ٹریفک پولیس کی کیا ضرورت ہے؟

شیریں حیدر  اتوار 29 جنوری 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

مال روڈ کے چوک پر ٹریفک آہستگی سے رواں تھی، دفاتر سے واپسی کا وقت ہر روز اسی طرح کا رش لیے ہوئے ہوتا ہے، کوئی ٹریفک پولیس والا نظر نہ آرہا تھا اور گاڑیوں کے بے ہنگم ہارن کانوں کے پردے پھاڑے دے رہے تھے۔ کوئی بائیں مڑنے والا انتہائی دائیں لین سے اچانک مڑ کر گاڑیوں کے سامنے عمودی رخ پر آ جاتا تو کوئی دائیں مڑنے والا انتہائی بائیں لین سے اسی طرح کرتا جس سے ساری گاڑیوں کا راستہ بند ہو جاتا۔ کچھ اسی طرح کی صورت حال تھی، ایک تو ٹریفک قوانین اور ٹریفک کے اشاروں سے لاعلمی، کچھ ہمارے ہاں کی ناقص مارکنگ، اس اہم اشارے پر ٹریفک پولیس کی عدم موجودگی اور کچھ لوگوں میں برداشت کی کمی۔ ہر روز کے معمول میں یہ سب عناصر مل کر اچھے خاصے انسان کو ذہنی کوفت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

جانے اتنے اہم اور رش والے چوک پر ٹریفک پولیس کیوں نہیں ہے… میں نے سوچا۔ گاڑیوں کے ساتھ رینگتی ہوئی میری گاڑی بھی چوک کے نصف تک پہنچ گئی تھی، اسی وقت ایک انتہائی بائیں جانب کے ڈرائیور کو یاد آیا کہ اسے تو دائیں مڑنا تھا۔ اس نے دائیں مڑنے کا اشارہ عین چوک کے بیچ میں دیا اور خطر ناک انداز میں گاڑیوں کے سامنے سے ہوتا ہوا دائیں مڑ گیا، ساری گاڑیاں جو چوک کے بیچ میں تھیں وہ وہیں تھیں کہ اشارہ پہلے پیلا اور پھر لال ہو گیا۔ اطراف کا اشارہ کھلا، ہارن کانوںکے پردے پھاڑے دے رہے تھے۔ چوک کے بیچ میں کھڑے گاڑیوں کا لازمی چوک سے نکلنا بنتا تھا کہ نہ وہاں رکے رہ سکتے تھے نہ ہی واپس مڑ سکتے تھے۔

لال اشارے سے جب یہ گاڑیاں اکٹھی پار ہوئیں تو سامنے ہی چند گز کے فاصلے پر ایک درخت کے نیچے موٹر سائیکلوں پر ٹکے ہوئے ایک نہیں تین تین ٹریفک پولیس والے کھڑے نظر آئے، جنھوں نے ہمیں اپنی گاڑیوں سمیت سڑک کے انتہائی بائیں جانب رکنے کو کہا۔ میں نے اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا اور سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا، اس نے اپنے ہاتھوں کو آپس میں مل کر، ایک ہاتھ اپنے سامنے کیا اور اس پرپھونک ماری… تازہ بھنی ہوئی مونگ پھلیوں کی خوشبو اور مونگ پھلیوں کے لال پتلے چھلکے ہر طرف پھیل گئے۔

’’ میڈم سگنل توڑا ہے آپ نے؟ اور ان سب گاڑیوں والوں نے بھی!‘‘

’’ السلام علیکم… ‘‘ میں نے جوابا کہا اور اس نے میرے سلام کا جواب دیا، ’’ بیٹا آپ کی ڈیوٹی چوک میں کھڑے ہو کر ٹریفک کو رواں کرنے کی ہے یا کہ ٹریفک کے قوانین کو توڑ کر آنے والوں کے چالان کرنے کی؟ ‘‘ میں نے اس سے سوال کیا، ’’ جب آپ یہاں ’’شکار ‘‘کی تلاش میں کھڑے ہوں گے تو وہاں تو ہنگام مچے گا نا!!‘‘ …’’ آپ نے اور ان باقی پانچ گاڑیوں والوں نے بھی اشارہ توڑا ہے، اس لیے آپ کا چالان ہو گا!!‘‘ اس نے مجھے مژدہ سنایا۔’’ ہم میں سے ہر ایک نے اشارہ توڑا ہے کہ ہم ایسی صورت حال میں تھے کہ نہ وہاں رکے رہ سکتے تھے اور نہ واپس جا سکتے تھے!!‘‘…’’ آپ کو چوک میں داخل ہی اس وقت ہونا چاہیے جب سامنے چوک کلئیر ہو میڈم!! ‘‘ اس نے میری اصلاح کی، ’’ دنیا بھر کا یہی ٹریفک کا قانون ہے… ‘‘

’’ اچھا؟ ‘‘ میں نے کہا، ’’ جب آپ کی ذمے داری ہی قوانین کے اطلاق کی ہے تو آپ وہاں کھڑے ہوں جہاں پر ہم لوگوں کی طرف سے قانون توڑنے کے امکانات ہیں نہ کہ یہاں تاک میں… اور دنیا میں جہاں کہیں بھی قوانین ہیں ان کے مطابق سڑکوں پر مارکنگ ہے، چوک میں جہاں داخلہ منع ہوتا ہے چوک کلیئر نہ ہونے کی صورت میں وہاں مخصوص مارکنگ ہوتی ہے!!‘‘…’’ ہمارے ہاں کون جانتا ہے کہ کس چیز کی کون سی مارکنگ ہے… ‘‘ اس نے طنز کیا، ’’ جس کی ٹانگیں ایکسیلیٹر تک اور ہاتھ سٹیئرنگ تک پہنچ جاتے ہیں وہ گاڑی چلانا شروع کر دیتا ہے!!‘‘ …’’ آپ اسی لیے ہیں، یہی آپ کا کام ہے، ورنہ تو آپ کو ٹریفک پولیس نہیں بلکہ جرمانہ جمع کرنے کی فورس کا نام دیا جانا چاہیے ، اگر اس ملک میں لوگ ٹریفک کے قوانین جانے بغیر سڑکوں پر آجاتے ہیں، سڑکوں پر مارکنگ بقول آپ کے اس لیے نہیں کی جاتی کہ لوگوں کو کسی مارکنگ کے مطلب کا علم نہیں تو پھر آپ کا کیا کام رہ جاتا ہے؟ پھر تو ٹریفک پولیس کی ضرورت ہی نہیں ‘‘…’’ آپ جائیں میڈم… ‘‘ اس نے میرے لیکچر اور ’’قوت ‘‘گفتار سے متاثر ہو کر کہا۔

’’ میں اکیلی نہیں جانے والی… آپ ان باقی سب گاڑیوں کو بھی جانے دیں، میں نے بھی وہی کیا ہے جو ان سب نے کیا ہے…غلطی ہماری نہیں بلکہ آپ سب کی ہے… ‘‘

’’ آپ جائیں میڈم ، آپ کو باقی لوگوں سے کیا غرض ہے؟ ‘‘ وہ مصر ہوا۔’’ میں ابھی آپ کے کسی بااختیار آفیسر کو کال کر کے یہاں بلاتی ہوں اور انھیں بتاتی ہوں کہ آپ تین لوگ جن کی ڈیوٹی اس چوک میں ہونی چاہیے، یہاں پر کھڑے گپیں لگا رہے ہیں!!‘‘ میں نے اسے خالی دھمکی نہ دی تھی بلکہ میرا ارادہ ایسا ہی کرنے کا تھا، ’’ ابھی بھی آپ دیکھ لیں کہ اس چوک میں کیا حالت ہے کیونکہ آپ لوگ اپنا فرض درست طریقے سے ادا نہیں کر رہے!!‘‘ وہ لوگ ہم چھ گاڑیوں کو روکے ہوئے تھے اور اسی طرح سے چوک میں کتنی ہی اور گاڑیاں ٹریفک کے قوانین کی دھجیاں اڑا رہی تھیں، ’’ بہتر ہو گا کہ آپ ابھی بھی جا کر وہاں کھڑے ہوں اور ٹریفک کو منظم کریں، لوگوں کو غلطی کرنے سے پہلے روکیں !!‘‘…’’ ٹھیک ہے آپ جائیں! ‘‘

کیا واقعی ہمارے ملک میں ٹریفک پولیس کی کوئی ضرورت ہے؟ سڑکیں جہاں کہیں ہیں، برے حالات میں ہیں، جہاں کہیں ٹریفک کے اشارے نصب ہیں وہ کسی نہ کسی وجہ سے عموما خراب ہی رہتے ہیں اور جہاں کہیں ’’ سگنل فری کاریڈور‘‘ بنائے گئے ہیں وہاں سگنل نہیں مگر ٹریفک کا دباؤ انتہا کا بڑھ گیا ہے۔

کئی ممالک میں جب  وہاں کوئی گاڑی چلانے کا لائسنس حاصل کرنا چاہتا ہے تو گاڑی چلانے کے ٹیسٹ پاس کر کے بھی تھیوری کے ٹیسٹ کئی کئی کوششوں میں پاس نہیں ہوتے اور اس کے بغیر لائسنس نہیں ملتا۔

ہماری بدقسمتی کہ ہمارے ہاں نابینا، colour blind ( رنگوں میں تخصیص نہ کر سکنے والے) ، کم عمراور تو اور وہ لوگ بھی گاڑی چلا لیتے ہیں جن کی ٹانگیں مصنوعی ہوتی ہیں اور وہ گاڑی کے مکمل کنٹرول کے لیے فٹ نہیں ہوتے۔ کس کا قصور ہے اس میں؟ ہم سب جانتے ہیں لیکن کوئی حل نہیں پاتے… اگر والدین اپنے بچوں کورعایت دینے کو تیار ہیں تو دوسروں کی زندگیوں کی کوئی ضمانت نہیں جو ان کی وجہ سے حادثات کو شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں جسے آپ دائیں مڑنے کا اشارہ سمجھتے ہیں ، اس کا مطلب اگلی گاڑی چلانے والی کی نظر میں یہ ہوتا ہے کہ وہ دائیں لین میں ہی گاڑی چلانا چاہتا ہے یا کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ دائیں طرف سے اسے اوور ٹیک کر سکتے ہیں۔

سب سے خطر ناک ہمارے ہاں موٹر سائیکلوں والے ہیں، انھیں نہ ٹریفک قوانین کا ادراک ہے، نہ اپنی جان کی پروا، نہ ان کے موٹر سائیکلوں میں اطراف میں آئینے کہ وہ اپنے پیچھے آنے والی تیز رفتار گاڑیوں کو دیکھ کر ایک طرف کو ہٹ کر راستہ دے دیں۔ ہر روز معمولی اور غیر معمولی حادثات ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں، ان میں سے پچاس فیصد سے زائد میں پولیس کو اطلاع نہیں کی جاتی اور آپس میں ہی مک مکا کر لیا جاتا ہے کیونکہ قانونی پیچیدگیوں، وقت کے زیاں اور تھانوں کچہریوں کے گورکھ دھندوں سے یہاں ہر شخص بچنا چاہتا ہے۔ ایک ان پڑھ اور غیر ترقی یافتہ قوم، جسے شاید ہمیشہ اسی لقب کے ساتھ رہنا ہے، آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ جو ادارے اپنے فرائض کو سمجھتے اور انھیں درست طریقے سے پورا نہیں کرتے ، انھیں ختم کر دیں اور اس قوم کو آزاد چھوڑ دیں کیونکہ ہم نہ ٹھیک ہونا چاہتے ہیں نہ ہوسکتے ہیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔