کیا ہوا؟

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 4 فروری 2017
خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ مستقبل میں جیتے ہیں اور انہیں حال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ فوٹو: فائل

خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ مستقبل میں جیتے ہیں اور انہیں حال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ فوٹو: فائل

بڑی خوبصورت و عالی شان یونیورسٹی تھی، کئی سو طالب علم یہاں زیرِ تعلیم تھے۔ ملک کے بہترین دماغ یہاں پر ایک سخت مقابلے کے بعد چُن کر آتے تھے۔ یہ ایک جدید مدرسہ تھا جہاں دین کی تعلیم عصرِ حاضر کے جدید تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر دی جاتی تھی۔ جہاں طالب علم قرآن، تفسیر، فقہ، حدیث اور عربی پڑھتے تھے وہیں کمپیوٹر سائنس، میتھ میٹکس، معاشیات، آسٹرانومی، چائینیز، رشین، اسپینش اور انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے۔ اِس درس گاہ کو پاکستان میں وہی مقام حاصل تھا جو ہندوستان میں علی گڑھ کو ہوتا تھا۔ یہاں ایک سے بڑھ کر ایک استاد تھا مگر یونیورسٹی کا سب سے منفرد کردار مالی بابا تھا۔

یوں تو اُن کا نام عبداللہ تھا مگر یونیورسٹی کے تمام لوگ انہیں مالی بابا کے نام سے جانتے تھے۔ وہ اتنے بوڑھے بھی نہ تھے، کوئی 50 کے پھیرے میں ہوں گے۔ نکلتا ہوا چھریرا بدن، کھچڑی بال، کشادہ پیشانی اور ذہین چمکدار آنکھیں۔ سب طالب علم انہیں دوپہر میں ہی دیکھتے، کیونکہ سنا تھا کہ انہیں دیر تک سونے کی عادت ہے اور وہ صبح اٹھ نہیں سکتے۔ وہ باغ میں آتے، سبزیاں اگاتے، بیج ڈالتے، پانی دیتے، پودوں کی دیکھ بھال کرتے اور دو ایک گھنٹوں میں واپس اپنی عمارت میں چلے جاتے۔ بیج ڈالنا اُن کا پسندیدہ مشغلہ تھا، اُن کے چہرے پر عجیب چمک سی آجاتی تھی، جیسے وہ مردہ بیج سے زندگی پھوٹنے کے عمل اور سالہا سال بعد والے درخت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ خواب دیکھنے والوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ مستقبل میں جیتے ہیں اور انہیں حال سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ سچی بات ہے اگر آپ سمجھ سکیں  تو، جو کسی حال میں ہو، وہ حال میں نہیں رہتا۔

مالی بابا کی طبیعت بہت سادہ تھی۔ ایک عام سا سفید شلوار قمیض، سفید ٹوپی، معمولی سی چپل مگر وہ  کسی سے بات نہ کرتے تھے۔ اُن کی ذات سے جتنی کہانیاں وابستہ تھیں، اُن کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ کوئی کہتا، یہ شخص PhD ڈاکٹر ہے، کوئی کہتا اِس نے زندگی کا بڑا عرصہ امریکہ میں گزارا ہے، کوئی کہتا یہ یونیورسٹی اِس  کے وِژن کا حصہ تھا تو کوئی کہتا کہ یہ اپنے گناہوں سے بھاگا ہوا مفرور مجرم ہے۔ کوئی کہتا یہ جیل کاٹ کر آیا ہے تو کوئی کہتا کہ یہ CIA کا جاسوس ہے جو بھیس بدل کر مدرسے میں کام کررہا ہے۔ کوئی اُسے جادوگر بتاتا تو کوئی شعبدہ باز۔ کوئی اُس کے کفر و الحاد پر قسم کھاتا تو کوئی اُس کی ولایت پر گواہی دیتا۔

مالی بابا اُن تمام باتوں سے بے نیاز اپنی روٹین سے ٹس سے مس نہ ہوتا، نہ بات کرتا، نہ کسی سے ملتا، نہ ناشتہ کرتا، نہ لنچ۔ مغرب سے پہلے ایک وقت کھانا کھاتا اور بس، مسجد میں نمازوں میں ہمیشہ آخری صف میں پہنچتا اور اور فرض پڑھ کر بھاگ جاتا اور سنتیں اپنی عمارت میں جاکر پڑھتا۔ نہ کوئی استاد مالی بابا کے متعلق کوئی بات کرتا نہ کوئی مہتمم، پتہ نہیں کیا آپ بیتی تھی کہ جگ کو چپ لگ گئی تھی۔

ایک چھوٹی سی علیحدہٰ عمارت تھی جس میں مالی بابا اکیلا رہتا تھا، سنا ہے کہ اُس عمارت میں ہزاروں کتابیں ہیں۔ مگر آج تک کسی نے اُس عمارت میں کسی اور کو جاتے نہ دیکھا۔ مالی بابا تک اگر کسی کی رسائی تھی تو وہ تھا عبدالرب۔ 17،18 برس کا خوبرو نوجوان۔ اُسے لوگ مالی بابا کا بیٹا بتاتے تھے۔ وہ ہر وقت اُس کی عمارت کے باہر بیٹھا رہتا، وہی اُسے لاک کرتا اور وہی مالی بابا کو رات کا کھانا لا کردیتا۔ رات ہونے پر وہ عمارت میں جاکر کہیں سوجاتا۔

اب تو تمام لوگوں کو مالی بابا کی عادت سی ہوگئی تھی۔ لوگ اُنہیں دیکھ کر اپنی گھڑیوں کے وقت درست کرتے۔ کبھی کبھار وہ کوئی ایک آدھ جملہ بول دیں تو بول دیں۔ایک دن ایک نئے آنے والے طالب علم نے اُن سے پوچھ لیا کہ یہ آپ ہر وقت ہاتھ میں تسبیح کیوں پہنے رہتے ہیں؟ تو کہنے لگے،

’’کیوں کہ دل میں نہیں ہے، جس دن دل میں چلی گئی، ہاتھ سے اُتار دوں گا۔‘‘

آج یونیورسٹی میں بڑی سرگوشیاں تھیں کہ مالی بابا اپنے مقررہ وقت پر پودوں کو پانی دینے نہ آئے بلکہ باہر سے آنے والے کسی مہمان سے اپنی عمارت میں مل رہے ہیں۔ عبدالرب بھی صرف اتنا ہی بتا سکا کہ کوئی ڈاکٹر آئے ہیں امریکہ سے غالباً آفاق نام ہے۔

عبد اللہ تم، یہاں؟ کئی سالوں سے غائب ہو، نہ فیس بک، نہ واٹس ایپ، نہ سوشل سرکل، نہ مائی ویب، نہ کوئی پرسنل Avatar، نہ کوئی چیٹ بوٹ، نہ کوئی ڈیجیٹل سیکرٹری، تم گئے کدھر؟

ڈاکٹر آفاق بے تکلفی سے بولتے چلے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ اُن کا کلینک اب بھی ویسے ہی چلتا ہے، زندگی مصروف تر ہوچکی ہے، بچے جوان ہوگئے ہیں بڑے بیٹے کی شادی ہوچکی ہے، چھوٹے کی شادی کے سلسلے میں لڑکی دیکھنے پاکستان آئے ہوئے ہیں اور بڑی مشکل سے عبداللہ کی کھوج لگا کر ایک دن کو ملنے کیلئے یہاں آئے ہیں۔

عبد اللہ خاموشی سے اُن کی گفتگو سنتا رہا۔ جب ڈاکٹر آفاق بولتے بولتے تھک گئے اور عبداللہ کو مکمل خاموش پایا تو وہ پھٹ پڑے۔

ارے عبد اللہ! تم بھی تو کچھ کہو، کہاں رہے؟ بیوی بچے؟ میں نے سنا تھا کہ تمہاری کمپنی بِک گئی ہے، اچھے داموں میں، تم کروڑ پتی بن گئے، پھر یہ سب کیسے؟

خدارا کچھ تو کہو، کیا ہوا؟

ڈاکٹر صاحب کچھ نہیں، زندگی زور و شور سے جاری تھی، ہمت، لگن، محنت، نظم وضبط اور ڈھیر ساری دعائیں، یہ کُنجی تھی میرے پاس دنیا کی ہر کامیابی کی، سو میں ہر کامیابی پاتا چلا گیا۔ جس شعبہ میں ہاتھ ڈالا، جس ملک میں قدم رکھا، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اسے کھول کر فرش پر بچھادیا، کچھ وقتی ناکامیاں، پریشانیاں، آزمائشیں ضرور آئیں مگر میں سب کو عبور کرتا چلا گیا۔

مگر پھر مجھے محبت ہوگئی اور میں محبت کا عادی ہوگیا۔ اُس کے بغیر مجھے سانس لینا دشوار تھا۔ مجھے ہر ہر شے سے محبت ہونے لگی اور وہ، اُس کی تو کیا بات تھی۔ میں اُسے چاند کہتا تھا، اُس کی آنکھیں خالی خالی رہتی تھیں، وہ خود بھی خالی تھی، کرسی پر بیٹھ جائے تو کرسی بھی خالی رہ جائے۔ چٹکی بھرتے ہونٹ، ساون کی گھٹاؤں جیسے بال اور پانی کے جھرنوں سا برستا ہوا جسم، وہ مجسم عشق تھی۔

مجھے پتہ بھی نہیں لگا اور میں اُس کی جانب جھکتا چلا گیا۔ میں جتنا اُس کے قریب جاتا، دنیا مجھے اُس سے اتنا ہی دور کردیتی، میں راتوں کو اُٹھ کر اُس کیلئے روتا، دعائیں مانگتا۔ اِسی طرح ایک رات، آخری سمے میں، میں دعا کررہا تھا کہ میری نظر چاند پر پڑی، وہ اُجڑا ہوا تھا، اس میں روشنی نہیں تھی۔ اُس سے تو خوف آتا تھا، تو مجھے معلوم پڑا کہ پیار تو صفات سے ہوتا ہے، جسم سے نہیں۔ پھر میں صفات کی تلاش میں نکل پڑا۔ ایک کے بعد ایک مجھے دنیا میں اُس کی صفات دِکھتی چلی گئیں۔ میں کھوگیا۔ اُس بچے کی طرح جو کھلونوں کی دکان میں کھوجاتا ہے۔ چاند بے معنی ہوگیا۔ سورج کی آگ بجھ گئی، وقت اسپیس میں بدل گیا، مکان زماں میں بدل گیا، سب تتر بتر ہوگیا۔

اُس نے اپنی جھلک دکھائی اور روپوش ہوگیا۔ میں اُس کے پیچھے چل پڑا، چلتا رہا، چلتا رہا۔ دنیا کہیں پیچھے رہ گئی، بچے جوان ہوگئے، بیوی نے اچھے وقتوں کے عوض مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا، میں ابھی تک چل رہا ہوں ڈاکٹر آفاق۔ آپ سو بار چائے چائے بولتے رہیں، مگر جس نے ایک گھونٹ پی لیا، اُس کی معرفت مالا جپنے والے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ میں بھی مالا جپتے جپتے تھک گیا تھا، مجھے بھی گمان سے یقین کی طرف جانا تھا، مجھے بھی ایک چھلانگ مارنی تھی۔ لانگ جمپ۔ میں بھی مظرب تھا، بے قرار تھا، بے بس تھا۔ ڈاکٹر صاحب، میں مجسم دعا بن گیا تھا اُس کیلئے جو سب کو دیتا ہے، میں نے اُسے مانگ لیا جس سے سب مانگتے ہیں۔ میری مانگ، مانگنے والوں سے بڑھ گئی۔ میرے عشق کو حیرت نگل گئی۔ میری طلب مٹ گئی، میری پیاس چھن گئی، میرا وجود اڑ گیا، میری ذات جل گئی، میرا آپ مٹ گیا اور آپ پوچھتے ہو کہ کیا ہوا؟

میں بتاتا ہوں کیا ہوا۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا، میں ماضی لکھتا تھا، پھر میں نے حال لکھنا شروع کیا، میری جھوٹی کہانیاں لوگوں کا سچ بن جایا کرتی تھیں۔ پھر ایک روز سانجھ کا سمے تھا، میں رات بھر کا جاگا، دن بھر سے بے قرار تھا، میں نے آسمان کی طرف دیکھا، میں نے عصر کی اذان دی اور کانوں میں ہاتھ رکھنے کی بجائے سامنے معافی کے طور پر جوڑ دیئے۔

میں نے دنیا کا ٹوکرا دریا میں پلٹ دیا، میں نے دینے والے ہاتھ کی طرف ہاتھ بڑھادیا اور میں نے پہلی بار مستقبل لکھ دیا۔

ڈاکٹر آفاق نے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے پوچھا، مگر میں تو تمہارے سارے مضامین پڑھتا رہا، مجھے تو پتہ نہ چلا، کیا نام تھا تمہارے اس آرٹیکل کا۔

مالی بابا مسکرایا اور اس نے کہا،

کیا ہوا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔