دیوار نہ اٹھائیں

زاہدہ حنا  بدھ 1 فروری 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

غلامی کے خاتمے کے بعد امریکا پر یہ وقت کبھی نہیں آیا تھا کہ امریکی قوم دو دھڑوں میں تقسیم ہوجائے۔ اس وقت امریکا میں تقسیم بھی ایسی ہوئی ہے کہ ایک طرف موجودہ صدر امریکا حلف اٹھا رہے ہوں اور ان سے کچھ فاصلے پر ان کے مخالف گوروں اور کالوں، مردوں اور عورتوں کے، مسلم اور غیر مسلم کے ہنگامہ خیز مظاہرے ہورہے ہوں اور اسی کے چند دن بعد نیویارک میں 2 لاکھ عورتیں اور مرد ان کے خلاف نعرے بلند کرتے نکلیں اور یہ مظاہرے امریکا کے سیکڑوں شہروں میں پھیل جائیں۔

امریکی صدر نے جس پہلے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، اس کی رو سے شامی مہاجرین سمیت 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان ملکوں سے امریکا پہنچنے والے متعدد مسلمانوں کو ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا یا انھیں امریکی حدود میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اس متعصبانہ پالیسی کے خلاف امریکا میں ٹرمپ کے خلاف مظاہروں کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور ججوں نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو معطل کردیا ہے۔ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب7 مسلمان ملکوں ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ نئے آرڈر کے تحت شامی مہاجرین کے امریکا  میں داخلے پر تا حکم ثانی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ 2017ء میں صرف 50 ہزار پناہ گزینوں کو داخلہ دیا جائے گا۔ پنٹاگون میں وزیر دفاع جیمز میٹس کی تقریب حلف برادری کے بعد صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کیے جس کے تحت انتہا پسند اسلامی دہشت گردوں، کو ملک سے دور رکھنے کے لیے جانچ پڑتال کے سخت اقدامات کیے جائیں گے ۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صرف ان لوگوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے دیں جو ہمارے ملک کی حمایت کریں اور دل سے ہمارے لوگوں سے پیار کریں۔

انھوں نے کہا کہ وہ امریکا کو بنیاد پرست اسلامی دہشت گردوں سے محفوظ کررہے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے 7 مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکا داخل ہونے پر لگائی جانے والی پابندی کا اطلاق گرین کارڈ رکھنے والوں پر بھی ہو گا۔ ٹرمپ نے فوج کی تنظیم نو کے لیے ایک اور ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کیے جس کے تحت نئے جہاز اور بحری جہاز تیار کرنے کے منصوبے تیار کیے جائیں گے اور اس کے علاوہ امریکی فوج کو نئے وسائل اور آلات فراہم کیے جائیں گے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 7مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکا آنے پر لگائی گئی پابندی پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔

ویزا اور قانونی دستاویزات رکھنے والے بہت سے مسافروں کو امریکی ہوائی اڈوں پر روک لیا گیا۔ مشرق وسطی کے مسافروں کو امریکا جانے والے طیاروں میں سوار نہیں ہونے دیا گیا جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جانے سے قبل امریکا کے لیے روانہ ہونے والوں کو امریکا  پہنچنے پر حراست میں لے لیا گیا۔ جان ایف کینیڈی ہوائی اڈے پر گرفتار عراقیوں کے وکلا نے نیویارک کے مشرقی ضلع کی عدالت میں ایک درخواست دائر کی جس میں ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک پناہ گزیں خاندان کو سان فرانسسکو انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر روک لیا گیا۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قاہرہ سے نیویارک آنے والی ایجپٹ ائیر کی فلائٹ سے 5 عراقی اور ایک یمنی مسافر کو اتار دیا گیا۔ اسی طرح کے ایل ایم ایئر نے بھی مسلم ملکوں سے تعلق رکھنے والے 7 مسافروں کو نیویارک لے جانے سے انکار کردیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کینیڈا اور ایران کی دہری شہریت رکھنے والے مسافروں کو بھی ایئر لائنز امریکا لے جانے سے انکار کررہی ہیں اور ہوائی اڈوں پر امریکی گرین کارڈ رکھنے والوں کو روک کر ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ آئی ٹی کمپنی گوگل کا کہنا ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 7 مسلم ملکوں کے شہریوں کے امریکا داخلے پر پابندی کے بعد اپنے اس تمام عملے کو واپس بلا لیا ہے جو بیرون ملک سفر پر ہے۔ پناہ گزینوں کا پروگرام معطل کرنے کے خلاف امریکا میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ نیویارک سے فلوریڈا اور منی سوٹا سے کنیکٹی کٹ تک احتجاج کیا جارہا ہے۔

منی سوٹا میں مظاہرین پل پر امڈ آئے اور ٹریفک کی آمد و رفت روک دی۔ نیویارک میں لوگوں نے شمعیں روشن کیں اور امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف آواز بلند کی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو امتیازی اور متعصبانہ قرار دیا ہے۔ بعض تنظیمیں امریکی صدر کے تازہ ترین ایگزیکٹو آرڈر کو غیر آئینی قرار دے رہی ہیں۔ کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرے گی اور یہ کہ ٹرمپ کے فیصلے کا نشانہ مسلمان ہیں، جنھیں ان کے عقیدے کی بنیاد پر ہدف بنایا جارہا ہے۔ ان ہی دنوں واشنگٹن ڈی سی میں سالانہ ’مارچ فار لائف‘ ریلی نکالی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

یہ خبر بھی آئی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانا موبے جیل پھر سے بھر نے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں بدنام زمانہ جیل گوانتانا موبے کو برے افراد یا بدمعاشوں سے بھرنا چاہتا ہوں۔ حالیہ ہفتے کے دوران میڈیا میں سنائی دینے والے امریکی صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کی ممکنہ بازگشت کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ اس بدنام زمانہ عقوبت خانے میں قید تمام افراد کی رہائی پر عملدرآمد روک سکتے ہیں۔ امریکی محکمہ جیل خانہ جات کے ترجمان کیپٹن جان فلو اسٹارٹ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے گوانتانا موبے جیل کے حوالے سے اپنے چند منصوبوں سے آگاہ کیا ہے تاہم ایگزیکٹو آرڈر کا اہم ترین نقطہ اسلامی شدت پسندی کے خلاف جنگ ہے۔

اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان کے یہ اعلانات نئے نہیں، اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بار بار اپنے عزائم کا اظہار کرتے رہے تھے۔ انھوں نے یہ کہنے میں عار نہیں محسوس کیا تھا کہ وہ امریکا کی سرحدیں غیر امریکیوں کے لیے بند کردیں گے۔ انھوں نے یہ بات بھی بہت زور دے کر کہی تھی کہ وہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار اٹھادیں گے تاکہ ناجائز تارکین وطن کی آمد و رفت پر قابو پایا جاسکے۔ اقتدار میں آنے کے بعد جب انھوں نے پھر یہ بات کی توجہاں امریکیوں نے احتجاج کیا اور اسے حقوق انسانی کی خلاف ورزی کہا وہیں برلن کے میئر مائیکل ملر نے صدر ٹرمپ کو ایک پیغام بھیجا جس میں کہا ہے کہ ہم برلن والوں سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ دیواروں اور خاردار تاروں کے ذریعے ایک براعظم کو تقسیم کردینے کی اذیت اور درد کیا ہوتا ہے۔

دیوار برلن کے ذریعے جرمنی کی دو حصوں میں تقسیم نے ہمارے لاکھوں لوگوں کا مستقبل برباد کردیا۔ میں امریکی صدر ٹرمپ سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ (قوموں کی برادری میں) تنہائی اور شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپالینے کا رویہ اختیار نہ کریں۔ یہ صرف بربادی کی طرف جاتا ہے۔ مائیکل ملر کا اشارہ دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی اور مغربی برلن کی سرحد پر اٹھنے والی دیوار کی طرف تھا جس پر خاردار باڑھ لگادی گئی تھی۔ فصیل جیسی دیوار پر جگہ جگہ فوجی چوکیاں بنی ہوئی تھیں۔ مغربی برلن جانے کے خواہشمند مشرقی برلن کے 171 شہری گولیوں کا شکار ہوئے۔ اس دیوار کو مشرقی جرمنی کے 4400 شہریوں اور 600 محافظوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اسے عبور کیا۔ یہ 1961 ء میں تعمیر ہونی شروع ہوئی تھی اور 9 نومبر 1989ء کو زمیں بوس ہوئی۔ اسے بیسویں صدی کے اختتامی برسوں کاایک بہت اہم واقعہ مانا جاتا ہے۔اس دور کی کہانیاں، ناول اور فلمیں کابوس کی طرح ہماری یادوں سے لپٹی ہوئی ہیں اور ’کولڈ وار‘ کے زمانے کو ذہنوں میں زندہ کردیتی ہیں۔

آنے والے کل میں امریکا  امریکیوں اور امریکا کو اپنے دوسرے وطن کے طور پر اختیار کرنے والے لوگ یقیناً بہت سے مسائل سے دوچار ہوں گے لیکن یہ بات بہت حوصلہ افزا اور شاندار ہے کہ امریکی عوام، ججوں اور حقوق انسانی کے سرگرم کارکنوں نے بہ طور خاص مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک پر سخت احتجاج کیا ہے اور وہ تمام امریکی ہوائی اڈے جہاں بین الاقوامی پروازیں اترتی ہیں ان پر وکیلوں اور ان کی تنظیموں نے اپنے عارضی دفاتر قائم کردیے ہیں تاکہ آنے والے مسلمانوں کو اگر امریکا میں داخل ہونے سے روکا جائے تو انھیں ہنگامی بنیادوں پر قانونی مدد فراہم کی جائے۔

امریکی سماج کی اصل توانائی اس کے تنوع میں ہے۔ پوری دنیا سے امریکا پہنچنے والی ذہانتوں نے اس ملک کو عظیم بنایا ہے۔ رواداری تنوع کی محافظ ہے۔ اس کا خاتمہ امریکا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔