سنگین ہوتی صورتحال (آخری حصہ)

مقتدا منصور  بدھ 2 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

1970ء کے عشرے میں جب معدنی تیل کے حصول کے لیے عالمی قوتوں میں کشمکش تیز ہوئی،تو سوویت یونین کے بحیرہ عرب تک رسائی کے خطرات بڑھنے لگے۔امریکا اور یورپ اس صورت حال سے پریشان تھے۔ انھوں نے اس کے حل کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس صورتحال میں پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اور اس کی تزویراتی اہمیت ایک بار پھر بڑھ گئی کیونکہ پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جو سوویت یونین کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔

مگراس دوران پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت قائم ہوچکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹومرحوم جیسے ذہین اور نڈر لیڈر باقی ماندہ پاکستان کو آئین سازی کے ذریعے وفاقی جمہوریہ بنانے کے علاوہ عالمی سطح پر تیل پیداکرنے والے ممالک کومتحدکرنے کی کوششوں میں بھی مصروف تھے،تاکہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کیا جاسکے ۔ایک مضبوط پاکستان ہی اسلامی دنیا کی رہنمائی کا فریضہ احسن طریقے سے سرانجام دے سکتا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو کو بھی اس کا بخوبی ادراک تھا چنانچہ انھوں نے معاشی لحاظ سے ایک مضبوط پاکستان کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔

پاکستان کا یہ نیا کردار عالمی منصوبہ سازوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔قبول بھی کیسے ہو سکتا تھا وہ کسی ایسے ملک کو مضبوط ہوتا ہوا برداشت نہیں کر سکتے تھے جو ان کے مفادات کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اس لیے انھوں نے ذوالفقار علی بھٹواور جمہوری سیاست سے چھٹکارا پانے کے لیے مذہبی عناصر کومنظم کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ مذہبی عناصر ہی وہ قوت تھے جو ان کے مفادات کو با آسانی پورا کر سکتے تھے۔ یوں1974ء سے مذہبی قوتیں مجتمع ہونا شروع ہوئیں،جنہوں نے امریکی امداد سے1977ء میںذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کامیاب تحریک چلاکر فوجی مارشل لاء کی راہ ہموارکی۔

1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کا خاتمہ امریکی ایجنسی CIAکی ان رپورٹس کا نتیجہ تھا، جن میں بتایا گیا تھا کہ سوویت یونین عالمی سطح پر ایک بڑی قوت بننے کے لیے افغانستان سے ہوتا ہوا پاکستانی بلوچستان کے راستے بحیرہ ہند تک پہنچنے کی منصوبہ بندی کررہاہے۔ لہٰذا پاکستانی عوام کا وفاقی جمہوریت کی بنیاد پرقومی ریاست کی تشکیل کا خواب ایک بارپھر ادھورا رہ گیا اورجنرل ضیاء الحق کی قیادت میںایک ایسی فوجی آمریت قائم ہوئی، جس نے صدیوں سے صوفیاء کی تعلیمات کے زیر اثر متحمل مزاجی اور رواداری پر مبنی معاشرتی اقدارکی جگہ عدم برداشت، متشددفرقہ واریت اور عسکریت پسندی کوپروان چڑھاکر پورے سماجیFabricکو تبدیل کردیا۔

اسی دوران1979ء میں ایران میںآنے والا انقلاب مسلم دنیا میں ایک نئی تبدیلی تھی، جس نے مذہبی جماعتوں کو اقتدار میں آنے کا نیا حوصلہ دیا۔اس نئی صورتحال سے صرف لبرل اور سیکیولر جمہوری قوتوں کے لیے مشکلات پیدا نہیں ہوئیں، بلکہ مسلم دنیا کی پشتینی بادشاہتوں اور شخصی حکومتوں کے لیے بھی خطرات پیدا ہوئے۔خلیج کے حکمرانوں نے ایران میں آنے والی تبدیلی کو اپنے اقتدارکے لیے چیلنج سمجھتے ہوئے اس کا راستہ روکنے کی منصوبہ بندی شروع کردی،جنھیںامریکی منصوبہ سازوں کی سرپرستی حاصل تھی۔

یوں مسلم دنیا میں فرقہ واریت کی تقطیب (Polarisation)نے ایک نئی شکل اختیارکی، جس کا میدان جنگ پاکستان ٹھہرا۔ اس طرح پاکستان ایک طرف ان مذہبی قوتوں کی زد میں ہے، جو پوری دنیا میں اسلام کے نفاذ اور پاکستان میں خلافت کا نظام رائج کرنے کے لیے کوشاںہیں اور پاکستان میں جاری نظام پر حملہ آور ہیں۔جب کہ دوسری طرف دوست ممالک کے درمیان ہونے والی رسہ کشی کا میدان جنگ بناہوا ہے،جسے فقہی ٹکرائو نے مزید خوفناک بنا دیا ہے۔

9/11نے عالمی سیاست میںایک نیا بھونچال پیدا کیا اور مغربی استعماری قوتیں ،جو مذہب کو کمیونزم کے خلاف استعمال کررہی تھی، اپنے ہی پیدا کردہ عناصر کے ہاتھوں نشانہ بننے لگیں۔اس طرح انھوں نے ان قوتوں کی بیخ کنی کے لیے ایک بار پھر پاکستان کو استعمال کیا۔بدقسمتی سے اس بار بھی پاکستان پر ایک فوجی آمر مسلط تھا، جس نے اپنے پیش رو کی طرح اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر غلط فیصلے کیے۔وہ جنگجوعناصر جنھیں جنرل ضیاء الحق نے قبائلی علاقوں میں پناہ دی اور سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بنایا، جنرل پرویز مشرف نے انھی جنگجوئوں کے خلاف دہری پالیسی اختیار کی۔

انھوں نے ایک طرف امریکا کو خوش کرنے کی خاطر مذہبی شدت پسندوں کے خلاف دکھاوے کی کارروائیاں کی تو دوسری طرف امریکا کو ڈبل کراس کیا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف مذہبی عسکریت پسند عناصر پاکستان کے مخالف ہوئے تو دوسری طرف امریکا کا اعتماد بھی ختم ہوگیا۔نتیجتاً امریکا افغانستان میں پاکستان کے بجائے بھارت کے کردار کو بڑھانے پر مجبورہوا۔اس صورتحال کے اثرات پاکستان کی معیشت اور اس کی سماجی ترقی پر براہ راست مرتب ہوئے۔صورت حال یہ ہے کہ آج پاکستان خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی زد میں ہے ،مگر حکام بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے یہ سب کچھ ہوتا دیکھنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور قومی سلامتی کے ادارے اس نئی صورتحال میں گومگو کا شکار ہیں۔وہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں، مگر فیصلہ کن اندازمیں اس صورتحال پر قابو پانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر پاکستان میں رائے عامہ بری طرح منقسم ہوچکی ہے اور کوئی بھی جرأت مندانہ اقدام اندرون ملک سنگین مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔اس کے علاوہ اس نوعیت کی پیچیدہ اور سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے جس ویژن اور سیاسی عزم کی ضرورت ہوتی ہے،پاکستان کے حکمران اور تمام ریاستی شراکت دار اس سے بھی قطعی طور پر عاری ہیں۔یہی سبب ہے کہ ریاست کے تقریباً سبھی ادارے کنفیوژن کے باعث بے عملی میںمبتلا ہیں۔

صورتحال پر قابوپانے میں ناکامی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ60 برس کی غیر منطقی اور غیر فطری حکمرانی نے اداروں کے درمیان تعلقات میں عدم توازن پیدا کردیا ہے اورہر ادارہ اپنی آئینی حدود سے تجاوزکواپنی طاقت کا ذریعہ سمجھ رہاہے۔ ادارہ جاتی ورکنگ ریلیشن شپ اور باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے کسی بھی جانب سے جرأت مندانہ پیش رفت نہیں ہوپا رہی۔ سیاسی جماعتوں کی صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔وہ ایک دوسرے کو زیر کرنے کی خواہش میں قومی ترجیحات کا تعین کرنے میں ناکام ہیں۔

یوں ایک طرف ریاستی ادارے اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس اور پائیدار حکمت عملی مرتب کرنے کے بجائے حکومت سمیت ریاست کے ذمے دار ادارے ایک دوسرے سے تصادم کی راہ پر گامزن ہیں۔ جب کہ دوسری طرف سیاسی جماعتیں کوئی متفقہ لائحہ عمل تیارکرنے کے بجائے اپنی تمام تر توانائیاں حصول اقتدارکے لیے نئی صف بندیوں اور سیاسی رسہ کشی پر صرف کررہی ہیں۔ایک ایسے منظرنامے میں غریب عوام چکی کے دوپاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں ۔یعنی ایک طرف خراب حکمرانی کے عذاب سہہ رہے ہیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔اس لیے کبھی وہ اصلاح احوال کے لیے سیاسی جماعتوںکی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی غیر سیاسی قوتوں سے مسیحائی کی امید باندھتے ہیں۔مگر انھیں ہر دو طرف سے مایوسی ہورہی ہے۔

آج جو صورتحال ہے جس میں قتل وغارت گری اور کشت وخون روز کا معمول بن گئے ہیں، حکومت کو بعض تلخ اور ٹھوس فیصلے کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ مگر طاقتور ریاستی ایکٹر ان مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ان کے حل کے لیے منتخب حکومت کو مضبوط بنانے کے بجائے سیاسی عمل کو غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے ملک مزید غیر یقینی کی صورتحال کا شکار ہو رہا ہے۔دوسری طرف موجودہ حکومت ان مسائل سے اپنی جان چھڑانے کی خاطرتاخیری حربے استعمال کررہی ہے تاکہ یہ پیچیدہ مسائل اگلی حکومت کو منتقل ہوجائیں۔

لیکن اس طرح کی کوششوں کے نتیجے میں حالات مکمل طور پر ہاتھوں سے نکل جائیں گے،جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا پڑے گا اور وہ عالمی اور علاقائی قوتیںاپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں گی، جو پاکستان کو اس خطے میں ایک غیر فعال ریاست بنانا چاہتی ہیں۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عام انتخابات کی تیاری کے ساتھ تمام سیاسی رہنماء سرجوڑ کر بیٹھیں اور ملک کو اس عفریت سے نجات دلانے کا کوئی صائب راستہ تلاش کریں اور ریاستی ادارے ان فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ بصورت دیگر ہم وطن عزیز کو بچا نہیں سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔