قوم پرست ٹرمپ کی آمد، امریکہ بڑے بحران کے گھیرے میں

سنڈے میگزین  اتوار 5 فروری 2017
امریکہ سمیت پوری دنیا میں مسلمان، سوشلسٹ، حقوق  سواں کے علمبردار اور  امریکہ مخالف طبقات متحد۔  فوٹو : فائل

امریکہ سمیت پوری دنیا میں مسلمان، سوشلسٹ، حقوق سواں کے علمبردار اور  امریکہ مخالف طبقات متحد۔ فوٹو : فائل

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افتتاحی تقریر بیک وقت دو سوالوں کے جواب دے رہی ہے۔

اوّل: انھیں صدر کیوں منتخب کیا گیا؟

دوم: ان کی حلف برداری کے موقع پر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں لاکھوں کی تعداد میں خواتین کیوں جمع ہوگئیں اور دنیا بھر کے 30ممالک میں احتجاج کیوں ہوا؟

آئیے! سب سے پہلے حلف برداری کی تقریب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے چند  اہم نکات کا مطالعہ کرلیں:

’’ آج ہم ایک انتظامیہ سے دوسری انتظامیہ کو یا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو محض اقتدار منتقل نہیں کر رہے، بلکہ ہم واشنگٹن، ڈی سی سے اقتدار منتقل کر رہے ہیں اور آپ کو یعنی عوام کو واپس دے رہے ہیں۔ ایک طویل مدت تک، ہماری قوم کے دارالحکومت میں ایک چھوٹا سا گروہ حکومت کے فوائد سے مستفید ہوتا رہا ہے جبکہ لوگ اس کی قیمت چکاتے رہے ہیں۔ واشنگٹن پھلتا پھولتا رہا مگر لوگوں کو اس کی دولت سے اْن کا حصہ نہ ملا۔ سیاستدان خوشحال ہوئے مگر ملازمتیں ختم اور فیکٹریاں بند ہوئیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے ملک کے شہریوں کی بجائے اپنا  تحفظ کیا۔ ان کی فتوحات آپ کی فتوحات نہیں تھیں۔

ان کی جیتیں آپ کی جیتیں نہیں تھیں۔ اور جب وہ قوم کے دارالحکومت میں خوشیاں منا رہے ہوتے تو ہمارے پورے ملک میں جدوجہد کرنے والے خاندانوں کے لیے خوشیاں منانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ یہ سب کچھ بدل رہا ہے  جس کی ابتدا، اب، اسی وقت، یہاں سے ہو رہی ہے‘‘۔ ’’یہ آپ کا دن ہے۔ یہ آپ کا جشن ہے۔ اور یہ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، آپ کا ملک ہے۔

جو چیز حقیقی معنوں میں اہم ہے وہ یہ نہیں ہے کہ کون سی پارٹی ہماری حکومت کو کنٹرول کرتی ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا ہماری حکومت کو عوام کنٹرول کرتے ہیں۔ 20 جنوری 2017 ایک ایسے دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب عوام دوبارہ اس ملک کے حاکم بنے۔ ہمارے ملک کے فراموش کردہ مردوں اور عورتوں کو اب فراموش نہیں کیا جائے گا۔ آپ کی بات ہر کوئی غور سے سن رہا ہے‘‘۔

’’اس تحریک کا مرکزی نقطہ یہ پختہ یقین ہے کہ کسی بھی قوم کا وجود اپنے شہریوں کی خدمت کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ امریکی اپنے بچوں کے لیے عظیم سکول، اپنے خاندانوں کے لیے محفوظ بستیاں اور اپنے لیے اچھے روزگار چاہتے ہیں۔ یہ نیک لوگوں اور نیک عوام کے منصفانہ اور معقول مطالبات ہیں۔ لیکن ہمارے بہت سے شہریوں کو ایک مختلف حقیقت کا سامنا ہے: ہمارے شہروں کے اندرونی حصوں میں مائیں اور بچے غربت میں پھنسے ہوئے ہیں؛ ہمارے ملک کے پورے ارضی منظرنامے پر تباہ حال فیکٹریاں قبروں کی تختیوں کی طرح بکھری پڑی ہیں؛ ایک ایسا تعلیمی نظام، جس میں پیسہ تو کثرت سے لگایا گیا ہے مگر یہ ہمارے چھوٹے اور خوبصورت بچوں کو علم سے محروم کر رہا ہے؛ اور وہ جرائم اور گینگ اور منشیات جنہوں نے بہت سی جانیں لے لیں اور ہمارے ملک کو مستقبل کی بہت ساری صلاحیتوں سے محروم کر دیا۔ یہ امریکی قتل عام یہاں رکے گا اور اسی وقت رکے گا‘‘۔

’’کئی عشروں سے ہم امریکی صنعت کی قیمت پر غیرملکی صنعت کو مالامال کر رہے ہیں؛ دیگر ممالک کی افواج کی مالی اعانت کر رہے ہیں جب کہ اپنی فوج کے سازوسامان اور معیار میں انتہائی افسوسناک کمی واقع ہونے دے رہے ہیں۔ ہم نے دوسری اقوام کی سرحدوں کا دفاع کیا جب کہ اپنی سرحدوں کا دفاع کرنے سے انکاری رہے اور بیرون ملک کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں جب کہ امریکہ کا بنیادی ڈھانچہ شکست و ریخت اور بوسیدگی کا شکار ہو چکا ہے۔ ہم نے دوسرے ممالک کو امیر بنا دیا ہے جب کہ ہمارے ملک کی دولت، طاقت اور اعتماد افق میں بکھر کر رہے گئے ہیں۔

لاکھوں کے حساب سے پیچھے رہ جانے والے امریکی کارکنوں کے بارے میں لمحہ بھر سوچے بغیر، یکے بعد دیگرے فیکٹریوں نے اپنے دروازے بند کیے اور ہمارے ملک سے نکل گئیں۔ ہمارے متوسط طبقے کی دولت ان کے گھروں سے چھین کر دنیا بھر میں بانٹ دی گئی‘‘۔ ’’آج ہم، جو یہاں اکٹھے ہیں ایک ایسا نیا فیصلہ صادرکر رہے ہیں جسے ہر شہر، ہر غیرملکی دارالحکومت اور اقتدار کے ہر ایوان میں سنا جائے گا۔ آج کے بعد ہمارے ملک میں ایک نئے تصور کی حکمرانی ہوگی۔

آج کے بعد، پہلے صرف امریکہ ہوگا۔ امریکہ پہلے۔ تجارت، ٹیکسوں، امیگریشن، خارجہ معاملات کے بارے میں ہر فیصلہ امریکی محنت کشوں اور امریکی خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جائے گا۔ ہماری مصنوعات بنانے والے، ہماری کمپنیاں چرانے والے اور ہمارے روزگاروں کو تباہ کرنے والے دوسرے ممالک کی تباہیوں سے، اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہم پر لازم ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کا نتیجہ عظیم خوشحالی اور طاقت کی صورت میں نکلے گا۔ میں آپ کے لیے آخری سانسوں تک لڑوں گا اور میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ امریکہ دوبارہ ایسے جیتنا شروع کرے گا جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔  ہم اپنے روزگار واپس لائیں گے۔ ہم اپنی سرحدیں واپس لیں گے۔

ہم اپنی دولت واپس لائیں گے۔ اور ہم اپنے خواب واپس لائیں گے۔  ہم اپنے شاندار ملک کے طول و عرض میں نئی سڑکیں، اور شاہراہیں، اور پل، اور ایئرپورٹ، اور سرنگیں، اور ریلوے لائنیں تعمیر کریں گے۔ امریکی ہاتھوں اور امریکی محنت سے اپنے ملک کی تعمیر نو کرتے ہوئے، ہم اپنے لوگوں کو سرکار کی طرف سے دی جانے والی فلاحی امداد سے نکال کر روزگار پر لگائیں گے۔ ہم دو سادہ اصولوں پر عمل کریں گے: پر چیز امریکہ کی خریدیں اور امریکہ کے لوگوں کو ملازم رکھیں۔ ہم دنیا کی اقوام کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کے متلاشی ہیں مگر ایسا ہم اس سوچ کے تحت کریں گے کہ تمام اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کو مقدم رکھیں۔

ہم کسی پر اپنا طرزِ زندگی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اسے ایک مثال کے طور پر روشن ہونے دیتے ہیں اور ہم چمکیں گے، ہر ایک کی پیروی کے لیے۔ ہم پرانے اتحادوں کو تقویت دیں گے اور نئے اتحاد تشکیل دیں گے، اورمہذب دنیا کو بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی کے خلاف متحد کریں گے اور ہم (اس دہشت گردی کو) کرہِ ارض سے مکمل طور پر اکھاڑ پھینکیں گے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے مکمل وفاداریسیاست کی بنیاد ہوگی اور اپنے ملک سے اس وفاداری کے ذریعے ہم ایک دوسرے کے ساتھ  وفاداری دوبارہ پیدا کر لیں گے۔

جب آپ اپنے دل کو حب الوطنی کے لیے کھول دیتے ہیں تو پھر تعصب کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی۔ بائبل ہمیں بتاتی ہے، ’’یہ کتنا اچھا اور خوش کن ہوتا ہے جب خدا کے لوگ اتفاق سے اور اکٹھے رہتے ہیں۔‘‘ ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے دل کی بات کھل کر کریں، اپنے اختلافات پر ایمانداری سے بحث کریں، مگر راہ ہمیشہ یکجہتی کی اپنائیں۔ جب امریکہ متحد ہوتا ہے تو اسے بالکل نہیں روکا جا سکتا۔ کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ ہم محفوظ ہیں اور ہماری ہمیشہ حفاظت کی جائے گی۔ فوج اور قانون نافذ کرنے والے ہمارے عظیم مرد اور عورتیں، ہماری حفاظت کریں گے۔ اور سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہماری حفاظت، خدا کرے گا۔  آخر میں، ہماری سوچ عظیم ہونا چاہیے اور ہمارے خواب عظیم تر ہونے چاہئیں۔

امریکہ میں، ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کوئی قوم صرف اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب تک وہ جدوجہد کرتی رہتی ہے۔ ہم اب ایسے سیاستدانوں کو قبول نہیں کریں گے جو محض باتیں کرتے ہیں اور کام نہیں کرتے۔ ہمیشہ شکایتیں کرتے رہتے ہیں مگر (حالات) کے بارے میں کچھ نہیں کرتے۔  کھوکھلی باتوں کا وقت گزر چکا۔ اب عمل کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ اکٹھے مل کر ہم امریکہ کو دوبارہ مضبوط بنائیں گے۔ ہم امریکہ کو دوبارہ مالدار بنائیں گے۔ ہم امریکہ کو دوبارہ فخرمند بنائیں گے۔ ہم امریکہ کو دوبارہ محفوظ بنائیں گے۔ اور ہاں، اکٹھے مل کر، ہم امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں گے‘‘۔

یہ ایک قوم پرست رہنما کی تقریر تھی، حالانکہ گزشتہ کل تک یہ امریکی ہی تھے جو دنیا میں عالمگیریت کے نعرے لگا رہے تھے، پوری دنیا میں ایک حکومت اور ایک ہی نظام قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے، تاہم امریکہ کے 45 ویں صدر  ٹرمپ کا افتتاحی خطاب  دراصل امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی ناکامی کا باقاعدہ اعلان تھا  اور اب عالمگیریت والی سوچ کی وائٹ ہاؤس میں کوئی جگہ نہ ہوگی۔ ٹرمپ کا یہ کہنا ’’ ایک طویل مدت تک، ہماری قوم کے دارالحکومت میں ایک چھوٹا سا گروہ حکومت کے فوائد سے مستفید ہوتا رہا ہے جبکہ لوگ اس کی قیمت چکاتے رہے‘‘ اور اسی طرح کی  دیگر باتیں اپنے ہی سیاسی نظام کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے۔

انھوں نے دنیا کو خاصی خطرناک معلومات فراہم کردی ہیں کہ ان کے ملک میں اب تک چند لوگ پوری امریکی قوم کا استحصال کررہے ہیں۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ امریکی شہروں میں مائیں اور بچے غربت میں پھنسے ہوئے ہیں؛ امریکہ میں  تباہ حال فیکٹریاں قبروں کی تختیوں کی طرح بکھری پڑی ہیں؛ امریکی تعلیمی نظام ایسا ہے جوامریکی بچوں کو علم سے محروم کر رہا ہے، اور امریکہ میں  جرائم، گینگز اور منشیات  نے ملک کو مستقبل کی بہت ساری صلاحیتوں سے محروم کر دیا۔

ٹرمپ نے اپنی سابقہ حکومتوں کی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ امریکہ دوسری قوموں کی حفاظت کرتا رہا، ان پر کھربوں ڈالرز خرچ کرتا رہا جس کے سبب امریکہ کا بنیادی ڈھانچہ شکست و ریخت اور بوسیدگی کا شکار ہو گیا۔ نومنتخب امریکی صدر  نے مغرب سے متعلق اپنی سابقہ حکومتوں کی پالیسی  کو  پھاڑ کر کوڑے دان میں ڈال دیا جودوسرے ممالک کو امیر بناتی رہی  جبکہ امریکہ کی دولت، طاقت اور اعتماد  سمیت سب کچھ بکھر گیا۔

امریکی قوم پرست رہنما نے اپنے اس خطاب میں بھی قوم کو خواب دکھایا کہ سب  کو روزگارملے گا، امریکیوں میں دولت کے انبار لگیں گے، ملک کے طول و عرض میں نئی سڑکیں، اور شاہراہیں،  پل،  ایئرپورٹ، سرنگیں اور ریلوے لائنیں تعمیر ہوں گے۔ وہ امریکیوں کی اکثریت کو ان حسین خوابوں کا اسیر بنانے میں کامیاب رہے۔یوں انھوں نے وائٹ ہاؤس فتح کرلیا۔

تاہم دوسری طرف امریکہ میں وہ طبقہ اٹھ کھڑا ہوا ہے جو قوم پرستانہ سوچ کا مخالف ہے۔  صرف یہی نہیں بلکہ  وہ تمام اقوام یا طبقات اٹھ کھڑے ہوئے جنھیں ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقاریر میں للکاراتھا۔ دنیا نے دیکھا کہ حلف برداری کی تقریب سے قبل نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر آگئے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قریباً دس لاکھ خواتین نے احتجاج کیا، لاس اینجلس میں پانچ لاکھ خواتین جمع ہوئیں، انھوں نے عورتوں کے حقوق اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے منصوبوں کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرے کے قائدین کا کہنا تھا کہ دیواریں بنانے سے کام نہیں چلے گا۔  یادرہے کہ  مسٹر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کہاتھا کہ وہ صدرمنتخب ہوکر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے امریکہ اور میکسیکو کی مشترکہ سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے اور اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو حکومت ہی کو برداشت کرنے ہوں گے۔

ٹرمپ مخالف مظاہروں میں شریک خواتین نے گلابی ہیٹ پہنے ہوئے تھے اور  بینر اٹھا رکھے تھے کہ سماجی حقوق اہم ہیں اور ہمارا احتجاج جائز ہے۔ مظاہروں میں ایسی خواتین بھی بڑی تعداد میں تھیں جن کے خاندان دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کرکے  امریکہ میں آباد ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم تارکین وطن بننے کے بعد نظر انداز کی جانے والی قوم نہیں بننا چاہتیں۔ وہ نعرے لگارہی تھیںکہ  مسٹر ٹرمپ! پل تعمیر کرو ، دیواریں نہیں۔ایک خوش آئند بات یہ بھی دیکھنے کو ملی کہ  لاکھوں امریکیوں نے ٹرمپ کی مسلم دشمنی کے خلاف  متحد ہونے کا عزم ظاہرکیا۔

واشنگٹن ڈی میں  منعقدہ  مظاہرے پُر تشدد شکل اختیارکرگئے۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا، عمارتوں کے شیشے توڑے اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ پولیس نے بھی انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا۔ معروف امریکی فنکار اور ہدایت کار مائیکل موور نے اپنی تقریر کے دوران ایک بڑے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی کاپی لہراتے ہوئے کہا کہ ’اس کی سرخی ہے ’’ٹرمپ نے طاقت حاصل کر لی‘‘ لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا، طاقت یہ ہے، امریکہ کی اکثریت یہاں موجود ہے، ہم اکثریت ہیں۔

‘معروف گلوکارہ میڈونا بھی ریلی میں تھیں، انھوں نے کہا کہ ’’میں غمزدہ ہوں، جی ہاں! (ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے سبب) میں نے بہت بار وائٹ ہاؤس کو اُڑانے کا سوچا‘‘۔ امریکہ کے کئی ٹی وی چینلوں نے ان کی تقریر براہ راست نشر کی۔ان کے علاوہ بھی متعدد معروف امریکی شخصیات مظاہروں میں شریک ہوئیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج میں ہالی ووڈ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی شرکت ظاہر کرتی ہے کہ امریکی قوم کس قدر بڑے بحران کا شکار ہوچکی ہے۔

آسٹریلیا کے دارالحکومت سڈنی میں بھی ہزاروں مظاہرین نے امریکی قونصل خانے تک مارچ کیا اور نئے صدر کو ’جنس اور نسل کی بنیاد پر تعصب برتنے والی شخصیت‘ قرار دیا۔ آسٹریلیا کے ٹیلی وژن کی معروف شخصیت اور مصنفہ ٹریسی سپائسر نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب عالمی تحریک کا حصہ ہیں اور سات براعظموں کے 600 سے زیادہ شہروں میں ہونے والے احتجاج میں ہماری آواز شامل ہے۔ نیروبی میں احتجاجی مارچ کی ایک منتظم ریچل مویکالی نے کہا کہ امریکی خواتین اس تحریک میں اکیلی نہیں ہیں۔

ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔ نائیجیریا، جنوبی افریقہ ، ملاوی اور مڈغاسکر سمیت کئی دوسرے افریقی ملکوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ لندن میں ایک لاکھ خواتین نے امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ایمسٹرڈم، ہیگ اور برلن سمیت یورپ کے کئی دوسرے شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے۔ٹوکیو،جاپان میں بھی لوگ ٹرمپ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف یہ مظاہرے دنیا میں ایک بڑی تبدیلی کی خبر دے رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں پہلے ہی امریکی حکومتوں کے خلاف نفرت موجود تھی اور اچھی خاصی تھی۔اب غیراسلامی دنیا میں بھی مخالفین کی بڑی تعداد سڑکوں پرہے۔ ان کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ  نے اقتدارسنبھالنے کے بعد’’سب سے پہلے  امریکہ‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے  بحرالکاہل کے پار چند ممالک کے ساتھ خصوصی تجارتی معاہدہ ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) ختم کر دیا۔ انھوں نے تجارتی معاہدے سے نکلنے کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کرنے کے بعد کہا کہ ’’جو ابھی ہم نے کیا ہے وہ امریکی کارکنوں کے لیے بہت اہم ہے۔‘‘  یادرہے کہ  آسٹریلیا، ملائیشیا، جاپان، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور میکسیکو سمیت 12 ممالک اس عالمی تجارتی معاہدے میں شامل ہیں اور یہ ممالک دنیا کی 40 فیصد تجارت کو کنٹرول کرتے ہیں۔

اگلے ہی ہفتے انھوں نے شام، عراق، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے پناہ گزینوں کا امریکہ میں داخلہ بند کردیا۔ قوم پرست ٹرمپ کے ایسے اقدامات ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کے نعرے سے مطابقت ضرور رکھتے ہیں تاہم اس سے امریکہ کو دنیا میں تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔میکسیکو ایسے ہمسائے کے ساتھ محاذ آرائی کے آغاز اور دنیا کے متعدد اقوام پر اپنے گھر کے دروازے بند کرنے سے عالمی تنہائی کے سوا کیا میسرآسکتاہے بھلا!   امریکہ کو عالم اسلام میں نفرت کا سامنا پہلے ہی سے تھا، اب یہ شدید تر ہوگی۔ خواتین کے بارے میں ٹرمپ کی بے ہودہ گفتگوئیں ان کا پیچھا کررہی ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کے سامنے جمع ہونے والی دس لاکھ خواتین میں بہت سی انہی بے ہودگیوں کے سبب برہم تھیں۔

لوگ حیران ہیں کہ امریکیوں نے ایسے شخص کو کیسے منتخب کرلیا جو خواتین سے متعلق ایسی بے ہودہ گفتگو کرتاہے جسے چھاپنا ممکن نہیں۔ یہ خواتین اس لئے بھی برہم ہیں کہ ٹرمپ نے خواتین پر تشدد کے خاتمہ کے لئے فنڈز بھی کم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایک خاتون مونیکا مارن کا کہناتھا کہ امریکہ میں ہر تین میں سے ایک خاتون کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، اگر ٹرمپ نے خواتین کے تحفظ کے لئے ضروری فنڈز کم کئے تو امریکی خواتین کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا۔

نومنتخب صدر کو اُن لاکھوں لوگوں کے غم وغصہ کا سامنا کرنا پڑے گا جو  اوباما کی ہیلتھ انشورنس پالیسی سے فائدہ اٹھارہے تھے۔ امریکی ٹی وی چینل ’اے بی سی‘ اور اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے مشترکہ طور پر رائے عامہ کے ایک جائزہ کا اہتمام کیا جس کے مطابق حلف برداری سے پہلے ہی40 فیصد امریکیوں نے ٹرمپ کو مسترد کردیا۔ ایک خیال تھا کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں پہنچ کر اپنے جذباتی انتخابی نعروں پر عمل نہیں کریں گے لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ انھوں نے  اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔ نتیجتاً امریکہ سمیت پوری دنیا میں مسلمانوں، سوشلسٹوں، حقوق نسواں کے علمبرداروں سمیت امریکہ مخالف حلقے ایک ہوجائیں گے، اب دنوں میں ایک نئی دنیا دیکھنے کو ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔