دامن کو ذرا دیکھ

مقتدا منصور  اتوار 29 جنوری 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

وجے کمار نوجوان رپورٹر تھا۔ وہ بھارت کے ایک گجراتی چینل کا گودھرا نامی شہر میں نمائندہ تھا۔ ہر نوجوان کی طرح اس کے سینے میں بھی آگے بڑھنے اور نمایاں ہونے کی خواہش بدرجہ اتم موجود تھی۔ 27 فروری 2002ء کو ایک ٹرین ایودھیہ سے احمد آباد جاتے ہوئے گودھرا اسٹیشن پر رکی۔

ٹرین کے چار ڈبوں میں اچانک آگ بھڑک اٹھی، جس کے نتیجے میں 59 لوگ ہلاک ہوگئے۔ دیگر رپورٹروں کی طرح وجے کمار نے بھی جائے حادثہ سے براہ راست رپورٹنگ شروع کردی۔ مسابقت کے اس دور میں ہر رپورٹر کی طرح اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کی رپورٹ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سنسنی خیز ہو۔

وہ انجام سے بے خبر اپنی رپورٹ بھیج رہا تھا۔ ’’گودھرا اسٹیشن پر کھڑی سابرمتی ایکسپریس کے چار ڈبوں میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ اب تک درجنوں لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اس ٹرین میں ایودھیہ کی یاترا کرکے آنے والے یاتری سفر کر رہے تھے۔ اسٹیشن کے قریب ہی مسلمانوں کی بستی بھی ہے۔‘‘ حالانکہ اس وقت تک آگ لگنے کی وجہ کا تعین نہیں ہوسکا تھا، مگر وجے کمار کے دو اضافی جملوں (یعنی ٹرین میں یاتری سفر کررہے تھے اور قریب ہی مسلمانوں کی بستی ہے) کے نتیجے میں پوری ریاست میں کمیونل فسادات پھوٹ پڑے۔

غیر جانبدارانہ رپورٹس کے مطابق اس سانحہ میں 2 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 1290 مسلمان، 587 ہندو اور باقی دیگر مذاہب کے افراد شامل تھے، جب کہ اربوں روپے کی املاک نذر آتش ہوئی۔ جب عدالتی کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ آئی تو معلوم ہوا کہ آگ لگنے کا سبب برقی شارٹ سرکٹ تھا۔

ہمارے اساتذہ اور سینئرز نے ہمیشہ یہ سمجھایا کہ صحافت انتہائی حساس شعبہ ہے، خبر اور تجزیے کا ایک ایک لفظ قارئین، سامعین اور ناظرین کے ذہنوں پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، اس لیے ہمیشہ تاکید کی گئی کہ خبر اور جائزے میں اضافی یا ذومعنی جملوں، اسم صفت (Adjuctives) اور Passive voice کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ بھی تنبیہہ کی جاتی تھی کہ رپورٹ بے محل اور مفروضوں پر مشتمل نہ ہو۔

ڈیسک پر بیٹھے سب ایڈیٹر کی معلومات اتنی وسیع ہوں کہ وہ موصولہ رپورٹ کے سیاق وسباق کو سمجھ سکے۔ کیونکہ یہ سب ایڈیٹر کی ذمے داری ہوتی تھی کہ رپورٹ کی اشاعت سے قبل اس کی نوک پلک درست کرے۔ ایسے الفاظ اور جملوں کو خبرکے متن سے خارج کردیا جائے جو کسی نہ کسی شکل میں فساد خلق کا باعث بن جائیں۔ اسی نوعیت کی توقعات تجزیہ نگاروں سے کی جاتی ہیں کہ وہ کسی خبر کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے معاشرے پر ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھیں۔ کوئی ایسی بات لکھی یا بولی نہ جائے، جو عوام کے کسی حلقے کے لیے تکلیف یا ذہنی اذیت کا باعث ہو یا جس سے اشتعال پھیلنے کا امکان ہو۔

ان ہدایات پر پرنٹ میڈیا میں تو بڑی حد تک عمل ہوتا ہے، مگر الیکٹرونک میڈیا میں زیادہ تر ان ہدایات سے انحراف کو آزادی اظہار اور مستعدی تعبیر کیا جاتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں Ofcom نامی تنظیم کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اردو ٹیلی ویژن چینلوں کے بارے میں 2013-16ء کے دوران 165 شکایات موصول ہوئیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق مذہبی منافرت پھیلانے، بغیر ثبوت مختلف سیاسی وسماجی شخصیات پر الزام تراشیاں اور کاروباری مسابقت میں اخلاقی حدود سے تجاوز کرنے سے ہے۔

پاکستان میں 2002ء سے نجی شعبہ میں شروع ہونے والے بیشتر چینلز میڈیا ضابطہ اخلاق (Media Code of Conduct) سے مسلسل انحراف کررہے ہیں۔ ان کی اولین ترجیح تجارتی مسابقت ہے۔ جس کی وجہ سے پیشہ ورانہ اہلیت اور استعداد پس پشت چلی گئی ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی چینل میں نہ تو کوئی واضح ایڈیٹوریل پالیسی ہے اور نہ ہی ایڈیٹر کا عہدہ ہے۔ جس کی وجہ سے نہ تو خبروں کی ترجیحات کا تعین ہوپاتا ہے اور نہ ہی خبریں صحیح طور پر ایڈٹ ہوپاتی ہیں۔ ساتھ ہی رپورٹرز کی تربیت کا کسی بھی چینل میں کوئی بندوبست نہیں۔ بغیر تربیت رپورٹر کے ہاتھ میں مائیک تھما دینے کے نقصانات ہم بھارتی ریاست گجرات میں فسادات کی شکل میں دیکھ چکے ہیں، مگر نہ وہاں اور نہ یہاں اس مسئلے پر توجہ دینے کی زحمت گوارا کی گئی۔

یہی کچھ حال خبریں پڑھنے والوں کا ہے۔ ان میں سے بیشتر خبرکی خبریت یعنی news Sense سے عاری ہیں، جب کہ دنیا بھر کے معتبر نیوز چینلوں بالخصوص BBC، CNN اور فوکس نیوز میں خبریں پڑھنے کی ذمے داری اس شخص کو دی جاتی ہے، جس نے کم ازکم 10 سے 15 برس بیرونی رپورٹنگ اور ڈیسک پر کام کرکے اپنی اہلیت تسلیم کرائی ہو۔ مگر ہمارے یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔

یہاں اول تو خبریں پڑھنے والوں (نیوز ریڈرز) کے انتخاب کا بھی کوئی واضح طریقہ کار نہیں ہے۔ پہلی ترجیح لڑکوں اور لڑکیوں کا قبول صورت ہونا ہے، کسی حد تک آواز کو جانچ لیا جاتا ہے، جب کہ خبروں کی سمجھ یعنی news Sense اور تلفظ و ادائیگی پر توجہ نہیں دی جاتی۔

اب جہاں تک مذاکروں یعنی Talk Shows کے میزبانوں کا تعلق ہے، انھیں آج کی دنیا میں اینکر کہا جاتا ہے۔ اینکر سمندری جہاز کا لنگر ہوتا ہے۔ Talk shows کے میزبانوں کو اینکر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح جہاز کا لنگر (اینکر) جہاز کو اپنی جگہ سے ہٹنے نہیں دیتا، اسی طرح ان سے بھی یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ شرکائے گفتگو کو موضوع سے ہٹنے نہیں دیں گے، لیکن جب اینکر کی اپنی معلومات ادھوری اور ذہن کج خیالی کا شکار ہو، تو پھر اس کے پیش نظر اپنے مخصوص مفادات ہوتے ہیں۔ وہ لنگر بننے کے بجائے عوام کے ذہن کو پراگندا کرکے ملکی سلامتی کے جہاز ہی کو ڈبونے کا باعث بن جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک نومولود چینل کے ایک اینکر نے، جو اپنے ایڈونچرازم کی وجہ سے انتہائی منفی شہرت رکھتے ہیں، جس انداز میں بعض سینئر صحافیوں کی کردار کشی کا سلسلہ شروع کیا اور ان میں سے بیشتر پر توہین رسالت جیسے قبیح الزامات عائد کرکے ملک میں مذہبی منافرت پھیلانے کا جو مذموم کھیل کھیلا، اس نے ہر محب وطن پاکستانی کے دل کو دہلا کر رکھ دیا۔

پاکستانی معاشرہ جو پہلے ہی کئی دہائیوں سے عدم برداشت اور شدت پسندانہ رجحانات کی زد میں ہے، کسی شہری کا نام لے کر اس پر توہین مذہب جیسا سنگین الزام، دراصل بعض غیر ریاستی عناصر کو اس کے قتل پر اکسانے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب PEMRA نے اس اینکر کے پروگراموں پر پابندی عائد کی تو کسی بھی جانب سے احتجاج نہیں ہوا۔ بلکہ مدیران کی تنظیم CPNE اور براڈکاسٹرز کی تنظیم سمیت صحافیوں کی تنظیموں نے اس اقدام کی حمایت کی۔

افسوسناک پہلو یہ ہے کہ شہریوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا جو ستم ایوب خان اور ضیاالحق جیسے سفاک آمر نہ ڈھاسکے، وہ آج ذرایع ابلاغ کے بطن سے جنم لینے والے کچھ ابوالہول سرانجام دے رہے ہیں۔ کئی بار لکھا اور مسلسل لکھتے رہیں گے کہ ہم صحافیوں کا کام فیصلے اور فتاویٰ جاری کرنا نہیں، اطلاع دینا ہے۔ دشنام طرازی نہیں، تجزیہ پیش کرنا ہے۔ کسی عقیدے، نظریے یا قومیت کا خودساختہ وکیل بن کر مقدمہ نہیں لڑنا بلکہ غیر جانبداری سے واقعے کے پس پشت حقائق کو تلاش کرنا ہے۔ مگر کسی کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ اس کی لاف گزاف سے ملک ومعاشرے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کے منہ میں جو آرہا ہے، عالم ہذیان میں بکے جارہا ہے، نتیجتاً ہر طرف آزادیِ اظہار کے نام پر طوائف الملوکی کا راج ہوگیا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ عقیدہ ایک حساس اور نازک معاملہ ہوتا ہے، جس پر مال ومتاع تو کیا ہر انسان اپنی زندگی بھی نثار کردیتا ہے۔ اس کے بعد قومی اور لسانی تشخص ہے، جو ہر انسان کے لیے تفاخر کا باعث ہوتا ہے۔ اس لیے ایسے حساس معاملات میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ملک کو تیرھویں صدی کا بغداد بناسکتا ہے۔ جہاں ہر چوک اور چوبارے پر عقیدے کے نام پر مناظرے ہونے لگے تھے۔ جذبات میں بپھرا مجمع ایک دوسرے کی تکفیر کرتا، پھر تلواریں سونت کر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوجاتا۔

اس روش کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1258ء میں تاتاری فوجیں بغداد میں داخل ہوئیں۔ جنھوں نے ایک ہفتے تک جی بھر کرقتل و غارت گری کی اور مقتولین کی کھوپڑیوں کا شہر کے مرکزی چوک میں مینار بنایا۔ اس کے بعدکتب خانوں میں سجی کتابوں دریا برد کرکے مسلمان تہذیب کے اس مرکز کو نذر آتش کردیا۔ اس لیے اپنے ملک ومعاشرے کو اگر ایسی کسی صورتحال سے بچانا ہے، تو ہم سب کو اپنے قلم اور زبان کو قابو میں رکھنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔