غذائیت اور صحت کے نام پر بِکتی ہیں بیماریاں

سنڈے میگزین  اتوار 5 فروری 2017
’’مائیکرو ویو‘‘ نہایت خطرناک ہیں، چاہے یہ ہمارے جسم پر پڑیں یا ہماری غذا پر۔ فوٹو : فائل

’’مائیکرو ویو‘‘ نہایت خطرناک ہیں، چاہے یہ ہمارے جسم پر پڑیں یا ہماری غذا پر۔ فوٹو : فائل

انسانی آبادیاں پھیلیں، تو لامحالہ غذائی ضروریات میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دیہات سے لوگوں نے شہر کا رخ کیا، بہت سے دیہات شہر کا روپ دھار گئے، کئی نئے شہر بسے۔۔۔ پرانے شہر پھیلتے پھیلتے کئی ممالک کی آبادی سے بھی تجاوز کر گئے۔

ایک طرف لوگوں کی غذائی ضروریات تھیںِ، تو دوسری طرف صنعتی انقلاب کے بعد جہاں اب دیگر ضروری سازوسامان کی صنعتیں لگائی گئیں، وہیں غذائی اجناس کے لیے بھی نت نئے کارخانے قائم ہوئے۔ جدید مشینوں اور نت نئے غذائی اجزا کا استعمال بڑھا۔ اشیائے خورونوش میں مصنوعی خوش بو سے لے کر مصنوعی ذائقوں تک کا چلن بڑھتا چلا گیا۔

دوسری طرف گھروں میں استعمال ہونے والے روز مرہ کے دستی آلات جیسے ہاون دستے اور سل بٹے کی جگہ گرائینڈر اور چوپر جیسے برقی آلات نے لے لی۔۔۔ اسی پر بس نہیں، سوئی گیس کے چولھے جو ابھی کوئلے کی انگیٹھی سے تبدیل کیے گئے تھے، اب جدید مائیکرو ویو اوون، ان کی جگہ لینے لگے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو یہ اس قدر رچ بس گئے ہیں کہ ’سدرن میوزیم آف انجنیئرنگ، کمیونیکیشن اینڈ کمپٹیشن‘ (SMECC)کے مطابق 95 فی صد امریکی گھرانوں میں مائیکرو ویو اوون موجود ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا یا اس کے بغیر ان کا بالکل بھی گزارہ نہیں ہو گا۔

چوپر اور گرائینڈر میں جس طرح ابتداً ہاون دستے اور سل بٹے پر پسے ہوئے مسالوں اور غذائی اجزا کے ذائقے سے محرومی محسوس کی گئی، اسی طرح بناسپتی گھی سے لے کر مصنوعی رنگ اور مصنوعی غذائی اجزا سے تیار کردہ اشیائے خورو نوش کے باب میں بھی یہی تجربہ سامنے آیا۔ یہی نہیں، بل کہ ذائقوں کے ساتھ ان کے مضرصحت ہونے کے انکشافات بھی سامنے آئے، جو براہ راست نہایت موذی اور جان لیوا امراض میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

بھلا ہو چیف جسٹس سپریم کورٹ، جسٹس ثاقب نثار کا، جنہوں نے ’یوٹیلیٹی اسٹورز‘ پر غیرمعیاری گھی اور تیل کے حوالے سے ازخود نوٹس لیا، جس کے بعد یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی اور کوکنگ آئل کی فروخت پر پابندی لگا کر ملک بھر میں فروخت ہونے والے گھی اور کوکنگ آئل کی کوالٹی رپورٹ طلب کرلی گئی ہے۔ دوران سماعت ریمارکس میں چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ غیرمعیاری گھی کے استعمال سے بچوں میں دل کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے، ٹیٹرا پیک، پلاسٹک پاؤچ اور پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں پر بھی نوٹس لیں گے، پلاسٹک کی بوتلیں دھوپ میں پڑی رہتی ہیں، جس سے وہ مضرصحت ہو جاتی ہیں۔

چیف جسٹس نے تو صرف دھوپ میں پڑی ہوئی پلاسٹک کی بوتلوں کی بات کی، لیکن مائیکرو ویو اوون میں پلاسٹک کے ذریعے کھانا گرم کرکے ہم اپنے ہاتھوںسے اپنی صحت کا خرابہ کر رہے ہوتے ہیں، کیوں کہ یہ عمل ہمارے جسم میں براہ راست سرطان جیسے موذی مرض کو راہ دیتے ہیں۔ روس اور جرمنی میں کی گئی تحقیق کے مطابق مائیکرو ویو میں پلاسٹک کے برتن اور ڈبوں میں گرم کیے جانے والے کھانوں میں زہریلے کیمیکل پائے گئے۔ اسی بنا پر ترقی یافتہ ممالک میں سرطان کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

مائیکرو ویو اوون کے مہلک اثرات اگرچہ بہت آہستہ آہستہ ہوتے ہیں، لیکن یہ مستقلاً ہمارے جسم کو متاثر کرتے ہیں۔ مائیکرو ویو اوون کا مستقل استعمال دماغ اور مخصوص ہارمونز کے تناسب کو بھی متاثر کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے کسی بھی چیز پر توجہ مرتکز کرنے میں دشوار کا سامنا ہوتا ہے۔ یادداشت بودی ہونے لگتی ہے، جذباتی مسائل سامنے آتے ہیں، مختلف جذبات پر انسانی تعلقات اور زندگی کا بہت زیادہ انحصار ہے، ان میں غیرمعمولی تغیر کسی کی بھی زندگی کو اتھل پتھل کر کے رکھ سکتا ہے۔ ذہانت کا معیار پست ہونے لگتا ہے اور اس جیسے بہت سے سنگین نفسیاتی اور طبی مسائل سامنے آرہے ہیں۔

مائیکرو ویو اوون کے استعمال سے غذا میں موجود وٹامن نہایت مضر اجزا میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جو ٹھیک سے جزوِ بدن نہیں بن پاتے۔ طویل عرصے تک مائیکرو ویو کے کھانے استعمال کیے جائیں، تو خون میں سرطان کا سبب بننے والے خلیات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ یہی نہیں مائیکرو ویو اوون میں تیار شدہ کھانے معدے اور جسم کے دیگر حصوں میں رسولی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

مائیکرو ویو اوون کے استعمال سے سبزیوں میں موجود معدنیات اور اناج اور دودھ میں موجود amino acid تبدیل ہو کر سرطان کا باعث بننے والے اجزا کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ مائیکرو ویو اوون کی حرارت کے سبب گوشت میں موجود nucleo-proteins ضایع ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر وٹامن بی 12 سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ Agricultural and Food Chemistr نامی جریدے میں شایع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق مائیکرو ویو اوون میں رکھنے کے بعد گوشت اور دودھ میں موجود وٹامن بی 12 کی مقدار 30 سے 40 فی صد تک تلف ہوچکی تھی اور ان میں موجود بی 12 اوون میں گرم کرنے کے دوران ایک غیرفعال شکل اختیار کر گیا۔

مائیکرو ویو میں گرم کیے گئے دودھ اور سبزیوں کے استعمال سے دیکھا گیا کہ سفید خلیوں کا تناسب اور کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ دیکھا گیا۔ کینیڈا کی ٹرینٹ یونیورسٹی کے ڈاکٹر Magda Havas کی ایک تحقیق کے مطابق مائیکرو ویو اوون سے دل کی دھڑکن متاثر ہونے اور دل میں درد کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں، جس کا واحد حل وہ یہ تجویز کرتے ہیں کہ ایسے کھانوں کو ترک کردیا جائے۔

خون کی کمی کے مسائل بھی اسی کے استعمال کا نتیجہ ہیں، کیوں کہ بہ تدریج ہیموگلوبن کی کمی اوون کے کھانوں کا سبب ہوتی ہے۔ مائیکرو ویو اوون کے کھانوں سے جسم میں کولیسٹرول کی سطح بھی بلند ہوسکتی ہے۔ یہی نہیں مائیکرو ویو اوون کے کھانوں کی وجہ سے مختلف وبائی امراض کے مقابل جسم کی مدافعتی صلاحیت بھی زوال پذیر ہونے لگتی ہے۔

مائیکروویو میں پکانے اور گرم کرنے کے دوران کھانے میں موجود پانی حرارت کی بنا پر بخارات کی شکل اختیار کرجاتا ہے، یہ نمی اوون میں موجود کھانے کو گرم کرنے میں معاون ہوتی ہے، یہ عمل کھانے پر نہایت مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔

اگر کسی خامی کے سبب اوون سے ’’مائیکرویو‘‘ خارج ہونے لگیں، تو یہ ہماری آنکھوں کے لیے نہایت سنگین مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔ اکثر پرانے مائیکرو ویو اوون سے بھی یہ ’’مائیکروویو‘‘ خارج ہونے لگتی ہیں، جس کی فریکوئنسی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے ماہرین متنبہ کرتے ہیں کہ مائیکرو ویو اوون کے قریب کھڑے ہونے سے گریز کیا جائے، کوشش کریں کہ اس سے خود بھی پرے رہیں، اور کسی دوسرے کو بھی اس کے نزدیک نہ کھڑا ہونے دیں، تاکہ اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔

مائیکرو ویو اوون میں ہونے والے برقی میکانزم کی بنا پر کھانوں سے نہ صرف غذائیت اٹھ جاتی ہے، بل کہ ان کے منفرد ذائقے بھی کافی زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یوں بزرگوں کی وہ شکایت درست ثابت ہوتی ہے کہ مشینوں میں تیار پکوانوں میں ذائقہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ مائیکرو ویو اوون کھانوں کی غذائیت کو ختم کرکے بہت سی بنیادی ’اینٹی باڈیز‘ بھی تلف کر دیتا ہے اور کھانے میں ایسے جراثیم پیدا کر دیتا ہے، جو ہمارے جسم میں جا کر ہماری صحت کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے اس سے بہتر اور کوئی مشورہ نہیں ہو سکتا کہ تازہ غذاؤں کا استعمال کیا جائے۔ پکے ہوئے کھانے کو دوبارہ گرم کر کے کھانے کے قابل بنانا خاصا غیرصحت بخش عمل ہے، کیوں کہ ’’مائیکرو ویو‘‘ نہایت خطرناک ہیں، چاہے یہ ہمارے جسم پر پڑیں یا ہماری غذا پر۔

٭ اینٹی بیکٹیریل صابن

بیکٹیریا کے 99.9فی صد خاتمے کا دعویٰ کرنے والے اینٹی بیکٹیریل صابن انسانی صحت کے لیے کس قدر نُقصان دہ ہے اس کا اندازہ گذشتہ سال سامنے آنے والی امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ اینڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے، جس کے مطابق اینٹی بیکٹیریل کے نام پر فروخت ہونے والے مشہور برانڈ کے صابن میں ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن نامی کیمیکل موثر جُز کے طور پر استعمال ہورہا ہے، جو کہ انسانوں خصوصاً بچوں اور ماحول کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔

اسپتالوں میں جراثیم کش کے طور پر استعمال ہونے والے اس کیمیکل کو کثیرالقومی کمپنیوں نے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں 1990میں اینٹی بیکٹیریل صابن کی اختراع کے ساتھ پیش کی جس سے تقریباً ایک ارب ڈالر کی ایک نئی صنعت پیدا ہوئی۔ زیادہ منافع کی خاطر پُرفریب اشتہار کاری کے ذریعے بیکٹیریا کو انسان کا ’سب سے بڑا دشمن‘ قرار دیتے ہوئے ہر جگہ کو بیکٹیریا سے صاف کرنے کے لیے ہینڈ جل، کٹنگ بورڈ اور میٹریس پیڈز میں بھی اس مضر کیمیکل کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع کردیا گیا۔

1972 میں ایف ڈی اے نے ٹرائی کلوسین کے گھریلو استعمال کی محدود پیمانے پر استعمال کی اجازت دیتے ہوئے اس کے لیے ایک گائیڈلائن متعین کی تھی، لیکن اس کا حتمی مسودہ گذشتہ سال دسمبر میں شایع ہوا۔ ایف ڈی اے کے ستمبر2016کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن جیسے موثر اجزا پر مشتمل ہینڈ واش اور صابن کے استعمال سے صارفین میں ہارمون میں بے ترتیبی، اچھے بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت جیسے مسائل اور جگر کے کینسر جیسے موذی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔

بیان میں اینٹی بیکٹیریل صابن اور متعلقہ مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ ان اجزا کے ساتھ بننے والی مصنوعات کو مارکیٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیوں کہ تیارکنندگان اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ اینٹی بیکٹیریل صابن عام صابن اور پانی سے زیادہ بہتر طریقے سے بیماریوں اور انفیکشن سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اگرچہ کچھ کمپنیوں نے عوامی دباؤ اور حفاظتی تحفظات کی بنا پر اپنی مصنوعات سے مذکورہ کیمیکلز نکالنا شروع کردیے ہیں، تاہم ان کمپنیوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اس سے قبل ایف ڈی اے نے اینٹی بیکٹیریل گھریلو مصنوعات بنانے والی کمپنیوں سے کیمیکلزہارمونز میں بے ترتیبی کے ساتھ ساتھ بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کا سبب بننے والے کیمیکلزٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن کے محفوظ ہونے کے شواہد طلب کیے تھے کہ اگر یہ کمپنیاں ان کیمیکلز کو موثر جُز کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان اجزا پر مشتمل مصنوعات (صابن، ہینڈ واش) انفیکشن ختم کرنے میں عام صابن کی نسبت زیادہ بہتر کام کر رہے ہیں۔

تاہم یہ کمپنیاں ایف ڈی اے کی جانب سے فراہم کی گئی اینٹی بیکٹیریل مصنوعات میں شامل 19 موثر اجزا کے محفوظ ہونے کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں۔ کچھ کمپنیوں نے ڈیٹا بھیجا بھی، لیکن وہ ان کے استعمال کو محفوظ ثابت کرنے کے لیے ناکافی تھا۔ ایف ڈی اے کے مرکز برائے ڈرگز اور تحقیق کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جینیٹ وُڈ کُک کا کہنا ہے کہ: صارفین یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی بیکٹیریل صابن سے ہاتھ دھونا انہیں جراثیم سے موثر تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن ہمیں اب تک ایسے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہ (اینٹی بیکٹیریل صابن) عام صابن اور پانی سے زیادہ بہتر ہیں، جب کہ ہمارے کچھ اعداد و شمار اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ان اجزاء (ٹرائی کلوسین، ٹرائی کلوروکاربن) پر مشتمل اینٹی بیکٹیریل صابن کا طویل المدتی استعمال انسانی صحت کے لیے زیادہ نْقصان دہ ہے اور کمپنیوں کو ایک سال کے عرصے کے اندر اندر درج بال کیمیکلز پر مشتمل مصنوعات کو مارکیٹ سے اُٹھا کر موثر اجزا میں تبدیلی کے ساتھ ری فارمولیٹ کرنا ہوگا۔

اینٹی بیکٹیریل صابن اور ہینڈ واش سے انسانوں پر مرتب ہونے چند نُقصانات:

٭وائرس کے بجائے بیکٹیریا کا خاتمہ

ایف ڈی اے کی ڈپٹی ڈائریکٹر سینڈرا کیوڈر کا کہنا ہے کہ تیار کنندگان اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ٹرائی کلوسین گلے میں خراش، فلو، نزلہ و بخار اور معدے کے امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات کم کرتے ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اینٹی بیکٹیریل صابن صر ف بیکٹیریا ہی کو نشانہ بناتے ہیں، وائرس کو نہیں اور یہی وائرس کولڈ، فلو جیسی موسمی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

٭ اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا کی نشوونما

اینٹی بائیوٹک ادویات کا زیادہ استعمال بیکٹیریا کے خلاف مزاحمت پیدا کرتا ہے اور ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن پر مشتمل اینٹی بیکٹیریل صابن سے دوسرے بیکٹیریا تو مر جاتے ہیں لیکن مزاحمت پیدا کرنے والے بیکٹیریا کی بڑھوتری ہوجاتی ہے۔ اگر ان کی بڑھوتری زیادہ ہوجائے تو پھر اینٹی بیکٹیریل صابن یا ہینڈ واش کا استعمال غیرموثر ہوجاتا ہے۔ یہ دنیائے طب میں اس وقت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے اسے دنیا بھر میں ہیلتھ سیکیوریٹی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ بیکٹیریا کی کچھ اقسام خصوصاً MRSAنامی بیکٹیریا متعدد ادویات کے خلاف مزاحمت رکھتا ہے۔

٭غدودوں میں بے ترتیبی

چوہوں ، مینڈک اور دیگر جانوروں پر ہونے والے تجربات سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ٹرائی کلو سین نامی کیمیکل پینیل، پیچیوٹری ، پیراتھائی رائیڈ، تھائیو رائیڈ اور ایڈرینل غدود پر مشتمل اینڈوکرائن نظام میں بے ترتیبی پیدا کردیتا ہے، جس کے نتیجے میں بانجھ پن، قبل ازوقت بلوغت، موٹاپے اور کینسر جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اگرچہ انسانوں پر اب تک اس نوعیت کے مضر اثرات ظاہر نہیں ہوئے ہیں لیکن ایف ڈی اے کے مطابق جانوروں پر ہونے والے تجربات کے نتائج پر ہمیں اس کیمیکل کے استعمال پر تحفظات ہیں۔

٭ بچوں میں تپ کاہی (ہے فیور) اور الرجی کا سبب

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ ٹرائی کلوسین کا طویل المدتی ایکسپوژر بچوں میں تپ کاہی (الرجی کی وجہ سے ہونے والے نزلے کھانسی اور بخار کی ایک قسم) اور الرجی کا سبب بنتا ہے۔ طبی تحقیق کرنے والے کچھ سائنس دانوں کے خیال میں اس مادے کا ایکسپوژر ایسے مفید بیکٹیریاز کو بھی ختم کردیتا ہے جو انسان کے مدافعتی نظام کے افعال اور بہتری برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

٭پانی کے ساتھ خطرناک کیمیائی تعامل

گھر کے نلکوں میں آنے والے پانی کی صفائی کے لیے کلورین شامل کی جاتی ہے، لیکن جب کلورین ملا یہی پانی ٹرائیکلوسین کے ساتھ مل کر تعامل کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک اور کیمیکل ڈائی کلوروفینول بننا ہے جو سورج کی بالائے بنفشی تاب کار شعاعوں کے ایکسپوژر سے ڈائی آکسین میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے کم مقدار میں پیدا ہونے والا نہایت زہریلا ڈائی آکسین انسانی جسم کے اینڈوکرائن سسٹم میں بے ترتیبی کا سبب بنتا ہے۔

کیمیائی طور پر بہت زیادہ مستحکم ہونے کی وجہ سے اسے انسانی جسم سے خارج ہونے میں طویل عرصہ لگتا ہے، جب کہ کچھ تحقیقاتی رپورٹس میں اس بات کا عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ ٹرائی کلوسین پانی میں موجود کلورین کے ساتھ مل کلوروفارم بناتا ہے، انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے مطابق کلوروفارم کو انسانوں میں کینسر کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ ٹرائی کلوسین ماحول پر بھی سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔ یہ پانی میں موجود صحت مند بیکٹیریا کے لیے زہرِقاتل ہے۔ یہ زیرآب زندگی کے سائیکل کو رواں رکھنے والی نہایت اہم کائی میں فوٹو سیتھیسز کے عمل میں بھی رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

٭ ڈبا بند غذاؤں اور پلاسٹک کے بنے برتنوں کے تباہ کُن نقصانات

دنیا بھر میں ہونے والی تیزرفتار ترقی نے جہاں انسانی زندگی میں سہولتوں کا ایک نیا جہاں پیدا کیا ہے وہیں یہ ترقی بنی نوع انسان کے لیے مختلف مسائل کا سبب بھی بن رہی ہے۔ ریفریجریٹر کی آمد سے پہلے گھروں میں مل بیٹھ کر مٹی کے برتنوں میں تازہ اور گرم کھانے کا لطف لیا جاتا تھا، لیکن مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک اور نعمت خانے کی جگہ ریفریجریٹر نے لے لی، اور ایک دن پکایا گیا کھانا کئی دنوں، ہفتوں تک کھا یا جانے لگا، پھر ڈبابند غذاؤں کا دور شروع ہوا۔ لیکن طرز زندگی میں ہونے والے اس بدلاؤ نے انسانی صحت پر انتہائی بُرے اثرات مرتب کیے اور وہ بیماریاں جو عمررسیدگی کے ساتھ منسوب تھیں نوجوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے لگیں۔

ڈبوں میں بند خوراک یا کینڈ فوڈز کا استعمال ترقی یافتہ ممالک کے بعد پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ پلاسٹک کے برتنوں اور ڈبابند غذاؤں کو طویل عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے ایک کیمیکل Bisphenol A بہ طور لائننگ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل نوزائیدہ بچوں سے لے کر حاملہ خواتین تک لیے انتہائی مضر ہے۔

عام گھریلو استعمال کی اشیا میں کثرت سے استعمال ہونے والا یہ کیمیکل بچوں کی فیڈر میں بھی استعمال ہورہا ہے اگرچہ دنیا کے بیشتر ممالک میں پلاسٹک کے فیڈرز پر پابندی عاید کردی گئی ہے، لیکن پھر بھی پاکستان جیسے ملک میں اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ یہ کیمیکل نہ صرف بچوں بل کہ بڑوں کو بھی معدے کے امراض میں مبتلا کر رہا ہے، بل کہ اس سے بنے برتنوں میں کھانے سے دانتوں کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کم از کم پانچ سال کی عمر تک بچوں کو پلاسٹک کے برتنوں میں کھلانے پلانے اور اور ڈبابند غذاؤں سے دور کھنا چاہیے۔

٭ ادویات، زیرآب پانی اور ٹوتھ پیسٹ میں موجود فلورائیڈ کے مہلک اثرات

پُرفریب اشتہارکاری کے ذریعے کیلشیم، میگنیشم اور فلورائیڈ جیسے کیمکلز کو محفوظ اور صاف دانتوں کا ضامن بتایا جاتا ہے، اور یقیناً ایسا ہوتا بھی ہوگا، لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ دانتوں کی صفائی کے چکر میں ان کیمکلز کا استعمال آپ کو کِن مہلک جسمانی اور دماغی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے؟

ٹوتھ پیسٹ کے اشتہاروں میں فلورائیڈ کو دانتوں کی بیماریوں کا واحد حل بتایا جاتا ہے، لیکن یہی فلورائیڈ آپ کی صحت کے لیے اتنا ہی مضر ہے جتنا سنکھیا، سیسہ اور پارہ۔ ممتاز طبی جریدے t The Lance میں شایع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق فلورائیڈ پر مشتمل پانی اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال انسانوں میں نیورو ٹوکسیٹی (اعصابی نظام پر مرتب ہونے والے زہریلے اثرات جو اعصابی خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں) اور معدے کے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ عالمی ادارے برائے صحت نے دانتوں کے لیے فلورائیڈ کی سطح 0.5ملی گرام سے ایک ملی گرام فی لیٹر مقرر کی ہے۔

اس حد سے تجاوز کی صورت میں اس کے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فلورائیڈ کا استعمال نہ صرف ٹوتھ پیسٹ بل کہ ادویہ سازی میں بھی کیا جا رہا ہے اور بیس فی صد ادویات میں فلورائیڈ کسی نہ کسی شکل میں شامل ہے، جب کہ ٹوتھ پیسٹ میں اس کا استعمال خصوصاً بچوں میں معدے کے امراض کا سبب بن رہا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں میں ٹوتھ پیسٹ یا اس کے جھاگ کو نگلنے کی شرح زیادہ ہے۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی کا انحصار زیرآب پانی پر ہے اور بورنگ سے نکلنے والے تقریباً دس فی صد پانی میں سنکھیا اور فلورائیڈ کی مقدار بہت زیاد ہ ہے، جب کہ پاکستان کے صحرائے تھر میں بھی فلورائیڈ سے لبریز کنوؤں کا پانی وہاں کے رہائشیوں کو دماغ، ہڈیوں، گردوں اور دانتوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا کررہا ہے۔

٭مصنوعی مٹھاس

وزن میں کمی اور ذیابطیس کے مریضوں کے اکثر ڈاکٹر حضرات کم حراروں والی مصنوعی مٹھاس کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔ ایسپارٹیم ، سوڈیم سَکرین، سُکرالوز، نیوٹیم، ایڈوینٹیم اور زائیلیٹول نام کی مختلف مصنوعی مٹھاس کے انسانی صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں متضاد نظریات ہیں، جس میں سب سے زیادہ متنازعہ ایسپارٹیم ہے۔

1974میں امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ایسپارٹیم کو بہ طور مصنوعی مٹھاس استعمال کرنے کی منظوری دی، تاہم ایف ڈی اے کے اس فیصلے کو ناقدین کی جانب سے بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ناقدین کا موقف تھا کہ ایف ڈی اے نے محض ابتدائی تحقیق کے بعد اس کیمیکل کو انسانی استعمال کے لیے محفوظ قرار دے دیا۔ کہا جاتا رہا کہ ایف ڈی اے کے حکام نے ایسپارٹیم کے خالق جی ڈی سرل کی جانب سے ہیر پھیر کی گئی سیٖفٹی ڈیٹا شیٹ کی بنیاد پر یہ منظوری دی۔

1913سے امریکا میں کینسر کے خلاف جنگ کرنے والی رضاکارانہ ہیلتھ آرگنائزیشن ’امریکن کینسر سوسائٹی‘ کے مطابق شکر سے دو سو گنا میٹھی ایسپارٹیم کے لیے ایٖف ڈی اے نے جسمانی وزن کے لحاظ سے 50ملی گرام فی کلو اور یورپین فوڈ سیفٹی اتھارٹی (ایسفا) نے جسمانی وزن کے لحاظ سے 40ملی گرام فی کلو استعمال کی منظوری دی ہے۔ اس مصنوعی مٹھاس کو ڈائٹ فوڈ، سوڈا، مشروبات، دہی، آئس کریم، چیونگم اور کم حرارے والی مصنوعات کے علاوہ شوگر فری دیگر خوراک میں شامل کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ متنازعہ رہنے والی کم حرارے والی اس مصنوعی مٹھاس کے نْقصانات کے حوالے سے متضاد آرا آتی رہی ہیں۔ کچھ تھیوریز کے مطابق ایسپارٹیم کینسر، سر درد، مایوسی، وزن میں اضافے، الزائمر جیسی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے۔

تاہم ایسفا کے ماہرین نے ان تھیوریز کو غلط قرار دیتے ہوئے ایسپارٹیم کے مقررہ حد تک استعمال کو انسانی صحت کے لیے محفوظ قرار دیا ہے۔ ایف ڈی اے کے کوڈ آف فیڈرل ریگولیشن ٹائٹل 21، جلد 3، کے 21اپریل 2016کی نظرثانی شدہ دستاویز کے مطابق اچھی مینوفیکچرنگ پریکٹس کے ساتھ ایسپارٹیم کا استعمال بہ طور مصنوعی شکر اور فلیور انہانسر (ذائقے کو بڑھانا) استعمال انسانی صحت کے لیے محفوظ ہے اگر؛

(الف)؛ گرم مصنوعات (چائے ، کافی) کے لیے ایسپارٹیم کو شکر کے متبادل کے طور پر بہ طور ٹیبلیٹ استعمال کیا جائے تو L-leucine (پروٹٰین کی بائیو سینتھییسز میں استعمال ہونے والا ایک امائنو ایسڈ) کو بہ طور لبریکینٹ استعمال کیا جائے اور اس کا وزن گولی کے وزن سے 3.5فی صد کی سطح سے تجاوز نہ کرنے پائے۔

(ب) بیکڈ اشیا (بسکٹ، کیک، مٹھائی وغیرہ) میں ایسپارٹیم کا حصہ اس شے کے مجموعی وزن سے 0.5فی صد سے زائد نہ ہو۔

(د) ٹیبل یوز کے لیے شکر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی ایسپارٹیم کے ڈبے، بوتل پر یہ ہدایت واضح لکھی ہونی چاہیے: کوکنگ اور بیکنگ میں استعمال نہ کیا جائے۔
جب کہ ایک چمچا شکر کے برابر مٹھاس بھی لازمی لکھی ہو۔

٭سوڈیم سَکرین

فروٹ جوسز، چیونگم، بسکٹ ، ٹوتھ پیسٹ، ٹافیوں، ادویات اور مشروبات میں مٹھاس کے لیے استعمال ہونے والی سکرین کو 1879میں پہلی بار حادثاتی طور پر دریافت کیا گیا۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی کی تجربہ گاہ میں کول تار کے ماخذ پر کام کرنے والے کیمسٹ Constantin Fahlberg, نے اپنے ہاتھوں پر مٹھاس محسوس کی۔ Fahlberg نے بینزوئیک سلفیمائیڈ نامی اس مادے پر مزید تحقیق کے بعد اسے شکر کا بہتر متبادل پایا اور 1884میں دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنی اس دریافت کو ’سَکرین‘ کے نام سے پیٹنٹ کروا لیا اور دو سال بعد جرمنی کے ایک مضافاتی علاقے میگڈے برگ میں ایک فیکٹری میں صنعتی پیمانے پر اس کی پیداوار شروع کردی گئی۔

پہلی جنگ عظیم میں ہونے والی شکر کی قلت نے سکرین کی طلب میں بے تحاشا اضافہ کردیا۔ تاہم ماہرین غذائیت 1970میں اسے کم حراروں والی متبادل شکر کا درجہ دیا اور یہ ہوٹلوں میں سوئٹ این لو کے برانڈ نام سے گلابی پیکنگ میں فروخت کے لیے پیش کی گئی۔

1997میں سینٹر فار سائنس ان پبلک انٹرسٹ کی رپورٹ میں سکرین کو مثانے کے کینسر کو سبب قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا، جس کی بنیاد پر 2000 میں ایف ڈی اے نے اس کی پیکنگ پر انسانی صحت کو لاحق ممکنہ خطرات کے انتباہی لیبل لگانے کا حکم جاری کیا۔

2010 میں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی نے سکرین کو اپنی خطرناک مادوں کی فہرست سے خارج کردیا، تاہم اس کا مقررہ حد سے زیادہ استعمال اب بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ ایف ڈی اے کے کوڈ آف فیڈرل ریگولیشن ٹائٹل 21، جلد 3، کے 21اپریل 2016کی نظرثانی شدہ دستاویز کے مطابق سکرین (امونیم سکرین، کیلشیم سکرین اور سوڈیم سکرین) کا بہ طور مٹھاس استعمال صرف مخصوص غذاؤں میں محفوظ ہے اگر؛

(الف) سوڈا مشروبات، پھلوں کے رس میں سکرین کی مقدار فی اونس مشروب میں 12ملی گرام سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔

(ب) کھانے پکانے اور ٹیبل یوز میں سکرین کی مقدار 20ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا حساب ایک چائے کے چمچ شکر کے برابر مٹھاس کے استعمال سے ہوگا۔

(ج) پراسیس فوڈز میں سکرین کی مقدار 30ملی گرام فی سرونگ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔

غذا اور مختلف اشیاء میں دانستہ طور پر مضرصحت اجزاء کا استعمال بتاتا ہے کہ ایسی مصنوعات بنانے والوں کو صرف اپنے فائدے سے دلچسپی ہے، ایسے میں ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ خاص طور پر خوراک سے متعلق مصنوعات کو مضرصحت اجزاء سے محفوظ رکھنے کے لیے فعال اور بھرپور کردار ادا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔