امتیاز احمد اورادب؛ مایہ ناز کرکٹر جو صاحبِ تصنیف شاعر بھی تھے

سنڈے میگزین  اتوار 29 جنوری 2017
مستنصر حسین تارڑ نے امتیاز احمد کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں میں شمارکیا۔ فوٹو : فائل

مستنصر حسین تارڑ نے امتیاز احمد کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں میں شمارکیا۔ فوٹو : فائل

امتیاز احمد کے انتقال کی خبر ملی توسب سے پہلے ذہن میں مستنصر حسین تارڑ کا خیال آیا۔ کیوں؟ وہ اس لیے کہ’’ راکھ‘‘ جو میرے پسندیدہ ناولوں میں سے ایک ہے، اس میںمستنصر حسین تارڑ نے نہایت پرلطف پیرائے میں امتیاز احمد کی گوڈا ٹیک شاٹ کا ذکرکیا ہے۔

یہ سب مشاہد کے کردارکے ذریعے بیان ہو رہا ہے اور تارڑ بھلے سے مانیں نہ مانیں ہم تو اسے ان کا ہمزاد ہی مانتے ہیں اور ہم کیا جو بھی ان کے لکشمی مینشن میں گزرے دنوں کے بارے میں جانتا ہے وہ یہی کہے گا کہ مشاہد کے پردے میں تارڑ بول رہے ہیں،آخر یوں ہی تو اس نامور نے ایک دفعہ ہمارے پوچھنے پر کہ وہ آپ بیتی کیوں نہیں لکھتے کہا تھا کہ یہ کام ان سے نہیں ہو گا کیونکہ فکشن نگار اپنی زندگی کا ست کہانیوں اور ناولوں میں بیان کرچکا ہوتا ہے اس لیے وہ خودنوشت میں کون سا تیر مار لے گا۔

امتیاز احمد کے دنیا سے چلے جانے کا معلوم ہونے پر ہم نے مستنصرحسین تارڑکو صرف دل ہی میں یاد نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر انھیں فون کیا اور مایہ ناز کرکٹر کی باتیں کرکے اپنا غم غلط کیا۔ مستنصر حسین تارڑ نے امتیاز احمد کو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں میں شمارکیا اوران کی بیٹنگ کو اپنے ناسٹلجیا کا حصہ قرار دیا۔ ان کے خیال میں ، پاکستان کرکٹ کے ابتدائی دورمیں امتیاز احمد اور مقصود احمد ، وہ بیٹسمین تھے جن کا کھیل دیکھنے شائقین خاص طور سے اسٹیڈیم کا رخ کرتے۔ انگریزی میں ایسے بیٹسمینوں کو crowd-pullerکہا جاتا ہے۔ 31دسمبرکو امتیاز احمد کی وفات کی خبر نے سندھی کے نامور ادیب امرجلیل کو بھی سوگوارکر دیا۔ اپنے درد کوانھوں نے اپنے کالم میں بیان کیااور 66برس پہلے کے اس سمے کو یاد کیا جب امتیاز احمد سے ان کا تعلق استوار ہوا تھا:

’’امتیاز احمد میری روح کی گہرائیوں تک تب اتر گئے تھے جب انھوں نے ورلڈ الیون(کامن ویلتھ) کے خلاف ممبئی میں تین سو رنز بنائے تھے اور آؤٹ نہیں ہوئے تھے ، ڈان اخبارنے پہلے صفحہ پر ا متیاز احمد کی تصویر گول دائرے میں شائع کی تھی اور لکھا تھا:Imtiaz scores 300 not out‘‘

یہ پہلی دفعہ تھا جب برصغیرکے کسی بیٹسمین نے کسی غیرملکی ٹیم کے خلاف ٹرپل سنچری بنائی۔

اب آپ امتیاز احمد کے بارے میں ’’راکھ ‘‘ سے اقتباس پڑھ لیں:
…ان دنوں امتیاز احمد کا گوڈا ٹیک سٹائل لاہوریوں میں بے حد مقبول تھا۔ گیند کسی قسم کا بھی ہوتا باغ جناح میں کرکٹ شائقین ’’گوڈا ٹیک ‘‘کے نعرے لگاتے اور امتیاز احمد ان نعروں کے سحرمیں آکرگھٹنا ٹیک کر بلا گھما دیتے …اگر گیند بلے کو چھوجاتا تو شاندار لیگ گلانس ہوجاتی ورنہ اکثر ایل بی ڈبلیو ہوکر موصوف ٹھنڈے ٹھنڈے پویلین میں واپس آجاتے ۔ ادھر لکشمی مینشن میںبھی یہی سٹائل فالو کیا جاتا تھا ۔

گیند اگرچہ آف پر وائڈ جا رہی ہے لیکن بیٹسمین گھٹنا ٹیک کراسے لیگ پر ہی کھیلنے کی کوشش کررہا ہے ۔اور مشاہد آج بے حد خوش قسمت رہا تھا کہ اس سٹائل میں گیند اس کے بلے کے عین درمیان میں آئی تھی اور زوردار شاٹ کھیلا گیا تھا۔ مینشن کا سناٹا پہلے کی نسبت زیادہ معلوم ہوا تو اسے احساس ہوا کہ کمال بالکل غائب ہے اور وہ کڑکتی دھوپ اورگوڈا ٹیک سٹائل بنائے تنہا کھڑا ہے اوراسی لمحے ایک کڑکتی ہوئی آواز ادھر سے آئی جدھر لیگ گلانس ہوا تھا ۔ اوئے امتیاز احمد کے بچے۔مشاہد کو بے حد دکھ ہوا کہ یہ کون کم عقل اسے امتیاز احمد کے کھاتے میں ڈال رہا ہے اوروہاں برآمدے کے دروازے میں منٹو صاحب کھڑے تھے اور ابل رہے تھے۔

’’اوئے ادھر آ…ادھر دفع ہو…‘‘مشاہد لرزتا ہوا ادھر دفع ہوا تو منٹو صاحب نے جھک کراس کا کان پکڑ لیا’’نشانے لگاتا ہے بے ایمان ۔بیس شیشوں میں صرف تین باقی بچے تھے اور تو نے ان میں سے بھی ایک توڑ دیا۔ اؤے توبہ کر…‘‘

’’جناب آپ کان چھوڑیں تو میں توبہ کروں ۔‘‘منٹو صاحب نے اسے گھورا اور پھران کا موڈ کچھ بدلا’’آئندہ کرے گا؟‘‘
’’نہیں جی ۔‘‘
’’جا پھر دفع ہوجا۔‘‘
مشاہد وہیں کھڑا رہا ۔
’’جاتا کیوں نہیں؟‘‘
’’گیند۔‘‘
’’نہیں ملے گا گیند۔‘‘منٹو صاحب پھر جلال میں آگئے۔
’’ساڑھے چار روپے کا ہے جی۔ کراؤن کا گیند۔ تمام بچے چندہ اکٹھا کرکے لائے تھے۔‘‘
منٹو صاحب فوراًموم ہوگئے ۔ اندر گئے اور گیند لے آئے ’’ خبردار جو آئندہ‘‘
باقر صاحب والی گلی میں کمال اس کا انتظار کر رہا تھا ۔

’’ہے ناں زندگی فضول چیز۔پہلی گیند پر ہی ٹریجڈی ہوگئی…لیکن شکرہے کہ گیند واپس مل گیا ورنہ صفیہ آپا ۔ بھئی بڑی جابر خاتون ہیں ان کے ہاں کم ازکم چھ سات گیندیں ہوں گی ہماری ۔ بچوں کی بددعائیں لے رہی ہیں خوامخواہ…منٹو صاحب نائس ہیں یار۔‘‘

امتیاز احمد کی گوڈا ٹیک شاٹ کی تصویر،کرکٹ کی ایک کتاب سے مل گئی لیکن یہ ہمارے سان گمان میں بھی نہ تھا کہ مستنصر حسین تارڑ کی کرکٹ کھیلتے پلس وہ بھی گوڈا ٹیک شاٹ کے پوزمیں نادر تصویر مل جائے گی ۔

ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی ڈبل سنچری کرنے والے وکٹ کیپر امتیاز احمد کا ذکرناول میں ہی نہیں ممتاز ادیب شوکت تھانوی کی ایک فکاہیہ تحریرمیں بھی ہے،جس میں ڈاکٹرصاحب مریضوں سے بے نیاز کمنٹری توسن رہے ہیں لیکن ایک باپ بیمار بیٹے کو دکھانے ان کے پاس بیٹھا ہے، اس کی نہیں سن رہے۔ آخرکار بچے کی نبض ڈاکٹرنے ہاتھ میں پکڑی تو باپ نے نور نظرکا حال سنانا شروع کیا کہ اس نے دہی بڑے چوری چھپے کھالیے تھے،جس سے طبیعت بگڑی۔ ابھی باپ نے ڈاکٹرکو یہ بتایا ہی تھا کہ شور اٹھا

’’آؤٹ‘‘اس پرکیا ہوا وہ شوکت تھانوی نے باپ کے زبانی اپنے قلم سے کچھ یوںبیان کیا۔’’…اور ڈاکٹر صاحب نے بچے کی نبض اس طرح چھوڑ دی گویا اسی کی وجہ سے امتیاز آؤٹ ہوا ہے اور اس طرح سرجھکا کر بیٹھ گئے گویا خود ان کا کوئی ذاتی حادثہ ہوگیا ہے۔ کچھ دیرتک امتیاز کے آؤٹ ہونے کا سوگ مناکرپھرمیرے بچے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی نبض کی طرف ہاتھ بڑھایاتومیں نے پھر اس کا حال سنانا شروع کیا۔

’’پرسوں اس نے یہ بدپرہیزی کی ہے کہ ہم سب سے چھپا کردہی بڑے کھالیے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے کہا :
’’بڑا جم کر کھیل رہا تھا اور نہایت اچھے اچھے ہاتھ دکھائے اس نے ۔ اگر تھوڑی دیر اور آؤٹ نہ ہوتا تو کھیل کا نقشہ ہی بدل جاتا۔ ‘‘
میں ڈاکٹر صاحب کا منہ دیکھ کر رہ گیا جو بچے کی نبض ہاتھ میں لیے امتیاز کا طبی معائنہ فرمارہے تھے۔‘‘

نامور ادیبوں کی تحریروں میں امتیاز احمد کا ذکرجس پرلطف انداز میں ہوا ہے وہ آپ نے پڑھ لیا۔ اس سے بڑھ کریہ بات کہ امتیاز احمد خود بھی شاعر تھے ۔ شاعری تو ممکن ہے کسی اور پاکستانی کرکٹرنے بھی کی ہو لیکن وہ واحد پاکستانی ٹیسٹ کرکٹرہیں جو صاحب تصنیف ہیں۔ ان کی کتاب کا نام ہے ’’ میرے شعر ‘‘ جس کا پیش لفظ ابراہیم جلیس کے قلم سے ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

’’میں نے امتیاز احمد کو کرکٹ کے میدانوں میں بارہا دیکھا ہے لیکن ایک دن میں نے امتیاز احمد کو گلستان شعروادب میں بھی دیکھا تو میری حیرانی اور مسرت کی انتہا نہ رہی یہ سچ مچ تعجب اور مسرت کی بات ہے کہ امتیازنہ صرف کرکٹ کے میدان کا ہیرو ہے بلکہ وہ گلستان شاعری کا بھی ایک خوش رنگ اور مہکتا پھول ہے۔ اس کا صحت مند جسم اگر ایک طرف کھیل کے میدانوں کی طنابیں کھینچ دیتا ہے تو دوسری طرف اس کا صحت مند دماغ اپنے شعوراورفکر کی قندیلوں سے پاکستان کی ادبی فضا کو بھی جگمگا دیتا ہے۔‘‘ شوکت تھانوی نے ’’میرے شعر‘‘ پر تبصرہ بھی کیا جو ان کی کتاب ’’نمک مرچ ‘‘میں شامل ہے۔ سرورق پرامتیاز احمد کا کارٹون عزیز کارٹونسٹ کے ہاتھ سے بنا ہے۔

کتاب کا غالب حصہ نظموں پر مشتمل ہے جو تعداد میں چودہ ہیں۔ سات رباعیاں اورایک غزل ہے۔ یہ کتاب ایک ہی دفعہ شائع ہوئی ، اس کی اشاعت ثانی سے شاعر گریزاں ہی رہا،جس دوست نے تقاضا کیا اسے فوٹوکاپی بنواکر دے دی۔ شاعری پڑھ کرلگتا ہے کہ کرکٹر زندگی کے کسی خاص عرصہ میں مریض عشق رہے،یہ اسی دورکی یادگار ہے اور ٹوٹے ہوئے دل کے درد انگیز نالے ہیں۔ زیادہ ترکلام شاعر کی باطنی واردات کا اظہارہے،اس میں نشاط، اداسی اورناامیدی کے لمحات کا بیان ہے۔ بیچ میں کہیں کہیں وہ خارجی زندگی پربھی نظر دوڑاتا ہے اور’’نذر لکھنؤ ‘‘اور ’’لند ن کی ایک رات ‘‘ جیسی نظمیں سامنے آتی ہیں۔ امتیاز احمد کی شاعری معمولی سہی لیکن وہ ایک زرخیز اور تخلیقی ذہن کا پتا دیتی ہے اور یہی کیا کم ہے کہ اس معاشرے میں جہاں کھلاڑیوں کو ادب سے دورکا واسطہ نہ ہو وہاں ایک کرکٹر شعری مجموعے کا خالق ہو۔

کتاب کے آغاز میں امتیاز احمد نے اپنا مختصر سا تعارف یوں کرایا ہے:
پیدائش۔۔۔۔جنوری 1928(پنجاب )
تعلیم:بی اے تک
کالج:اسلامیہ کالج لاہور
اب تک:کرکٹ کھیلی
اب :کرکٹ سے شاعری تک اور شاعری سے پاکستانی فضائیہ تک آگئے ہیں۔

۔۔۔۔۔

اندیشہ
تیرے خاموش لبوں پر یہ تکلم کی نمود
تیری چپ چاپ نگاہوں میں یہ الفت کا پیام
یہ تو سچ ہے کہ یہ آغاز حسیں ہے لیکن
کون جانے کہ اس آغاز کا کیا ہو انجام
یہ تیرے ریشمیں آنچل کی سنہری چھائوں
وقت کے ساتھ ہی اک روز نہ ڈھل جائے کہیں
تیری خاموش نگاہوں میں محبت کا یہ عہد
اس حسیں عہد کا مطلب نہ بدل جائے کہیں
سوچتا ہوں یہ ترا ربط مسلسل ہی کہیں
پیش فرمائی احساس گریزاں تو نہیں
یہ عنایت یہ نوازش یہ توجہ یہ کرم
چند لمحات کی تسکین کا ساماں تو نہیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔