مسائل میں دھنسے لوگ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 1 فروری 2017

فلپس بروکس کہتا ہے’’آنے والے سالوں میں کسی دن آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہ رہے ہوں گے یا کسی بڑی خواہش سے نبرد آزما ہورہے ہوں گے لیکن اصل جدوجہدکا وقت اب ہے۔‘‘ اب یہ طے ہونے کا وقت ہے کہ اس غم کی گھڑی میں یا خواہش کے پورے ہونے کے وقت آپ مکمل طورپر فیل ہوجائیں گے یا کامیابی آپ کے قدم چومے گی کردار ایک مستقل اور لمبے عمل کے بغیر تشکیل نہیں پا سکتا۔‘‘آپ پاکستان کے بیس کروڑ انسانوں میں سے کسی سے بھی اگر یہ سوال کر بیٹھیں کہ آپ کی زندگی کیسے بسر ہورہی ہے تو دوسرے ہی لمحے آپ آگے آگے بھاگ رہے ہونگے اور وہ صاحب لمبی لمبی اور موٹی موٹی گالیاں دیتے ہوئے آپ کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہوں گے ۔

یہاں ایک بڑ ا ہی سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا کیا آپ کی غلطی ہے کہ آپ نے یہ سوال پوچھا یا ان صاحب کی جو آپ کے سیدھے سادے سے سوال پر اتنے برہم اور سیخ پا ہوگئے ۔ ظاہر ہے ساری غلطی ان صاحب کی ہے جو خواہ مخواہ آپ کے سیدھے سادے سے سوال پر اتنے غصے میں آگئے، لیکن دوسری طرف اگر ہم ان صاحب کی ذہنی کیفیت کو ٹھنڈے دل کے ساتھ سمجھنے کی کو شش کریں اور ان کے زندگی کے شب وروز ان کے مسائل کا باریکی کے ساتھ جائزہ لیں تو دوسرے ہی لمحے انھیں بھی ہم ہرگز ہرگز قصور وار نہیں ٹہرائیں گے کیونکہ جن حالات اور مسائل کے وہ شکار ہیں ان حالات اور مسائل کی موجودگی میں کوئی بھی انسان نارمل رویے کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔ ان حالات، واقعات اور مسائل کا شکار ہونے کے باوجود کوئی انسان نارمل رویے اختیارکیے رکھے تو یا تو وہ ولی اللہ ہوگا یا پھر وہ ان حالات، واقعات اور مسائل کے ذمے داروں میں سے ایک ہوسکتا ہے ۔

آپ کے خیال میں کیا ایک عام انسان بیس، بیس گھنٹے بجلی نہ ہونے پر سارا سارا دن رات گیس کا انتظار کرتے کرتے پانی کی چند بالٹیوں کے سہارے وہ اور اس کے اہل خانہ دن رات بسرکر رہا ہو اور مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہو۔ جب وہ روزگار کے لیے دھکے کھاتا پھر رہا ہو جب وہ طاقتوروں، بااختیاروں کی دن رات ذلت اور گالیاں برداشت کر رہا ہو جب اس کی زندگی گندگیوں میں گزر رہی ہو جب اس کی ساری امیدیں اورخواب جل چکے ہوں، جب اس کے آنسو مرچکے ہوں۔

جب اس کے سامنے اس ہی جیسے انسان لوٹ، مار،کر پشن، غنڈہ گردی، قبضوں، بھتوں کے ناجائز پیسوں پرعیاشیاں کرتے پھر رہے ہوں اور اس کی ایمانداری، شرافت، دیانت داری کا مذاق اڑا رہے ہوں تو ان حالات، واقعات اور مسائل کی موجودگی میں بڑے سے بڑے انسان کا ایمان ڈگمگا جائے گا۔ جو انسان ان حالات، واقعات اور مسائل کی گندگیوں میں دھنسے ہوئے ہیں وہ ہی زندگی کی ذلالتوں، لعنتوں کے بارے میں بتاسکتے ہیں۔ وہ ہی بتا سکتے ہیں کہ کفن پہن کر سار ا دن گھومنا اور سونا کسے کہتے ہیں، ذلیل ہونا کسے کہتے ہیں، اپنے آپ کو پیٹنا اور کوسنا کسے کہتے ہیں۔ روز ماتم کرنا کسے کہتے ہیں۔

فرض کریں کہ آپ کو آنکھوں کی کوئی تکلیف ہوگئی ہے، جس سے آپ کی بینائی میں فرق پڑگیا ہے اور آپ کسی ماہرعینک ساز کے پاس جاتے ہیں اور وہ آپ کی شکایت مختصر طور پر سننے کے بعد اپنی عینک اتارنا ہے اور آپ کو تھما دیتا ہے۔ ’’اسے پہن لو‘‘ وہ کہتا ہے میں نے یہ عینک دس سال تک پہنی ہے اور مجھے اس سے بہت فائدہ ہے۔ میرے پاس ایک فالتوعینک گھر پر پڑی ہے تم یہ پہن سکتے ہو۔ لہذا آپ یہ عینک پہن لیتے ہیں لیکن بینائی پہلے سے بھی خراب ہوجاتی ہے‘‘ یہ کیا بکواس ہے ’آپ چیختے ہیں‘ مجھے کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔‘‘ بھئی کیا مسئلہ ہے ’’وہ کہتا ہے‘‘ مجھے تو اس سے بالکل صاف نظر آتا ہے پھر کوشش کرو۔‘‘ ’’میں کوشش کررہا ہوں لیکن ’’ہر چیز دھندلی ہے‘‘ یارآپ کے ساتھ کیا پرابلم ہے آپ مثبت انداز میں سوچیں۔

’’ okay‘‘ لیکن یہ مثبت بات ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آرہا‘ ’لڑکے تم بہت ناشکرگزار ہو ’’حالانکہ میں نے تو تمہاری مدد کی بہت کو شش کی ہے ‘‘ ہم بیس کروڑ انسانوں کا واسطہ بھی ایسے ہی عینک سازوں سے پڑا ہوا ہے جو ہماری اذیتوں، تکلیفوں، دکھ درد کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود یہ کہتے پھرتے ہیں کہ ہم مثبت انداز میں سوچیں۔ ہم دن رات آپ کی تکلیفیں اور اذیتیں دور کرنے میں مصروف ہیں بس دوچار سال اور انتظارکر لیں تمام عذابوں سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی۔

ملک سے 2018ء تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا پانی، گیس کی قلت ختم ہوجائے گی، مہنگائی کا مکمل خاتمہ کر دیں گے غربت اور افلاس کو جڑ سے اکھاڑ پھنکیں گے۔ جلد ہی ملک میں روزگارکا سیلاب بہنے لگے گا، اختیارات نچلی سطح تک منتقل کردیں گے ملک سے دہشتگردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کردیں گے۔ ہم آپ کے حکمران نہیں بلکہ خادم ہیں۔ عرض بس صرف دعوے اور وعدوں کا شور مچا رکھا ہے، عملی طور پر ہرکام بس زیرو پلس زیرو ہے۔ ہم سب لوگوں کا شمار ان لوگوں میں ہے جو بھلادیے گئے ہیں اور بھلا دینے کا غم کیا ہوتا ہے۔ کوئی بیس کروڑ لوگوں سے پوچھے۔

1979ء میں امن کا نوبیل انعام وصول کرتے ہوئے، مدرٹریسا نے کہا تھا ’’میں نہیں بھول سکتی جب مجھے ایک گھر میں جانے کا موقع ملا تھا جہاں بیٹوں اور بیٹیوں کے بوڑھے ماں باپ تھے وہ لوگ جنہیں ایک ادارے میں ڈال کر شاید بھول گئے تھے۔ میں وہاں گئی اور میں نے دیکھا کہ اس گھر میں ان کے واسطے سب کچھ موجود تھا مگر ہر شخص دروازے کی طرف تکتا رہتا تھا۔ میں نے کسی ایک کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ میں نے ایک بہن سے پوچھا ، ایسا کیوں ہے؟

ایساکیوں ہے کہ یہاں سب کچھ ہے مگر لوگ دروازے کی طرف کیوں تکتے رہتے ہیں، یہ مسکراتے کیوں نہیں۔ میں تو لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کی اتنی عادی ہوں مرتے ہوئے لوگوں کے لبوں پر بھی۔ پھر انھوں نے کہا یہ تقریباً ہر روز ہوتا ہے کہ وہ انتظارکرتے ہیں امید کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے ملنے آئے گی ان کو دکھ ہوتا ہے کہ وہ بھلادیے گئے ہیں‘‘میرے دوستو، بھائیو اور بہنو اب اس ساری صورتحال میں تمہارے پاس اب دو ہی راستے باقی بچتے ہیں، ایک تو یہ کہ آپ اپنے کرتا دھر تاؤں کا انتظارکرتے رہیں اور بقول فلپس بروکس آپ اپنی زندگی کے بڑے غم تلے کراہتے رہیں اور مکمل طور پر فیل ہوجائیں یا پھر اٹھیں اوراپنے نصیب اپنے ہاتھوں بدل ڈالیں اوراپنے حقوق غاصبوں سے چھین لیں اورکامیاب اور خوشحال اور بااختیار ہوجائیں ۔ ’’اب ‘‘ یہ آپ کے کردار پر منحصر ہے کہ آپ اپنے لیے کونسے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔