تو نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔

حضرت حسن بن علیؓ سے روایت ہے کہ مجھے حضور اکرم ﷺ کی یہ باتیں یاد ہیں : ’’ جو بات شک میں مبتلا کرے اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کر جو شک میں نہ ڈالے۔ سچائی اطمینان ہے اور جھوٹ شک ہے۔‘‘ ( ترمذی)

جس چیز کے حلال ہونے میں شک ہو اس کو چھوڑ دو اور اس کو اختیار کرو جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ صرف سچ ہی بولنا چاہیے، اس لیے کہ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے متعدد جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ سچ بولنے پر بہترین بدلہ ملنے کے متعدد واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ غزوۂ تبوک میں آپؐ کے ساتھ شامل نہ ہونے والے تین حضرات حضرت کعب بن مالک، حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہم، جب آپؐ نے ان سے غیر حاضری کے متعلق سوال فرمایا تو انہوں نے جھوٹ سے گریز کرتے ہوئے تمام صورت حال سچ سچ عرض کردی، اﷲ تعالیٰ نے ان پر یہ عنایت فرمائی کہ ان کی توبہ کو قبول فرمایا۔ اور آپؐ نے حضرت کعبؓ کو اس عظیم نعمت کی بشارت دیتے ہوئے فرمایا : ’’ تمہیں اس دن کی خوش خبری جو کہ تمہاری والدہ کے جنم دینے کے دن سے لے کر آج تک کے تمام دنوں سے تمہارے لیے بہترین ہے۔ لیکن جن لوگوں نے آپؐ کے سامنے جھوٹ بولا، اﷲ تعالیٰ نے ان کے متعلق سورۃ التوبہ میں دو آیات نازل فرمائیں جو پانچ دنیوی و اخروی سزاؤں سے متعلق ہیں۔

پہلی: ان کے ساتھ قطع تعلق اور اعراض کرو کا حکم ( دوسری ) ان پر ناپاک ہونے کا حکم ، بلاشبہ وہ ناپاک ہیں۔ حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں: یعنی ان کے باطن اور اعتقادات خبیث ہیں۔ (تیسری) ان کا ٹھکانا جہنم ہونا، ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ علامہ قرطبی ؒ اس کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: یعنی ان کی منزل اور جگہ جہنم ہے۔ ( چوتھی) اﷲ تعالیٰ کا اُن سے راضی نہ ہونا، ’’ سو اگر تم ان سے راضی بھی ہوگئے تو یقینا اﷲ فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتے۔‘‘ ( پانچویں) ان کو فاسق قرار دینا: علماء فرماتے ہیں کہ ضمیر کے بہ جائے فاسقین کا لفظ استعمال کیا گیا تاکہ ان کے بارے میں یہ نشان دہی کی جاسکے کہ وہ اطاعت ( اِلٰہیہ) سے نکل چکے ہیں اور یہی بات ان پر نازل ہونے والے عذابوں کا سبب بنی۔

حضرت کعب بن مالکؓ نے سچ بولنے پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی نوازشات کا تقابل جھوٹ بولنے والوں پر اﷲ کی ناراضی سے کرتے ہوئے بیان فرمایا : ’’ اﷲ کی قسم! اﷲ کی توفیق سے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد میری نظر میں آپؐ کے رو بہ رو اس سچ بولنے سے بڑھ کر مجھ پر کوئی احسان نہیں ہوا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولا اور ایسے ہلاک نہیں ہوا جیسا کہ جھوٹ بولنے والے ہلاک ہوگئے تھے، بذریعہ وحی اس قدر شدید وعید فرمائی کہ اتنی سخت کسی دوسرے کے لیے نہیں فرمائی گئی۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس میں سچ کا فائدہ ہے اور جھوٹ کے انجام نحوست کی وضاحت ہے۔ سچ بولنے پر تینوں حضرات کو اﷲ کی جانب سے توبہ کی توفیق ملی اور وہ ہمیشہ کے لیے کام یاب ہوئے۔ جب کہ دیگر منافقین نے جھوٹ کا سہارا لیا، حالاں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو وحی کے ذریعے اُن کے جھوٹے ہونے کے متعلق اطلاع فرمادی تھی، اس لیے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔

جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے، اگر ہم نے کبھی جھوٹ بولا ہے تو اﷲ تعالیٰ سے پہلی فرصت میں معافی مانگیں کیوں کہ کبیرہ گناہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے مستقل توبہ ضروری ہے۔ بعض مواقع پر جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے مثلاً میاں بیوی میں شدید اختلاف ہوگیا ہے، اور جھوٹ بولنے کی وجہ سے صلح ہوسکتی ہے تو بہ درجہ مجبوری اس کی اجازت ہے، لیکن جھوٹ بولنے کو عادت بنانا یا کسی شخص کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ بولنا بہت بڑا گناہ ہے اور اس کے معاشرے میں بڑے نقصانات ہیں۔

اے اﷲ ہمیں سچ بولنے کی توفیق عطا فرما اور اس کے ثمرات سے مالا مال فرما، جھوٹ اور اس کے زہریلے اثرات سے ہمیشہ کے لیے ہمیں محفوظ فرما۔ آمین ثم آمین۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔