عذاب ناک بندھن

شیخ جابر  جمعـء 3 فروری 2017
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

70 برس کا بوڑھا بینک کاؤنٹر پر پہنچتا ہے۔وہ ایک نوٹ ٹیلرکو دیتا ہے۔نوٹ پر لکھا ہے۔’’میرے پاس بندوق ہے مجھے فوراً پیسے دے دو۔‘‘ اُسے 3ہزار کے لگ بھگ ڈالرز دے دیے جاتے ہیں۔ یہ ایک بینک ڈکیتی ہے۔قانونی طور پر مکمل بینک ڈکیتی۔بڑے میاں اِس کامیاب بینک ڈکیتی کے بعد شاداں و فرحاں فرار ہونے کے بجائے،دھیرے دھیرے چلتے ہوئے لابی میں ایک نشست پر جا کر براجمان ہو جاتے ہیں۔

بینک گارڈ نزدیک پہنچتا ہے تو اُسے ایک پرچی تھما دیتے ہیں۔کاغذ پر لکھا تھا۔آپ کو میری ہی تلاش ہے، یہ امریکی شہرکینساس سٹی ہے۔بینک کے نزدیک ہی کینساس کا پولیس ہیڈکوارٹر بھی ہے۔ لمحوں میں پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے، بڑے میاںدھر لیے جاتے ہیں۔ پوچھ تاچھ کے دوران آپ فرماتے ہیں کہ میں جیل کو بیوی کے ساتھ رہنے پر ترجیح دیتا ہوں۔ معلوم ہوا یہ نمائشی ڈکیتی آپ نے بیوی کے مظالم سے تنگ آ کر جیل جانے کے لیے کی تھی۔ گزشتہ رات ہی میاں بیوی میں شدید جھڑپ ہوئی تھی۔ آزردہ شوہر’’لارنس جان رپل‘‘نے عذاب ناک بندھن سے جان چھڑانے کے لیے جیل کی راہ اپنائی۔ دا کینساس سٹی اسٹار کے لیے اِس خبر کو ٹونی رزو نے رپورٹ کیا تھا۔تبصرہ کرتے ہوئے ڈیوہیلنگ اِسے ’’اسٹوری اوف دی سینچری‘‘ قرار دیا۔

زن و شوہرکا رشتہ اپنی تقدیس کھو رہا ہے۔مرد اپنی ساری مردانگی بیویوں کی پٹائی ہی میں سمجھتے ہیں۔دوسری جانب مرد مار عورتوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ یہ جرائم بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ گزشتہ برس کارن وال کی ملکہ نے بھی یہی کیا۔ آپ بلغراد، سربیا میں مدعو تھیں۔ اصلاً یہ دعوت گھریلو مارپیٹ کے پسماندگان کے لیے تھی۔ڈچز، پرنس اوف ویلزکی دوسری بیوی ہیں۔

آپ نے کہا خانگی تشدد ہمارے معاشرے کا پوشیدہ پہلو ہے۔افراد اِس بارے میں خاموش رہتے ہیں، لیکن اب یہ خاموشی ٹوٹنی ہی چاہیے۔بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوتا ہے حقائق سامنے آنے چاہیے ہیں۔مغرب میں صنعتی انفجارکے بعد جو سب سے پہلی تباہی آئی وہ خاندان کا بکھرنا اور ٹوٹنا تھا۔کہتے ہیں انسان معاشرتی حیوان ہے۔ ہم رشتوں اور بندھنوں میں جکڑے پیدا ہوتے ہیں اور تمام عمر انھیں بندھنوں کو نبھاتے گزارتے ہیں۔ صنعتی اور شہری زندگی نے یہ رشتے چھین لیے ہیں۔تعلق داریاں اور رشتے ختم ہوتے جارہے ہیں۔فرد تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔

پہلے خاندانی رشتے اور روایات بوجھ لگتی تھیں۔اب شادی بھی بوجھ ہو گئی ہے۔عورت کے لیے نسلِ انسانی آگے بڑھانا بوجھ ہوگیا ہے۔ سنگل فیملی سے سنگل پیرنٹ تک آگئے ہیں۔ بچے ڈے کئیرکے حوالے، بوڑھے اولڈ ہاؤسز میںاور نوجوان صرف پیسہ کمانے کے لیے۔شبانہ روز محنت سے حاصل وہ پیسہ جو اُن کی عمومی ضروریات کے لیے بھی کافی نہیں ہو پاتا اوراگرکوئی کچھ بچا پائے تو اُس کے پاس برتنے کو وقت، فرصت اور مہلت نہیںہوتی۔

1960 کے عشرے تک امریکا میں72فی صد سے زائد افراد شادی کیا کرتے تھے جب کہ صدی کے اوائل میںتعداد 95 فی صد سے بھی زائد تھی۔آج کے امریکا میں یہ گھٹ کر نصف رہ گئی ہے۔آج نصف سے زائد امریکی نوجوان شادی ہی نہیں کرتے ہیں۔ وہ ازدواجی بندھن کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ اِس تبدیلی کی بِنا پر امریکی، مغربی اور دیگر معاشروں میں نوجوانوں کو جن جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا سامناہے وہ ایک قطعی علیحدہ موضوع ہے۔کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ جو نوجوان ہمت کرکے شادی کر بھی لیتے ہیںاُن میں سے نصف کی شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیں۔ سائنسی اور صنعتی ترقی نے انسانوں کی نفسیات کو مسخ کردیا،اُن کے اخلاق کرداراور خاندان برباد کردیے۔

یہاں تک کہ شادی کا رجحان ہی دم توڑنے لگا۔ بغیر شادی کے بچے معاشرے میں بڑھنے لگے۔ 1750ء سے بڑے شہروںمیں لاولد بچوں کی پیدائش کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچے جِس نفسیاتی، معاشرتی اور معاشی کسمپرسی میں اپنی زندگی بسرکرتے ہیںتہذ یب ِ جدید کے وہ حقائق نہایت ہی ہولناک ہیں۔امریکا میں پیدا ہونے والے ہر10میں سے4 بچے غیر شادی شدہ ماں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔

اِن بچوں کی تمام تر ذمے داریاں عورت ہی کے حصے میں آتی ہیں۔امریکی سینس بیوروکے مطابق1کروڑ20لاکھ سنگل پیرنٹس میں سے80فی صدخواتین ہیں۔18برس سے کم عمرکے بچوں میں ہر4میں سے 1بغیر باپ کے زندگی بسرکررہا ہے۔ایسے بچوں کی تعداد1کروڑ 74لاکھ ہے۔ان معصوموں کی زندگی کے بارے میںغورکریں، ذرا سوچیں وہ کِس دل سے جی رہے ہیں،وہ معصوم کہ جوجانتے ہیں کہ اُن کا کوئی باپ ہے اور یہیں کہیں عیاشی کر رہا ہے اور وہ ہیں کہ یہ بچے کِس کسِ احساسِ محرومی کا شکار نہ ہوتے ہوں گے۔ ان میں سے 45فی صد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پرمجبور ہیں۔

یہ توغیرشادی شدہ کے معاملات ہوئے۔اب اگر اِس تہذیب ِ جدید میں شادی ہوجائے توکیا حال بلکہ حشر ہوتا ہے۔اُس کا اندازہ اِس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ افغانستان اورعراق میں2001ء سے 2012ء کے درمیان ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد 6488 بتائی جاتی ہے، لیکن اِسی عرصے کے دوران اپنے ساتھی کے ہاتھوں(خواہ وہ شوہرہو یا آشنا)ہلاک ہونے والی امریکی خواتین کی تعداد11766ہے۔ یعنی قریباًدُگنی۔یہ قتل وغارت گری صرف ’’مردوں‘‘تک ہی محدود نہیں،امریکا میں خواتین کے ہاتھوں قتل ہونے والے 40فی صد سے زائد افراد اُن کے شوہر یا آشنا ہوتے ہیں۔

بقایا 30فی صداُن کے چاہنے والوں کے ذریعے اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔امریکا میں ہر ایک منٹ میں20افراد اپنے زوج یا آشنا کے ہاتھوں گھائل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہر ایک منٹ میں3خواتین ہلاک ہوتی ہیں۔امریکن سائیکولوجیکل ایسو سی ایشن کا بتانا ہے کہ 38,028,000خواتین زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ 4,774,000 خواتین پرہر برس تشدد ہوتا ہے۔امریکا میں ہر نویں سیکنڈ میں ایک عورت کو پیٹا جاتا ہے۔10,000,000بچے ہر برس گھریلو تنازعات کا نشانہ بنتے ہیں۔ 18,500,000خواتین ہر برس زوجی تشدد و مسائل کی بِنا پر ذہنی صحت کی بحالی کے مراکز کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ بے گھری کی تیسری بڑی وجہ گھریلو تنازعات اور تشدد ہے۔واضح رہے کہ امریکا میں ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جنھیں سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ۔

جدیدتہذیب ،جدید معاشرت اور جدید معیشت سے ہٹ کر جب ہم روایتی تہذیبوں کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں اِس قسم کے شدید مسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ہم بھی قدیم اور روایتی تہذیبوں کے امین ہیں۔ہمارے ہاں ایک اللہ لوک آدمی گزرے ہیںڈاکٹر عبدالحئی صاحب۔کِسی صاحب نے اُن سے ذرا شوخ ہوتے ہوئے اُن کی خانگی زندگی کے بارے میں دریافت کر لیا۔غالباًیہ خیال ہو کہ شاید کم و بیش ہم سا ہی حال ہو۔روزانہ ہی مہینے دو مہینے میں تو برتن ضرور کھڑکتے ہوں گے۔آپ نے جو جواب دیا وہ کم از کم مجھ ایسے دنیا دار کے لیے آج بھی حیرت ناک ہے۔آپ نے اہلیہ کی بہت تعریف و توصیف کے بعدفرمایا اور توکچھ نہیں کہہ سکتا بس زندگی بھر کبھی لہجہ بدل کر بات نہیں کی۔کیا کمال زندگی گزاری ہے یعنی طویل رفاقت میں کسی فریق کو نہ کوئی شکوہ نہ شکایت،البتہ ایک دوسرے کے ممنون احسان۔نہ کبھی کسی طرف سے کوئی تلخ کلامی نہ شکر رنجی۔

روایتی تہذیبوں میں رشتوں،بندھنوں اور جذبوں کا بڑا ہی خیال رکھا جاتا تھا۔افسوس کے روشن خیالی اور تہذیب ِ جدید کا آسیب سب کچھ نگلتا جا رہا ہے۔ حسرت ،یاس اور ماندگی کے علاوہ باقی کچھ بھی نہیں رہ گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔