فوجی عدالتوں کے بغیرضربِ عضب بارآور نہیں ہوسکتا

رحمت علی رازی  اتوار 29 جنوری 2017
rehmatraazi@hotmail.com

[email protected]

اس میں مطلقاً کوئی شائبہ نہیں کہ ملکِ خداداد کو آمریت کے دو ادوار نے دہشتگردی کی بھٹی میں جھونکا‘ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی امریکا دوست اندھی پالیسیوں کی بیجی فصل کا خوشہ خوشہ جنرل راحیل کے ہاتھوں کو جلا کر صاف کرنا پڑا اور اب وطنِ عزیز کے ان کھلیانوں میں امن کی ہریالی اگانے کا بیڑا جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ہاتھ لے رکھا ہے جو دہشتگردی کی جنگ کے خلاف اپنے پیشرو کی حکمتِ عملی کو من وعن جاری رکھنا چاہتے ہیں‘ جنرل باجوہ آپریشن ضربِ عضب کو ’’آہنی ضربِ عضب‘‘ کے نام سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں توسیعی بنیادوں پر جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں مگر سول حکومت کی طرف سے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور فوجی عدالتوں کی توسیع میں لیت ولعل مقتدر حلقوں کی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔

پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مدت میں توسیع کی مخالفت کی‘ یہی وجہ ہے کہ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں شمولیت کے موقع پر سابق آرمی چیف راحیل شریف کو واضح کرنا پڑا کہ فوجی عدالتوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنے میں مدد کی، جلدازجلد انصاف کی فراہمی کے لیے فوجی عدالتیں وقت کی ضرورت تھیں، فوجی عدالتوں نے 170 افراد کو سزا سنائی لیکن اس کے باوجود ایک لمبی فہرست ہے، غیرمعمولی اوقات میں آپ کو غیرمعمولی اقدامات کرنے پڑتے ہیں، آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد معصوم بچوں کی 100ماؤں نے ملزمان کو سرعام اسکول میں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

راحیل شریف کا فوجی عدالتوں سے متعلق بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا جب پاکستان میں 7جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوچکی ہے اور حکومت تاحال کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی اور اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ اس کا مشاورتی عمل جاری ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ فوجی عدالتوں کو توسیع نہیں ملے گی کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کی جملہ جماعتوں کی نیت میں آرمی کورٹس کی بابت شروع دن سے فتوررہا ہے‘ سیاسی ایوانوں میں مشاورت کے نام پر دھوکہ ہورہا ہے‘ قوم جاننا چاہتی ہے کہ دہشتگردوں کے پھانسی چڑھنے سے حکمرانوں کے کون سے مفادات متاثرہوتے ہیں؟ دُنیا میں جہاں دہشتگردی کا وائرس آیا وہاں کی حکومتوں نے خصوصی قوانین بھی بنائے اور عدالتیں بھی مگر سب سے زیادہ دہشتگردی کے انفیکشن میں مبتلا ملک پاکستان میں خصوصی قوانین جھگڑے کا باعث کیوں ہیں؟

دہشتگردوں کے کچھ سپورٹر اور پروموٹر اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں اور انھیں معلوم ہے کہ دہشتگردی ختم ہوئی تو ان کا اقتدار اور سیاست بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائینگے کیونکہ یہ دہشتگرد گروپوں کی حمایت سے اقتدار حاصل کرتے اور اسے بچاتے ہیں‘ حکمران جماعت کے وزراء کے کالعدم تنظیموں سے روابط اور سیاسی تعلقات کس سے چھپے ہوئے ہیں؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد سادہ لوح عوام کو اب اس بات پر ابہام نہیں رہنا چاہیے کہ آپریشن ضربِ عضب، نیشنل ایکشن پلان، فوجی عدالتیںاور دہشتگردی کا خاتمہ حکمرانوں کا نہ کل مسئلہ تھا نہ آج ہے۔ دہشتگرد ہزاروں پاکستانیوں کی مزید جانیں بھی لے لیں تو انھیں اس کا کوئی پروا نہیں ہے‘ ان کا مسئلہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر لوٹ مارمچانا اور مال کمانا ہے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد سے لے کر آج تک حکمرانوں نے اس رپورٹ کے کسی ایک جزو کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ اُلٹا کمیشن کے سربراہ کو دھمکیاں دی گئیں، مذاق اُڑایا گیا۔

بالآخر اس رپورٹ پر بھی سپریم کورٹ کونوٹس لیناپڑا‘ حکومتی ذمے داروں کی اس منافقانہ خاموشی اور مصلحتوں کی سزاتو واضح طور پر ملک و قوم کو ہی ملے گی اور دہشتگردی کے حوالے سے پاکستانی قوم اور مسلح افواج نے جو قربانیاں دی ہیں، کرپٹ حکمرانوں کے باعث ان کے ضایع ہوجانے کا قوی احتمال ہے‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کی رپورٹ میں جوسب سے اہم ترین نکتہ ہے وہ دہشتگردی کے خاتمے کے متبادل بیانیے کاتیار نہ ہونا ہے‘ حکمرانوں سے یہ کون پوچھے گا کہ دوسال بعد بھی یہ متبادل بیانیہ تیار کیوں نہیں ہوا؟ قومی ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟

سب سے بڑی عدالتوں کے ججزنے بھی کرپشن اور دہشتگردی کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں اقتدار میں آنیوالی حکومت کے مجرمانہ رویے کی نشاندہی کردی مگراعلیٰ قیادت کی جانب سے اس کا نوٹس تک نہیں لیا گیا۔آج سے 2سال قبل جب فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں تو ملک میں دہشتگردی کا اژدہا پھن پھیلائے ملک کی سالمیت کو ڈنک رہا تھا‘ بڑھتی ہوئی دہشتگردی کی وارداتوں کے باعث حکومت پرسیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے دباؤ بڑھنے لگا تھا کہ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں تاکہ اس ناسور کاقلع قمع کیا جاسکے، تب پولیس اورقومی سلامتی کے ادارے بڑی تعداد میں دہشتگردوں کوگرفتار کرتے رہے لیکن مقدمات کے حوالے سے بڑی تشویشناک صورتحال اُبھر کر سامنے آنے لگی۔

دہشتگردوں کی جانب سے ججوں کو باقاعدہ دھمکیاں مل رہی تھیں جب کہ کئی دہشتگردی کا نشانہ بھی بنے، کئی نے مقدمات سننے تک سے انکار کردیا تھا‘ ایسی خوف کی فضا میں دہشتگردوں کو کیفرکردار تک پہنچانا ناممکن نظر آنے لگا تھا‘ پھر سانحہ اے پی ایس ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور یہ صورتحال مقتدر حلقوں کی پریشانی کا باعث بنی چنانچہ اس سے عہدہ برا ہونے کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا‘ یہ ایک متفقہ فیصلہ تھا لیکن صد شکر کہ اس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے اور فیصلہ ساز قوتوں کو فوجی عدالتوں کے قیام پر پچھتاوے کی نوبت نہیں آئی‘ ہاں البتہ ان عدالتوں کے قیام کے وقت یہ بھی کہا گیا تھاکہ اس عرصہ میں اپنے روایتی عدالتی نظام میں اصلاحات کی جائینگی جوبدقسمتی سے نہ ہوسکیں۔

بعض حلقوں کا خیال ہے کہ فوجی عدالتوں سے جزوی مقاصد تو حاصل ہوئے تاہم طویل المیعاد ٹارگٹ حاصل نہیں ہوسکا‘ اب جب فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوگئی ہے اور ایک بار پھر سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اصلاحات تو ہونہیں پائیں تو کیا ایک بارپھر 2سال قبل والی صورتحال پیدا ہو جائے گی‘ یہ ایک اہم سوال ہے لیکن دوسری طرف بعض جماعتیں فوجی عدالتوں کو توسیع دینے کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں تاہم قوم نہیں چاہتی کہ دہشتگرد ایک بار پھر قانونی موشگافیوں سے بچ نکلیں اور ملک بھر میں دوبارہ دندناتے پھریں.

یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ جب تک ہمارا عدالتی نظام مضبوط نہیں ہوپاتا، دہشتگردی اور دہشتگرد اب بھی بہت بڑا خطرہ ہیں‘ دہشتگرد اور ان کے سہولت کار ابھی کونوں کھدروں میں موجود ہیں جنھیں جیسے ہی سازگار حالات ملے وہ سراٹھانے میں دیر نہیں لگائیں گے چنانچہ وقت کا تقاضا ہے کہ ایک بار پھر ملک کے عظیم ترمفاد میں فیصلہ کیا جائے، اسی میں ملک وقوم کی بقاء ہے لیکن اس کے لیے حکومت کاسنجیدہ ہونا بہت ضروری ہے اور سچ بات تو یہ ہے کہ قومی سلامتی کے پراجیکٹ حکومتی ترجیحات کا کبھی حصہ رہے ہی نہیں۔

فوجی عدالتوں کی توسیع سے حکمرانوں کو کونسی کمیشن ملنے والی ہے، وہ تواس معاملے کو گول مول لپیٹ کر جان چھڑانا چاہتے ہیں، اسی لیے توفوجی عدالتوں کی دوسالہ میعادجب 6جنوری کو پوری ہوگئی تو حکومت کو فوراً ہی نئے قانون کی سوجھی کہ فوجی عدالتوں اور انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں کوملا کر یکجا کردیا جائے، یوں فوجی عدالتوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں لیکن نئے آرمی چیف نے اپنے پیش رو کی طرح کور کمانڈروں کااجلاس بلاکر یہ بات واضح کردی کہ فوجی عدالتوں نے بہت اچھا کام کیا، ان سے دہشتگردی کم ہوئی۔

مقصد یہی تھا کہ انھیں پھر سے قائم کیا جائے‘ ظاہر ہے کہ اس کے لیے آئین میں ترمیم ضروری ہے‘ پہلے بھی راحیل شریف کے کہنے پر آئین میں 21 ویں ترمیم کے ذریعے یہ عدالتیں قائم کی گئی تھیں، ان کی مدت صرف دوسال تھی‘ اب دوبارہ انھیں قائم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کیے جانے کاسوچا جارہا ہے‘ اس سلسلے میں حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس 10جنوری کو بلاکر تمام جماعتوں سے مشورہ کیا لیکن اب بھی اسے بڑی خفت اٹھانی پڑی‘ پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور حکومت کی حلیف جماعت جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے اس کی بھرپور مخالفت کی.

تحریکِ انصاف نے چند وضاحتیں طلب کیں کہ ان کا دائرہ اختیار کیا ہوگا، ان پر عملدرآمد کیسے ہوگا، سویلین حکومت کا کردار کیا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ نوازشریف پھرمخمصے میں پھنسے نظر آتے ہیں‘ ایک طرف دباؤ اور دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور مخالفت‘ اگر یکسوئی نہ ہوئی تو پھر قانون کیسے منظور ہوگا‘ آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے تین چوتھائی ارکان کی حمایت ضروری ہے‘ نوازشریف کے پاس اتنی تعداد موجود نہیں‘ قومی اسمبلی میں ان کے  پاس صرف سادہ نمائندگی ہے‘ ان کے لیے دوسری جماعتوں کے بغیر ایسا کوئی بھی قانون یا آئینی ترمیم منظور کرنا ناممکن ہوگا‘ مشاورت ابھی جاری ہے لیکن پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کی حمایت کیسے حاصل کی جائے، یہ ایک ٹیڑھی کھیر ہے جسے سیدھی انگلی سے نہیں نکالا جاسکے گا‘ عوامی جماعتیں اس کے لیے تیار نہیں تو پھر حل کیا ہوگا‘ یہی تو اہم سوال ہے جس نے نوازشریف کوپھر گرداب میں پھنسا دیا ہے۔

حکومت کی بدنیتی تو نیشنل ایکشن پلان سے ہی واضح ہوچکی ہے جس کی متعدد شقوں پر وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے صدقِ دل سے عمل ہی نہیں کروایا۔ مناسب ہوگا کہ آرمی کورٹس کی توسیع کے ساتھ ساتھ صوبائی اوروفاقی سطح پر نیشنل ایکشن پلان کی ان شقوں پر بھی عملدرآمد یقینی بنایا جائے جن پر ابھی تک عمل ہی نہیں ہوا تاکہ وہ مقاصد حاصل کیے جاسکیں جن کو مدِنظر رکھ کر ملک بھر کی سیاسی اور فوجی قیادت نے مل بیٹھ کر طویل مشاورت کے بعد یہ پلان وضع کیا تھا‘ اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔

ہمیں دہشتگردی کے خلاف جنگ اگرہرحال میں جیتنی ہے تو ایک بار پھرمل بیٹھ کر جائزہ لیناہوگاکہ کون سی شقوں پر عمل ہوا اور کون سے نکات پر عملدرآمد ہونا باقی ہے‘ ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا جائے کہ باقی ماندہ شقوں پر عمل کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے‘ اس حوالے سے غفلت کا ارتکاب جاری رہا تووہ مسائل ہمیں ایک بار پھر گھیر لیں گے جن سے ہم بڑی مشکلوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے قریب ہیں‘ 2سال پہلے قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوچکی لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ابھی تک ان کا متبادل انتظام ہی نہیں کیا جاسکا۔

انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں اور اسپیشل کورٹس برائے تحفظِ پاکستان کی موجودگی کے باوجود اسپیڈی ٹرائلز کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور حکومت کی جانب سے اسے ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے ضروری قرار دیا گیا تاہم اب اس اہم ایشو پرحکومت مصلحت پسندی کا شکار ہے اور یہ واضح نہیں کہ حکومت ملٹری کورٹس کو مزید توسیع دینا بھی چاہتی ہے یا نہیں؟ حکومت اگر چاہے تو وہ تمام سیاسی مجبوریوں کو بالائے طاق رکھ کر فوجی عدالتوں کی توسیع کے لیے آرڈیننس کا اجراء بھی کرسکتی ہے‘ ایسا اقدام کرنے سے مخالفت کرنیوالی جماعتوں کے تمام حربے ناکام ہوجائیں گے۔

فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنیوالے ملک کے خیرخواہ نہیں‘ فوجی عدالتوں میں توسیع کی مخالفت کرنیوالوں کی تحریک قابلِ مذمت ہے اور محب وطن حلقوں کو ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی‘ عالمی سطح پر یورپی یونین اور مغرب کی طرف سے دہشتگردوں کوعدالتوں کی طرف سے دی گئی سزائے موت اور پھانسیوں کی مخالفت کے باجود اور قطع نظر سیاسی مصلحتوں کے دہشتگردوں کی سرکوبی میں فوجی عدالتوں کا کردار قابلِ تعریف اور حوصلہ افزا رہا ہے‘ بعض سیاسی شعبدہ باز اقتدار کے لالچ میں فوجی عدالتوں میں توسیع کی مخالفت کررہے ہیں لیکن ملک کا باشعور طبقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دہشتگردی کے حوالے سے ہمارے ملک کی فوجی عدالتیں ہی مثبت نتائج دے سکتی ہیں۔

دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تومخالفت کرنیوالوں کے علاوہ ایک طبقہ وہ بھی ہے جو آرمی کورٹس کے حق میں توہے مگر ان کی اب تک کی کارکردگی سے ہرچند مطمئن نظر نہیں آتا‘ فوجی کچہریوں کو جس تیزی سے کام کرنا چاہیے تھا، نہیں کرسکیں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی عدالتوں نے دہشتگردوں کی کمرتوڑ دی ہے لیکن بہت سے دہشتگردوں کی کمر ابھی ٹوٹنے سے رہ گئی ہے‘ قوم کو فوجی عدالتوں سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں کہ ’’را‘‘ کے بڑے بڑے ایجنٹوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا‘ سانحہ نشترپارک، بلدیہ ٹاؤن اور12 مئی کے دل ہلادینے والے سانحات کے کردار اپنے انجام کو پہنچیں گے لیکن افسوس کہ قوم کی یہ اُمیدیں برنہ آسکیں‘ اگر فوجی عدالتوں میں بھی عام عدالتوں کی طرح برسوں انصاف کے لیے انتظار کرنا پڑیگاتو پھر فوجی عدالتوں کا کیا فائدہ؟

فوجی عدالتیں جمہوریت کے منافی سمجھی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود تمام جمہوری قوتوں نے دل پر پتھر رکھ کر ان کی منظوری دی تھی اور ان کے  قیام پر رضامندی کااظہار کیا تھا، صرف اس لیے کہ عام عدالتوں سے عوام جلد انصاف کی فراہمی سے مایوس تھے اور فوجی عدالتوں سے جلد انصاف کی توقع کررہے تھے لیکن افسوس کہ ان کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں‘ پاکستان کے دشمنوں اور’’را‘‘ کے ایجنٹوں کی نشاندہی ہونے کے باوجود اب تک ان کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جاسکا، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کو تمام مقدمات وزارتِ داخلہ بھجواتی ہے لہٰذا یہ دوش آرمی کورٹس کو نہیں بلکہ وزیرِداخلہ کو دینا چاہیے جنھوں نے بہت کم مقدمات فوجی عدالتوں کو بھجوائے اور اس پربھی مستزاد یہ کہ ان میں سے بھی بہت سوں کی سزائیں سپریم کورٹ نے معطل قرار دیدیں۔

فوجی عدالتوں میں مقدمات کم جانے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انسدادِ دہشتگردی کی عدالتیں بھی کئی شہروں میںکام کررہی ہے مگراسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ مبینہ دہشتگردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں ہی چلنے چاہئیں کیونکہ سول عدالتوں اور پولیس میں اب بھی صلاحیتوں کی کمی ہے اور اس کی وجہ ججوں، وکلاء اور گواہوں کو درپیش خطرات ہیں۔یہ بھی ایک شرمناک بات ہے کہ متواتر حکومتیں اہم عدالتی اصلاحات کے ذریعے انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں کو مؤثر نہیں بناسکیں، جس سے سول ادارے مضبوط نہیں ہوئے جو عسکری گروہوں سے نمٹ سکتے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتیں جب یہ کہتی ہیں کہ حکومت کے پاس 2سال تھے جس میں وہ بذریعہ اصلاحات پولیس، عدالتی کارروائی، گواہوں کے تحفظ اور بڑے پیمانے پر عدالتی اصلاحات کرسکتی تھی تاہم کچھ اہم اقدامات تک نہیں کیے گئے۔ اب اگر فوج، فوجی عدالتوں کی اہمیت اورضربِ عضب کے مکمل ہونے تک اس کی ضرورت پر زور دیتی ہے تو انھیں بھی سول قیادت کومطمئن کرنا ہوگا کہ کس طرح ان فوجی عدالتوں نے دہشتگردی سے نمٹنے میںمدد کی لہٰذا سول اور ملٹری قیادت کے درمیان فوجی عدالتوں اور نیشنل ایکشن پلان پر بات چیت اورپارلیمنٹ میں اس مسئلے پر بامعنی مباحثہ ضروری ہے، جس میں وزیراعظم نوازشریف اور حزبِ اختلاف کے تمام سربراہوں، بشمول عمران خان، کی شرکت یقینی ہو۔

آپریشن ضربِ عضب اورفوجی عدالتوں کے سبب امن و امان کی صورتحال میں خاطرخواہ بہتری آئی اور خودکش حملوں میںبھی کمی واقع ہوئی ہے‘ اس کے باوجود بلوچستان میں ایف سی اور کراچی میں رینجرز کی موجودگی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپریشن ختم ہونے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔اگر یہ سب سچ ہے توضربِ عضب کی کامیابی پربھی کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔اگر عسکریت پسند اب بھی اتنے طاقتور ہیں کہ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنیوالے اداروں سمیت مقدمات سے متعلق افراد کونشانہ بناسکیں تو آپریشن کی کامیابی کی شرح کیا ہے؟

فوجی عدالتوں کی موجودگی کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ دہشتگردوں اور جرائم پیشہ افراد کے دل میں خوف بٹھایا جائے کہ ان کے  مقدمات کافیصلہ ہفتوں اور مہینوں میں بغیر کسی التواء کے ہوجائے گا۔ یہ کسی حد تک درست بھی ہے اور اس میں سول رنگ شامل کرنے کے لیے پارلیمنٹ نے ملزمان کواپیل کا حق بھی دیا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ سول عدالتیں بشمول اعلیٰ عدلیہ مقدمات کا فیصلہ کرنے میں خاصا وقت لگاتی ہیں، کبھی کبھی اس میں 5سے 10سال بھی لگ جاتے ہیں، جسکافائدہ عسکریت پسند وں کو ہوتا ہے کیونکہ ہماری جیلیں عسکریت پسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں سمجھی جاتی ہیں۔

1997ء میں جب انسداد دہشتگردی کا قانون متعارف کروایا گیا تو اس کا مقصد بھی یہی تھا یعنی سماعت تیزی سے 7دنوں میں ہونا اور اعلیٰ عدلیہ میں اپیلیں 30دنوں کے اندر نپٹادینا، جسکے بعد آخری اپیل سپریم کورٹ میں کرنا۔اس قانون میں کوئی خرابی نہیں تھی اور یہ فوجی عدالتوں کا بہترین نعم البدل ہوسکتا تھا تاہم وکلاء اور بار ایسوسی ایشنز کی مخالفت کے سبب یہ غیرموثر ہوگیا‘ یہاں تک کہ اب انسداد دہشتگردی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں غیرمعینہ مدت تک چلتی ہیں،حتیٰ کہ کچھ مقدمات 10سے 12برس تک زیر التواء رہتے ہیں‘ اس لیے حکومت، حزبِ اختلاف اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ اے ٹی سی پر کوئی متفقہ رائے قائم کریں اور اس کے قانون میں ترمیم کرکے اسے مزید موثر بنایا جاسکتا ہے۔

دلچسپ اَمر یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی مخالفت کرنیوالوں میں مذہبی جماعتیں، روشن خیال اور سیکولر افراد سب ہی شامل ہیں، تاہم ان کی وجوہات مختلف ہیں، جب کہ وہ لوگ جوفوجی عدالتوں کے حامی ہیں، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا عدالتی نظام اس قابل نہیں یا اس میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ایسے دہشتگردوں کوسزا دے سکے جسکا انھیں سامنا ہوتا ہے۔ہمارے عدالتی نظام میں خامیاں موجود ہیں جن کے باعث وہ دہشتگردوں کو قرارواقعی سزائیں دینے سے قاصر ہے۔ انتہاپسندی کے مقدمات میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ جج، وکیل اور گواہاں کوجان کا خوف ہوتا ہے‘ اہم مقدمے کامیاب نہیں ہوتے، کیونکہ کوئی سامنے نہیں آتا، اسی لیے ایسے مقدمات سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری پولیس کی تفتیش درست نہیں‘ مختلف اداروں کے درمیان خفیہ معلومات کاتبادلہ ٹھیک نہیں‘ گواہوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے، استغاثہ ٹھیک نہیں ہے لیکن حکومت بجائے ان معاملات کوحل کرنے کے آسان حل کی جانب جارہی ہے۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ 2سال قبل تمام پارٹیوں نے فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دیا لیکن ہم نے اس وقت بھی کہاتھا کہ یہ 2سال چٹکی بجاتے ہی گزر جائینگے‘ آج ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 2سال پہلے کھڑے تھے اور اس کی وجہ صرف اور صرف سیاستدانوں کی کوتاہی اور نالائقی ہے۔

مزید یہ کہ حکومت نے یہ توکہہ دیا ہے کہ توسیع کی نئی مدت کافیصلہ باہمی مشاورت سے کیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ بلاشبہ فوجی عدالتوں کو بیساکھی کے طور پر استعمال کیاجا رہا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان میں 20نمبر شق یہی تھی کہ پاکستان کے تعزیری نظام کو بہتر کرنے کی کوششیں کی جائینگی، پولیس میں اصلاحات کی جائینگی لیکن حکومت ایسے اقدامات نہیں کرنا چاہتی جو اس کے اختیار میں بھی ہیں۔

فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت فیصلہ کیا گیا تھا کہ حکومت اس دورانیے میں گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے اور کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات کے ذریعے عدالتی نظام کو طاقتور بنائے گی تاکہ اس نوعیت کے مقدمات میں قانون وانصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکیں تاہم مقررہ مدت کے اندر وہ کچھ نہیں کرسکی‘ قانونی ماہرین بھی جوڈیشل سسٹم میں اصلاحات لانے پر زور دے رہے ہیں جب کہ حکومت کے نزدیک اصلاحات لانا صوبوں کا کام ہے اور اس معاملے میں اگر تاخیر ہوئی ہے تو اس کی ذمے دار صوبائی حکومتیں بھی ہیں‘ اس بحث سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام ایک عارضی انتظام تھا‘ یہ کوئی مستقل آئینی نظام نہیں اور نہ ہوسکتا ہے‘ ان کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ سول یاانسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں لوگ اپنی جانوں کو لاحق خطرات کی وجہ سے گواہی دینے کے لیے تیار نہیں تھے.

فوجی عدالتوں کے قیام سے ان کا خوف دُور ہوا اور وہ سامنے آکر بیانات دینے لگے لیکن ایک صحتمند ریاستی عدالتی نظام ایسے عارضی انتظامات سے مستقل طور پر نہیں چل سکتا، اس کے لیے جوڈیشل سسٹم اور تفتیش کے نظام میں اصلاحات ضروری ہیں تا کہ سویلین اداروں کو مضبوط اور موثر بنایا جاسکے‘ یہ آئین اور قانون کاتقاضا ہے‘ عارضی انتظامات پر اعتراضات کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے‘ اس مسئلے کا حل مستقل عدالتی نظام ہی ہے جوانصاف کے تمام تقاضوں پر پورا اُترے اور فریقین کو اس پرمکمل اعتماد ہو‘ حکومت کو اپوزیشن اور قانونی ماہرین کی مشاورت سے مقررہ مدت میں مطلوبہ اصلاحات کاعمل مکمل کرلینا چاہیے تھا تا کہ فوج اپنے اصل فرض یعنی سرحدوں کے دفاع پر پوری توجہ مرکوز رکھے اور غیرضروری طور پر سویلین اداروں کے کاموں میں نہ اُلجھی رہے، اس لیے مسئلے کاواحد حل فوجداری انصاف کے سسٹم کو دہشتگردی کے مقدمات موثر طور پر نمٹانے کے قابل بنانا ہے.

اگر پچھلے 2سال میں اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا تو اب ہوجانا چاہیے اور ایسی اصلاحات لائی جانی چاہئیں جو مسلمہ ضوابط کے مطابق ہوں اور ملک کے نظامِ انصاف پر عوام کے اعتماد میں اضافے کا موجب بن سکیں ورنہ اصلیت تو یہ ہے کہ فوجی عدالتوں کی پہلی بار تشکیل پاکستان کے قانونی نظام پر ایک سوالیہ نشان تو تھی ہی، اب ان کی توسیع پارلیمنٹ، حکومت اور عدالتی نظام کی ناکامی کا واشگاف اعتراف بھی ہے‘ اگر یہ توسیع ہوجاتی ہے تو پھر لوگ یہ پوچھنے میں حق بجانب ہونگے کہ اگر فوجداری نظام کا بائی پاس کرکے جلد انصاف کا راستہ بنایا جاسکتا ہے تو پھر پاگل کردینے والے دیوانی نظام کو نظرانداز کرکے یہ معاملات بھی فوجی عدالتوں کے حوالے کیوں نہیں کر دیے جاتے؟

اگر نااہل پولیس کی جگہ فوج کو کام کرنا پڑتا ہے، خوف میں مبتلا منصفوں کی جگہ فوجیوں کو جج بننا پڑتا ہے تو پھر بددیانت محکمہ مال کی ذمے داری بھی فوج کو کیوں نہ دی جائے تاکہ غریب آدمی پٹواری، تحصیلدار اور ڈپٹی کمشنر کے جوتے کھانے کی بجائے عزت سے اپنا فیصلہ بروقت حاصل کرلے؟ ان سوالوں سے اگر حکومت اور عدلیہ کو بچنا ہے تو انھیں ملکر کچھ کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہرجرم کو دہشتگردی قرار دینے کی روش سے بھی باز آئے اوردہشتگردی کے صرف وہی مقدمات انسدادِ دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں میں بھیجے جائیں جن کی منظوری اعلیٰ سطح کے سول اور فوجی حکام مشترکہ طور پر دیں۔

عدلیہ کوبھی یہ سمجھنا ہوگا کہ جج صرف وکیلوں میں سے ہی نہیں بنتے بلکہ مخصوص حالات میں فوجی اور پولیس افسر بھی یہ کام کرسکتے ہیں‘ اس مشترکہ مقصد کے لیے حکومت کو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ1997ء کو اصل شکل میں بحال کرنا ہوگا اور عدلیہ کو محرم علی بنام وفاق مقدمے میں دیے ہوئے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ محرم علی لاہور کچہری میں بم دھماکے کا مجرم تھا جسے انتہائی عجلت میں انسدادِ دہشتگردی کی عدالت نے سزائے موت سنائی.

1997ء میں اُس وقت کے وزیرِداخلہ چوہدری شجاعت حسین کے برادرِ نسبتی ایس ایس پی اشرف مارتھ کے دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل کے بعد انسدادِ دہشتگردی کی عدالتیں وجود میں لائی گئیں جن کے لیے پولیس کوتفتیش کے لیے تیس دن، عدالت کو فیصلے کے لیے سات دن، ہائی کورٹ کے اسپیشل اپیلٹ ٹربیونل کو پندرہ دن اور سپریم کورٹ کو حتمی فیصلہ کے لیے بھی انتہائی مختصر ایام کے لیے پابند کیا گیا، اس سے پولیس نے خاص فائدہ اٹھاتے ہوئے بیشمار بیگناہوں کو دہشتگردی کی عدالتوں سے سزا دلوائی۔

اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ہمیں اپنے قانونی ودستوری نظام کی فاتحہ خوانی کا انتظام کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں ایسا کوئی دستور زیادہ دیر نہیں چل سکتا جو حکمران تومسلط کرسکے مگر انصاف نہ دے سکے۔یہ دونوں طرح کی آراء ہیں جو ہم نے فوجی عدالتوں کے حق میں اور برخلاف اس لیے ظاہر کی ہیں تاکہ ان کے مثبت اور منفی پہلو اُجاگر ہوسکیں تاہم سرِدست مصلحت کا یہی تقاضا ہے کہ جب تک نیشنل ایکشن پلان موجود ہے اور ضربِ عضب جاری ہے، فوجی عدالتیں اس نظام کا ایک مربوط حصہ ہیں جنھیں فی الفور توسیع دینا ملک وقوم کے اولین مفاد میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔