محلہ کمان گراں، ملتان میں حربی و ثقافتی فنون کا قدیم ترین مرکز

سنڈے میگزین  اتوار 29 جنوری 2017
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ محلہ کمان گراں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سب سے پہلے حربی فنون کا آغاز ہوا۔ فوٹو: ایکسپریس

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ محلہ کمان گراں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سب سے پہلے حربی فنون کا آغاز ہوا۔ فوٹو: ایکسپریس

خطہ ملتان دنیا بھر میں تاریخ و تہذیب کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ قدیم علوم و فنون کے حوالہ سے بھی اپنی ایک شناخت رکھتا ہے، ملتان میں فصیل اور دروازوں کے اندر موجود بیشتر محلوں کے نام بھی ان میں آباد ہنرمندوں اور یہاں صدیوں سے جاری دستکاری کی روایت کو سامنے لاتے ہیں۔

ملتان کے اندرون شہر کی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں بڑے بڑے حربی و ثقافتی فنون سے جڑے دستکاروں، صناعوں اور کاشی گروں نے برصغیر بھر میں ناصرف ان تہذیبی فنون کی آبیاری کی بلکہ اپنا ایک خاص اسلوب بھی وضع کیا۔ اندرون شہر میں دستکاروں کے نام پر آباد ہونے والا محلہ کمان گراں جو قدیم ایام سے حربی و ثقافتی فنون کا مرکز ہے، ایک خاص اہمیت کا حامل ہے، اس علاقہ میں پیدا ہونے والے ہنرمندوں اور صناعوں نے مختلف فنون میں اپنی فنی مہارت کا ثبوت دیا۔

علامہ عتیق فکری اپنی کتاب ’’نقش ملتان‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ہر شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا علاقہ ہوتا ہے جس کی اہمیت ثقافتی مرکز ہونے کی وجہ سے تاریخی طور پر مسلم ہوتی ہے، ملتان میں حسین آگاہی کا اندرونی علاقہ جو شمال مشرق میں دولت گیٹ سے جا ملتا ہے اور مشرق میں دہلی گیٹ سے‘ اس علاقہ میں ایسی ایسی فنکار شخصیت پیدا ہوئیں جن کا مقام یقیناً تاریخ میں انفرادیت رکھتا ہے‘ حسین آگاہی کے اندرونی علاقہ کی اہمیت کا سب سے بڑا سبب قلعہ کہنہ کی قربت ہے‘ حکام کی رہائش اور اعلیٰ طبقہ کے افراد کی آبادی کا ایک حصہ قلعہ میں سکونت رکھتا تھا اس لئے نزدیکی علاقہ میں ہر قسم کے فنکار آباد تھے جن میں اعلیٰ درجے کے مصور‘ ادیب‘ شعراء‘ نقاش‘ کمان گر‘ اسلحہ ساز اور انجینئرز شامل تھے‘‘۔

ملتان میں اندرون شہر واقع قدیم محلہ کمان گراں کے آباد ہونے کی تاریخ ملتان شہر کی طرح ہی نامعلوم ہے،  تاہم بعض تاریخی شواہد سے یہ طے ہوتا ہے کہ یہ علاقہ قبل از مسیح سے حربی و ثقافتی فنون کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ طاقت کا مظہر حربی آلات ہر زمانے کی ضرورت رہے ہیں، ان کی اسی اہمیت کے پیش نظر ان کی تیاری پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی، اسی طرح حربی آلات تیار کرنے والے افراد بھی معاشرے کی اہم اکائی تصور کئے جاتے تھے۔

ملتان میں حربی فنون کی مہارت اور تیر کمان سازی کا سب سے قدیم حوالہ 323 ق م میں سکندراعظم کو لگنے والا وہ تیر تھا جو اس فاتح عالم کی موت کا سبب بنا، سکندر اعظم کے حملہ کے وقت قلعہ کہنہ ملتان کے ایک برج سے داغا جانے والا یہ تیر ایسا نشانے پر بیٹھا کہ سکندر کی مقدس ڈھال کو چیرتا ہوا اس کے سینے میں اُتر گیا، زہر میں بجھا ہوا یہ تیر ملتان ہی کا ساختہ تھا۔

ملتان میں حربی فنون کا دوسرا حوالہ سکندراعظم کے فوری بعد خطہ ملتان اور اس کے ملحقہ علاقہ جات کو فتح کرنے والے چندرگپت موریہ کے دور میں نظر آتا ہے۔ معروف ادیب اور مؤرخ حفیظ خان اپنی کتاب ’’مآثر ملتان‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’چندرگپت موریہ کے دور میں حکومتی وسائل کو وسعت دینے کے واسطے محاصل کا سادہ مگر منظم نظام اپنایا گیا جس کی رو سے صرف زراعت کی مد میں ٹیکس وصول کیا جاتا تھا اور دستکاریاں اس سے مستثنیٰ تھیں، یہی وجہ ہے کہ بازار سامان تجارت سے بھرے رہا کرتے تھے اور لوگوں کو ان کی ضروریات کی اشیاء سستے داموں مل جایا کرتی تھیں، چندرگپت موریہ کے دور کا ملتان دھاتوں کی ڈھلائی، اسلحہ از قسم تلوار‘ برچھی‘ کلہاڑی وغیرہ کی بنائی اور سکہ سازی کیلئے مشہور تھا چونکہ اس زمانے میں ملتان میں سورج کی پوجا ہوتی تھی، اس لئے دیگر نشانات کے علاوہ سورج کے نشانات والے سکے ٹیکسلا کے ساتھ ساتھ ملتان میں بھی تیار ہوتے تھے۔‘‘

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ محلہ کمان گراں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں سب سے پہلے حربی فنون کا آغاز ہوا‘ اس علاقہ میں قدیم زمانے سے ہی لوہا ڈھالنے کی بھٹیاں موجود تھیں جہاں مختلف دھاتوں کو پگھلا کر جنگوں کیلئے ہتھیار تیار کرائے جاتے تھے، اہم بات یہ ہے کہ جنگی ہتھیاروں کی فروخت اور تیاری کے تمام مراکز قلعہ کہنہ سے باہر تھے۔

محلہ کمان گراں کی طرح قلعہ سے قربت رکھنے والا ایک اور قدیم علاقہ جو لوہاری دروازہ کے نام سے موسوم ہے، میں بھی لوہے کا کام کرنے والے کاریگر رہا کرتے تھے، یہاں قدیم زمانے میں بدیشی ملکوں سے لوہا لا کر فروخت کیا جاتا تھا۔ مرزا شاہ حسین حاکم ٹھٹھہ نے جب ملتان کو اپنی راجدھانی میں شامل کیا تو اس نے لوہاری دروازہ کے کاریگروں سے ہی آلات حرب تیار کرائے تھے۔ لوہاری دروازہ میں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں لوہے کا کام ہوتا ہے‘ لیکن قدیم زمانہ میں یہاں بنائے جانے والے آلات حرب پر بھی نقش و نگار بنانے کا کام محلہ کمان گراں میں ہی ہوتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ محلہ کمان گراں میں اسلحہ سازی کے ماہرین مختلف ادوار میں مختلف حملہ آوروں کے ساتھ ملتان آئے۔ ملتان پر محمد بن قاسم کے حملہ کے بعد یہ خطہ ایک تہذیبی انقلاب سے ہمکنار ہوا تو یہاں دنیا کے مختلف خطوں سے لوگوں کی آمد کا سلسلہ بھی بڑھتا چلا گیا۔ محلہ کمان گراں میں پیدا ہونے والی ملتان کی معروف علمی و ادبی شخصیت علامہ عتیق فکری کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ملتان کے محلہ کمان گراں میں یونان‘ ایران‘ افغانستان اور عراق و عرب سے آنے والے بہت سے خاندان آباد ہوئے اور یہاں حربی و ثقافتی فنون کی آبیاری میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں، ملتان کے یہ اسلحہ ساز اپنے فن میں اس قدر ماہر تھے کہ یہاں کی بنائی ہوئی تلواریں دیگر ممالک کے حکمرانوں کو بطور تحفہ بھیجی جاتی تھیں۔

علامہ عتیق فکری محلہ کمان گراں میں ہونے والے نفیس ترین کام کے حوالہ سے لکھتے ہیں ’’پچھلے زمانہ میں چونکہ تیر کمان کا استعمال بطور اسلحہ عام تھا‘ اس لئے اچھی اور خوبصورت کمانیں بنانا اہم کاروبار تھا‘ کمانوں پر بیل بوٹے اور نقش و نگار بھی بنائے جاتے تھے، اس لئے ملتان کے کمان گر تصویر کشی اور نقش و نگار بنانے کے بھی ماہر تھے۔ سب سے بڑی ان کی خوبی یہ تھی کہ کمان کو اس حکمت عملی سے طاقت ور بناتے تھے کہ اچھا جوان بھی اس پر چلا نہ چڑھا سکتا تھا‘ تلوار کی میان پر یہ لوگ سونے کا ورق چڑھا کر نقاشی کا کام کرتے تھے‘‘۔ گو ملتان میں اسلحہ سازی بطور خاص تیر کمان سازی کی روایت قدیم ایام سے چلی آ رہی تھی لیکن مسلم حکمرانوں کے ادوار میں ملتان کے تہذیبی و حربی فنون کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ ملتان کے تہذیبی و حربی فنون کی یہاں کے صوفیاء نے بھی ایک خاص انداز سے آبیاری کی۔

ڈاکٹر روبینہ ترین اپنی کتاب ’’ملتان کی تہذیبی وثقافتی زندگی میں صوفیاء کا حصہ‘‘ میں لکھتی ہیں ’’قدیم زمانہ میں ملتان میں خوبصورت کمانیں بنائی جاتی تھیں کیونکہ تیر اندازی کا فن ملتان میں بڑا مقبول رہا ہے، صوفیا کے مدرسوں میں بھی طلبہ کو تیر اندازی سکھائی جاتی تھی، حضرت بہاء الدین زکریاؒ  کے مدرسہ بہائیہ میں بھی حربی فنون کا ایک الگ شعبہ موجود تھا، خود ملتان کے معروف صوفی حضرت جمال اللہ ملتانیؒ ماہر تیر انداز تھے‘‘۔

تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ ملتان سلاطین کے عہد میں پورے ہندوستان کے لئے فوجی سپلائی اور اسلحہ سازی کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ملتانی اسلحہ ساز تیر اور کمان کے علاوہ خنجر‘ تلوار، بندوق اور بے آواز پستول بنانے کے ساتھ ساتھ زرہ سازی کے فن میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے اور ایسی زرہیں بناتے جن پر بندوق کی گولی یا خنجر کی ضرب اثر نہ کرتی تھی۔

یہ لوگ توت کی لچکدار لکڑی سے کلہاڑیوں کے پھاؤڑے اور دستے بھی بنایا کرتے تھے۔ ملتان میں تہذیبی و حربی فنون اور دستکاریوں کے فروغ میں یہاں کے صوفیاء کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ان صوفیاء میں سرفہرست حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کا نام آتا ہے جنہوں نے اس شہر کی علمی‘ ادبی‘ ثقافتی اور تہذیبی زندگی میں نمایاں کردار ادا کیا اور اس شہر کی ثقافت پر ایسے اثرات مرتب کئے جو صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں۔

ڈاکٹر مہر عبدالحق اپنی کتاب ’’ملتان کے نامور بادشاہ‘ گورنر اور حملہ آور‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ملتان پر محمد بن قاسم کا حملہ ایک انقلاب لے کر آیا جس نے عمومی زندگی کی قدروں کو بدل دیا۔ تاریخی اعتبار پر ملتان کے لئے یہ بڑا پرآشوب دور تھا، ملتان نے اس پرآشوب دور میں جہاں بڑے بڑے اہل علم و دانش ادیب شاعر، قاضی، فقیہہ اور مفسر پیدا کئے، وہیں غارت گروں کے پے در پے حملوں نے دست دولت آفریں کو مفلوج بنا دیا تھا، ملتان کے دستکار‘ کاری گر اور ہنرمند کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی گزار رہے تھے، معاشرے میں ان کا مقام اچھوتوں سے بھی بدتر تھا۔

ان دنوں ملتان سے سمراؤں کی حکومت ختم ہو چکی تھی، ملتان کے سمراؤں کے وہ افراد جو دست برد زمانہ کا شکار ہو کر افتادہ طبقوں میں شمار ہوتے تھے‘ معاشی طور پر زبوں حالی کا شکار تھے چنانچہ آپ نے چند باصلاحیت سمرا نوجوانوں کو اپنے خرچ پر کاشغر بھیجا، جہاں انہوں نے روغنی برتن بنانے اور ان پر نیلے اور سبز رنگ سے نقاشی کرنے کا فن سیکھا۔ واپس ملتان آ کر انہوں نے اپنے فن کو ترقی دی اور خوشحال ہوگئے، ملتان میں اس فن کو کاشی گری کا نام دیا گیا‘‘۔

ڈاکٹر مہر عبدالحق حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کی ملتان کے تہذیبی فنون اور دستکاریوں کے فروغ میں مساعی کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں ’’آپؒ کا معمول تھا کہ آپ ملتان شہر اور اس کے نواح میں رہنے والے زبوں حال طبقات میں خود پھرتے، ان کی کوتاہیوں اور صلاحیتوں کا جائزہ لیتے اور پھر ان کی اقتصادی بہتری کا قابل عمل منصوبہ بناتے چنانچہ کسی کنبے کو تجارت کی طرف راغب کرتے، کسی کو ہنر سیکھنے پر آمادہ کرتے‘ باصلاحیت نوجوانوں کو اپنے خرچ پر غیر ممالک بھیج دیتے، پھر جو مال یہاں کے دستکار تیار کرتے اس کی فروخت کا بندوبست اپنے کارندوں کے ذریعے باہر کے ملکوں میں بھی کراتے، ملتان شہر میں دستکاروں کے نام پر آباد محلے آپ کی رہنمائی کی زندہ مثالیں ہیں۔

حضرت غوث پاکؒ کے ان اقدامات سے گرتی ہوئی معیشت کو سہارا ملا، روندی ہوئی شکستہ حال انسانیت کو معاشرہ میں عزت واحترام ملا، یوں ہنرمندی میں جدت اور حسن کاری سے ملتان کا آرٹ بھی بام عروج پر پہنچ گیا۔ کمان گروں کو ترغیب دی گئی کہ تیر کمان سازی کے ساتھ ساتھ رنگ سازی اور رنگ آمیزی کا ہنر بھی سیکھ لیں، پھر پھول پتیوں کے بنانے کے کام میں ترقی ہوئی تو ٹھپوں کے ذریعے کپڑوں پر چھینبے لگنے شروع ہو گئے۔

چاندی اور سونے کے ورق پہلے ہی ملتان کی صنعت گری کا بے مثال نمونہ تھے تاہم ان کا استعمال طبی مرکبات اور غذاؤں کی آرائش تک محدود تھا‘ اب انھیں چھینبے کے ذریعے پھولوں اور بیلوں پر لگایا جانے لگا، حمام گلی کے رنگریزوں اور پارچہ بافوں کو حضرت غوث پاکؒ نے اس جدت طرازی پر ’’انصار‘‘ کے لقب سے نوازا۔ ملتان کا علاقہ تلوں اور سرسوں کے تیل کے لئے معروف تھا لیکن تیل کو ذخیرہ کرنے یا اسے باہر بھیجنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا کیونکہ ان دنوں مٹی کے برتن ایک تو وزنی تھے دوسرا نقل و حرکت میں یہ اکثر ٹوٹ جاتے تھے اور تیل ضائع ہو جاتا تھا۔

ملتان کے جو لوگ ہاتھی دانت اور اونٹ کی کھالوں سے ڈھالیں بناتے تھے یا تلواروں کے لئے لکڑی کے خول بنا کر ان پر کھالیں منڈھ دیتے تھے انہیں حضرت غوثؒ نے مختلف حجم کی کپیاں اور کپے بنانے کا مشورہ دیا، چنانچہ چند ایک تجربات کے بعد اونٹ کی کھال اس مقصد کے لئے موزوں ثابت ہوئی، اور اس سے ہر سائز کی کپیاں بننا شروع ہو گئیں۔ جس بازار میں یہ مال بکتا تھا وہ اب تک کپ بازار کہلاتا ہے۔

واضح رہے ان تمام منصوبوں کے ابتدائی اخراجات غوث پاکؒ خودبرداشت کرتے تھے یوں آپ کی سرپرستی میں جلدسازی‘ چوب تراشی‘ آہن گری‘ ظروف سازی‘ عمارتوں کی نقش گری اور دوسری گھریلو صنعتیں پروان چڑھیں۔‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کی توجہ دین کی تبلیغ پر ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ عوام کو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فراہم کرتے تھے، تاکہ ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی جا سکیں، اور یہ تمام کام بڑے خلوص سے کیا جاتا تھا، اس میں جاہ و حشمت کی طلب ہوتی تھی اور نہ  ہی کسی قسم کی نمود و نمائش، اسی خلوص کی وجہ سے عوام جوق در جوق ان کے در پر حاضر ہوتے تھے۔

ملتان کے محلہ کمان گراں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کمان گری و اسلحہ سازی کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی دستکاریاں اور تہذیبی فنون بھی موجود تھے۔ دراصل جب تیرکمان کا استعمال ختم ہوا تو کمان گر دیگر اشیاء کی نقاشی کی طرف متوجہ ہوئے‘ ملتان کے دیگر روایتی فنون میں کاشی گری‘ نقاشی‘ زین سازی‘ چوڑی گری‘ دبکڑ (کاغذ اور مٹی ملا کر اشیاء بنانے والے) پونگری (رنگریزی) پٹولی‘ (ریشم باف) سنار‘ لوہار‘ ترکھان (معمار اور چوب تراش) تھے لیکن ان سب فنون میں کاشی گری اور نقاشی کو ملتان کی تاریخ و تہذیب میں نمایاں حیثیت حاصل ہوئی۔

نقاشی کو ملتانی زبان میں کمنگری کہا جاتا ہے اور اس پیشہ سے وابستہ افراد کمنگر کہلاتے ہیں، کمنگری جو ملتان کی خاص صنعت ہے میں ملتانی کمنگر اپنا ایک خاص انداز اور اسلوب رکھتے ہیں۔ پہلے پہل فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والے مسلمان سلاطین نے اپنے محلات کی دیواروں اور چھتوں پر نقاشی کرائی۔ بعدازاں محلات کی دیواروں اور چھتوں کے ساتھ ساتھ روزمرہ استعمال کی اشیاء پر بھی نقاشی کی جانے لگی۔ فوجی ان سے اپنا اسلحہ مزین کراتے جبکہ بیگمات زیورات رکھنے کی صندوقچیں‘ الماریوں‘ پلنگوں اور کرسیوں پر نقش گری کا کام کراتی تھیں۔ ملتان میں مینا کاری کا کام بھی عروج پر تھا‘ مینا کاری میں چاندی کو تانبے میں ملا کر مختلف زیورات اور برتنوں پر نقش و نگار بنائے جاتے تھے۔

ہندو سنار اس کام کے ماہر تھے، قیام پاکستان سے پہلے اندرون بوہڑ گیٹ اور کالے منڈی میں مینا کاری کے بہت سے کارخانے تھے جہاں سے مال دور دراز ملکوں میں بھیجا جاتا تھا۔ کاشی گری جو ملتان کے قدیم فنون میں سے ایک ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس فن کی ابتداء چین سے ہوئی، چین سے یہ فن ایران اور ایران سے ملتان آیا۔ ایک دور تھا کہ ملتان میں مساجد اور مقابر کی تعمیر کاشی گری کے بغیر ناممکن تھی، ملتان کے علاوہ جنوبی پنجاب کے تمام شہروں میں کاشی گری کی روایت تھی۔

قیام پاکستان سے پہلے ملتان میں عمارتی تعمیرات میں بھی نیلی کاشی کا رواج تھا، اس مقصد کے لئے ٹائلوں کی مدد سے دیواروں پر جیومیٹریکل ڈیزائن بنائے جاتے تھے، نمایاں عربی رسم الخط میں دیواروں پر قرآنی آیات لکھی جاتی تھیں، ملتان کے اکثر نقاش خطاطی اور مصوری کے بھی ماہر تھے۔ علامہ عتیق فکری جو خود محلہ کمان گراں کے رہنے والے تھے نے اپنی کتاب ’’نقش ملتان‘‘ میں محلہ کمان گراں کے بہت سے دستکاروں‘ کاشی گروں اور کمنگروں کا ذکر کیا ہے‘ کاشی گر و کمنگروں میں استاد اﷲ بخش نقاش‘ استاد الٰہی بخش‘ استاد خدا بخش بڑے‘ استاد خدا بخش بہرے‘ استاد عبداﷲ‘ استاد محمد بخش اور استاد اﷲ وسایا تھے۔

اسی طرح محلہ کمان گراں میں رہنے والے استاد غلام حسین خطاطی اور جلدسازی کے فن کے ماہر تھے، جن کے فن پارے کابل اور بغداد میں بھی پذیرائی حاصل کر چکے ہیں، محلہ کمان گراں میں مساجد اور مقابر کے مینار اور گنبد بنانے والے اعلیٰ درجے کے معمار بھی تھے جن میں مستری حسن بخش، استاد اﷲ بخش اور مستری حیات محمد شامل تھے۔ علامہ عتیق فکری کے مطابق مستری حیات محمد یونانی خدوخال رکھنے والے ایک دراز قد انسان تھے، بڑے بڑے انگریز انجینئر بھی تعمیراتی سلسلے میں ان سے مشاورت کرتے تھے۔

محلہ کمان گراں کے رہنے والے استاد احمد حسن اور استاد غلام حسین منبت کار تھے، استاد غلام محمد لکڑی کے کام کے ماہر تھے جنہوں نے  60ء کی دہائی میں نشتر میڈیکل کالج کا لکڑی کا ماڈل بھی بنایا تھا۔ اسی طرح ملتان کے معروف مصور استاد احمد بخش جو مصوری کے ساتھ ساتھ سنیما پبلسٹی کے بھی ماہر تھے محلہ کمان گراں کے ہی رہنے والے تھے۔

محلہ کمان گراں ملتان کے اسحلہ سازوں اور کمان گروں کی اپنے فن کے حوالہ سے مہارت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ عتیق فکری لکھتے ہیں۔ ’’ محلہ کمان گراں کے حافظ شیر محمد اپنے زمانے کے ماہر اسلحہ ساز تھے‘ 1933 میں بلوچستان کی ریاست جھل کے نواب یوسف علی خان مگسی نے ان سے ایک زرہ تیار کرائی، قصہ یوں ہے کہ نواب یوسف علی خان ترکی کے جنرل انور بیگ کی یونیفارم کی طرح ایک یونیفارم راقم الحروف (علامہ عتیق فکری) کے والد سے تیار کرائی جسے وہ سبی کے شاہی جرگہ کے موقع پر پہننا چاہتے تھے۔

ان کی خواہش تھی کہ یونیفارم میں ایسی صفت ہونا چاہئے کہ اگر کوئی خنجر‘ تلوار یا بندوق سے حملہ کر دے تو سینہ اور بازو محفوظ رہیں‘ سو یونیفارم تیار کی گئی جس پر زردوزی کا کام ہوا‘ اب مسئلہ حفاظت حملہ کا تھا، حافظ شیر محمد سے اس کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا‘ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک زرہ تیار کی جس پر بندوق کی گولی چلائی گئی‘ خنجر کی ضرب دی گئی مگر زرہ کٹ نہ سکی۔‘‘ ملتان میں چوب تراشی کے فن سے وابستہ بھی بڑے اعلیٰ فن کار موجود تھے جو لکڑی پر باریک نقاشی کیا کرتے تھے‘ 10 محرم کو محلہ کمنگراں سے برآمد ہونے والا ’’تعزیہ کمنگراں‘‘ اس کی بہترین مثال ہے جسے ابتداء میں استاد خدا بخش بڑے نے بنایا تھا‘ علامہ عتیق فکری کے مطابق ’’ایک دفعہ نواب بہاولپور کے ہاں کسی بہت بڑے برطانوی سفیر کی آمد تھی نواب صاحب کی خاص بگھی پر ایسی خراشیں آگئی تھیں کہ وہ بھدی معلوم ہوتی تھی۔

یہ بگھی فرانس سے بن کر آئی تھی اور اس پر ریاست بہاولپور کا خاص نشان منقش تھا اور اس پر بہت ہی نفیس کام کیا گیا تھا‘ وقت کم ہونے کی وجہ سے فرانس سے اس کا درست ہو کر آنا ناممکن تھا‘ ملتان کے ہی ایک ملازم نے نواب صاحب سے کہا کہ یہ کام ملتان میں ہو سکتا ہے، نواب کو یقین نہیں آتا تھا‘ بادل نخواستہ بگھی کی متاثرہ کھڑکی ملازم کے ہاتھ روانہ کی گئی وہ کھڑکی استاد اﷲ بخش کے پاس لائی گئی اور انہوں نے اس کی مرمت کر دی۔ نواب صاحب کو جب یہ کھڑکی پیش کی گئی تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی، استاد اﷲ بخش کی مرمت نے نہ صرف کھڑکی کی خراشیں مٹا دی تھیں بلکہ اصل نقش و نگار اور مرمت میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا۔‘‘

محلہ کمان گراں ملتان میں تیر و کمان سازی کا فن اس وقت زوال پذیر ہوا جب برصغیر پر انگریز حکمران ہوئے اور اپنے ساتھ جدید انداز کا اسلحہ بھی لائے، جنگوں کی نوعیت اور ہتھیاروں کی صورت بدل جانے کے بعد ملتان کے کمان گر دیگر پیشوں اور دستکاریوں کی طرف چلے گئے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے ہنر اور پیشے ختم ہوتے چلے گئے لیکن محلہ کمان گراں میں صدیوں سے جاری کاشی گری اور نقاشی کی روایت ختم نہ ہو سکی بلکہ جدید عہد میں یہ فن نئی رفعتوں اور حیرتوں سے ہمکنار ہوا۔

محلہ کمان گراں کے رہنے والے استاد عاشق نقاش نے اس فن کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اس قدیم فن کی ابجد بھی مرتب کی۔ انہوں نے ایوان اقبال لاہور، سرینا ہوٹل فیصل آباد میں اپنے فن کے انمٹ نقوش چھوڑے‘ 1990ء میں انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا‘ ان کے صاحبزادے ملک عبدالرحمن نقاش آج اپنی خاندانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے فن پر ایوارڈز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ محلہ کمان گراں کے ہی رہنے والے استاد محمد عالم جو استاد اللہ وسایا کے شاگرد ہیں‘ بھی دنیا بھر میں اپنے فن کے حوالے سے جانے جاتے ہیں‘ استاد محمد عالم یونیسکو اور حکومت پاکستان سے پرائڈ آف پرفارمنس حاصل کر چکے ہیں۔

محلہ کمان گراں کا علمی و ادبی چہرہ
محلہ کمان گراں میں تہذیبی و حربی فنون کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی بھی بڑی شاندار روایت رہی‘ اس محلہ میں عالمی شہرت یافتہ فارسی شاعر فخر الدین عراقی کا خاندان بھی آباد تھا‘ اس خاندان میں بہت سی علمی و ادبی شخصیات پیدا ہوئیں جن میں شیخ وجیہہ الدین‘ حافظ محمد حیات‘ خواجہ محمد موسیٰ صدیقی‘ خواجہ خدا بخش‘ خواجہ محمد نظام بخش‘ خواجہ محمد حسین بخش‘ خواجہ محمد شاہ بخش اور حافظ دلدار بخش کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

محلہ کمان گراں میں ہی ملتان کے سابق گورنر اور نغز گو فارسی شاعر نواب سعید احمد خان قریشی کا مزار بھی ہے جو شاہ جہان کے بیٹے مراد بخش کے اتالیق رہے‘ اورنگزیب عالمگیر نے بادشاہ بنتے ہی انہیں ملتان کا گورنر مقرر کیا تھا۔ اسی طرح محلہ کمان گراں میں پیدا ہونے والے علامہ عتیق فکری جو زردوزی کے فن میں ماہر تھے، اپنے علمی، ادبی اور ثقافتی کاموں کی وجہ سے ملتان کے لئے باعث فخر بنے۔ علامہ عتیق فکری نے ملتان کی تاریخ پر تین کتابیں لکھنے کے علاوہ اور بھی بہت سے علمی و ادبی کارنامے انجام دیئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔