نفیسہ کی کتاب… بلاول کی باتیں

زاہدہ حنا  اتوار 29 جنوری 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

21 دسمبر 2016ء کی اس شام کراچی آرٹس کونسل کو جانے والی سڑک پر پولیس کی بھاری نفری اور چند چینلوں کی اوبی وینز کی موجودگی اس بات کی غمازی کررہی تھی کہ کسی وی وی آئی پی کی آمد ہے۔ آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں سندھ کی نامور بیٹی نفیسہ شاہ کی کتاب ’’آنر ان ماسکڈ‘‘ کی تقریب رونمائی تھی جسے کچھ ہی دنوں پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شایع کیا تھا۔ نفیسہ شاہ نے اپنی تحریری زندگی کا سفر ’نیوز لائن میگزین‘ سے شروع کیا۔

سوشل اینڈ کلچرل انتھرا پالاجی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آکسفورڈ گئیں اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ سیاست ان کے گھر کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ وہ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی بیٹی ہیں۔ 2001ء میں خیرپور ضلع کی میئر رہ چکی ہیں اور اب دو مرتبہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی ہوئی ہیں۔ اس روز آرٹس کونسل میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور اسٹیج پر سید قائم علی شاہ، اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی، معروف افسانہ اور ڈراما نگار نورالہدیٰ شاہ، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئر پرسن زہرا یوسف، افسانہ نگار ڈاکٹر آصف فرخی موجود تھے۔ ان سب لوگوں کے درمیان محترمہ بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول اور ان کی بہن بختاور تھیں۔ بلاول اس تقریب میں مرکز نگاہ تھے۔

بلاول نے اس کتاب کا اجرا کرتے ہوئے کہا کہ عزت کے نام پر ہونے والے قتل، دراصل قتل عمد ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی۔ اب یہ معاملہ صرف دیہی علاقوں میں قبائیلی روایت کا نہیں رہا ہے بلکہ پھیلتے پھیلتے اس نے پاکستان کی شہری برادریوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بے دردانہ قتل کی ان وارداتوں کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے اور افسوس کہ قتل کرنے والے اس لیے بچ نکلتے ہیں کہ پاکستان میں قوانین کا درست اطلاق نہیں ہوتا۔

بلاول کا کہنا تھا یہ میری نسل کا فرض ہے کہ ہم اس مشکل کا حل تلاش کریں۔ یہ تشدد نہیں، قتل ہے۔ ہمیں اپنی قوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی ماؤں اور بہنوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ انھوں نے قاتلوں کو یاد دلایا کہ کسی عورت کو قتل کرنا عزت کی نہیں، یہ اپنی عزت کو خاک میں ملادینے کی بات ہے۔

نورالہدیٰ شاہ سندھی اور اردو کی ایک معروف ادیب ہیں۔ انھوں نے اس معاملے کو اپنے ڈراموں اور افسانوں کا بھی موضوع بنایا ہے۔ اس روز بھی وہ عورتوں کے خلاف آخری درجے کے اس جرم کے بارے میں بہت درد سے اور پُراثر انداز میں بولیں۔ انھوں نے نفیسہ شاہ کو داد دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں نفیسہ کی لکھی ہوئی باتیں تحقیق نہیں، یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی وہ داستانیں ہیں جو نفیسہ نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے سنیں۔ یہ ایک ایسا گھناؤنا جرم ہے جو ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور نفیسہ نے ان جرائم کو لکھ دیا ہے۔ یہ ایک ایسی کہانی کا پلاٹ ہے جو تبدیل نہیں ہوتا، بس کہانی کے کردار بدل جاتے ہیں۔

نفیسہ کا کہنا ہے کہ غیرت کے قتل کے بارے میں انھوں نے پہلی رپورٹ 1993ء میں انگریزی رسالے نیوز لائن کے لیے لکھی تھی اور اس میں بتایا تھا کہ بالائی سندھ میں قبائلی رواج کے تحت جس مرد اور عورت پر اپنے خاندان یا قبیلے کی عزت کو مجروح کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، اس میں جس مرد پر یہ الزام لگایا جاتا ہے اسے جرمانے کی رقم اس شخص کو دینی پڑتی ہے جس کی عزت مجروح ہوئی ہو۔ یہ لوگ اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے تھے یا انھیں قتل کردیتے تھے اور ملزم مرد کو جرمانے کے طور پر اپنے گھر کی ایک عورت بھی دینی پڑتی تھی۔ ان معاملات کو لکھتے ہوئے نفیسہ کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار نے الزامات لگانے اور کاروکاری کے واقعات کو بڑھاوا دیا۔ شاید اسی وجہ سے کچھ دنوں پہلے نفیسہ نے ایک موقع پر یہ کہا کہ کاروکاری اب ایک کاروبار بن گیا ہے۔

نفیسہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ 1993ء میں جب میں نے کاروکاری کے بارے میں پہلی تحقیقاتی رپورٹ لکھی تو اس وقت میں اس دیہی روایت سے اسلیے ناواقف تھی کہ میں شہروں میں رہتی تھی۔ یہ میرا ایک دوست تھا جو جیکب آباد کا رہنے والا اور پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھا اس نے میری توجہ اس طرف دلائی۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے آبائی قصبے میں کاروکاری ایک کاروبار بن گیا ہے۔ اس بات سے متاثر ہوکر اور حقیقت کا کھوج لگانے کے لیے نفیسہ نے کشمور کا سفر کیا جوکہ بالائی سندھ کے انتہائی شمال میں ہے۔ کشمور میں نفیسہ کے دوست چندر نے ان کی میزبانی کی اور انھیں ایسی خواتین سے ملایا جن پر کاری ہونے کا الزام لگ چکا تھا۔ قبائلی سرداروں کے ’فیصلے‘ کے نتیجے میں ان عورتوں کی جان بچ گئی تھی۔ ان میں سے کچھ عورتیں اس انتظار میں تھیں کہ وہ کسی طرح اپنی برادری میں واپس جاسکیں۔

نفیسہ کا تعلق سندھ کے شہر خیرپور میرس سے ہے، جہاں آج بھی عورتیں اور لڑکیا ں پردے کی نہایت سختی سے پابندی کرتی ہیں۔ شادیاں صرف خاندان میں ہوتی ہیں اور اگر سید گھرانے کا کوئی ایسا لڑکا موجود نہ ہو جس سے سید لڑکی کا رشتہ ہوسکتا ہو تو پھر وہ لڑکی عمر بھر کنواری رہتی ہے اور چھوٹے بھائی بھتیجوں اور بہنوں بھانجیوں کو قرآن پڑھاکر زندگی یوں ہی بسر کرتی ہے۔

نفیسہ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ وہ ایک ایسے سندھی گھرانے میں پیدا ہوئیں جو سیاسی اعتبار سے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا اور ان کے والد سید قائم علی شاہ پیشے کے وکیل اور ایک ترقی پسند سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ تھے۔ وہ اپنی والدہ حسن افروز صاحبہ سے بے حد متاثر ہیں اور ان کی شکر گزار بھی۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلائی اور اپنے ارد گرد کی عورتوں کے حالات بدلنے میں دلچسپی لی۔ وہ چلی گئیں تو یہ ذمے داری ان کے والد سید قائم علی شاہ نے اٹھائی اور اپنی بیٹیوں کی بہترین تعلیم و تربیت کو یقینی بنایا۔

اسی کا نتیجہ ہے کہ نفیسہ نے سندھ کی سیاست میں سرگرم حاصل لیا اور جب آکسفورڈ گئیں تو ان کی پی ایچ ڈی کا تھیسس بھی کاروکاری اور اس کے باب میں ریاست، ملکی قوانین کا رویہ، اشرافیہ کی طاقت اور اس کے بل بوتے پر غیرت کا نام لے کر کمزور عورتوں اور مردوں کی جان لے لینے جیسے معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔

نفیسہ نے ضلع کی میئر اور پھر دو مربتہ قومی اسمبلی کے ممبر ہونے کی وجہ سے کاری قرار دی جانیوالی عورتوں کی دردناک زندگی کو بہت قریب سے دیکھا۔ ان کی یہ کتاب صرف ان عورتوں کی داستان غم ہی نہیں سناتی، یہ ہمیں نو آبادیاتی قوانین، موجودہ اسلامی قوانین اور حکمران طبقات کی سنگدلی کی جھلکیاں بھی دکھاتی ہے۔ اس کتاب میں نفیسہ نے بہت تفصیل سے ’نور خاتون شر‘ کی داستان بیان کی ہے۔ اس میں ناپسند کی شادی، اس شادی سے فرار حاصل کرنے کے طریقے، شوہر کا تشدد، باپ کی بزدلی اور شر قبیلے کے ایک نوجوان کا کردار۔ اس پورے کیس کو پڑھ جائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے قصبوں اور دیہاتوں میں کیسے سنسنی خیز اور سچے واقعات ہورہے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ سندھی پریس ان واقعات کو سنجیدگی سے لیتا ہے۔ ان کے بارے میں تحقیقی رپورٹ شایع کرتا ہے اور ان اخباروں میں کام کرنے والے رپورٹروں کی کوشش ہوتی ہے کہ جن لڑکیوں یا عورتوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، ان کی ہر ممکن مدد کریں۔

ان تمام باتوں کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ ریاست جب تک ملک کے کمزور طبقات بطور خاص عورتوں اور بچوں کی مدد نہیں کرتی، ملک میں جو قوانین موجود ہیں ان کا درست طور پر نفاذ نہیں کرتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنرل ضاء الحق نے جن سیاہ قوانین کو نافذ کیا، ان امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے راست اقدام نہیں کرتی، اس وقت تک کیا سندھ اور کیا بلوچستان پنجاب اور پختونخوا ہماری عورتیں قدیم روایات کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوگا۔

نفیسہ نے مختیار ملک کی نظم کا حوالہ دیا ہے جس میں وہ کہتا ہے ’’معصوم اور بے گناہوں کا روزانہ قتل ہورہا ہے، میری دنیا، میرے لوگ خاموش کیوں ہیں؟‘‘ مختیار نے کہا کہ میں نے یہ نظم اس وقت لکھی جب میں نے ایک گدھا گاڑی پر ایک عورت کی لاش دیکھی۔ اسے اس کے بھائی نے قتل کیا تھا جب کہ وہ اس کے کپڑے دھوکر پھیلا رہی تھی۔ وہ ایک دوسرے شاعر استاد بخاری کی ایک نظم ’لاش‘ کی چند سطریں ہمیں سناتی ہیں:

مجھے اس لاش سے باتیں کرنے دو
اس پر جو گزری میں سننا چاہتا ہوں
میں اس کی درد ناک حالت پر ماتم کرنا چاہتا ہوں
مجھے اس کے زخموں پر رونے دو!

نفیسہ کی یہ کتاب ان گنت زخموں کا ، مردہ اور نیم مردہ عورتوں کی داستان کا پشتارہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔