جاں وری محلہ

جاوید قاضی  ہفتہ 4 فروری 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یہ تذکرہ کوئی بلی مارہ کی پیچیدہ گلیوں کا نہیں جہاں غالب رہا کرتے تھے، جاں وری محلہ دادو کے نواح میں ’’سیتا‘‘ نام کی بستی کا ہے، جس کے کل گھر دو سو کے لگ بھگ ہوں گے تو رہائش پذیر لگ بھگ ہزار ہوں گے۔ یہاں کی اکثریت جاں وری ذات کی ہے۔ پچھلے ہفتے امریکا سے آئے ہوئے میرے پرانے دوست کی ہیپاٹائٹس کے خلاف چلائی ہوئی تحریک میں ایک دن کے لیے میں بھی شریک ہوا۔

بہت سے محلوں پر مشتمل ’’سیتا‘‘ بستی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں، کچھ محلوں میں ہیپا ٹائٹس کا تناسب40 فیصد تھا تو کچھ میں 20 فیصد، لیکن ہزار لوگوں پر مشتمل جاں وری محلہ کے لوگوں میں ہیپاٹائٹس کا تناسب 70 فیصد تھا اور اس میں بھی سب سے زیادہ ہیپاٹائٹس ’’سی‘‘ کا تناسب تھا۔ گندگی اور بھوک وافلاس پر پھیلا ہوا جاںوری محلہ، نہ جانے اور کتنے اور محلہ ہوں گے ایسے سندھ کے کہ یونہی سسک سسک کر جی اور مر رہے ہوں گے، جہاں نہ کوئی دید ہوگی نہ سخن ہوگا، نہ کوئی حیلہ نہ بہانہ ہوگا، امید نہ سراغ روشنی۔ میں جب شام کی ڈھلتی کرنوں میں واپس لوٹ رہا تھا تو میری نظر سندھ کے آیندہ دس سال پر تھی، تو کیا یہ سب یونہی چلتا رہے گا آیندہ دس سال، تو کیا ایک دن پورے سندھ کو ’’یرقان‘‘ لاحق ہوجائے گا؟

ایک طرف جاگیرداروں کا سندھ ہے، جس کا ایسا راج پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ آیا۔ سب کے سب ترازو کے ایک ہی پلڑے میں آتے جا رہے ہیں اور ترازو کا دوسرا پلڑا بالکل خالی ہے۔ ایک طرف اہلِ ہوس ہیں غلطاں، یہ ہے میرا سندھ، بالخصوص دیہی سندھ۔ یہاں کسی کی کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہے کہ ہم کیا ہیں؟ کیوں ہیں؟ کیا ہوگا؟ کیسے ہوگا؟ یہ لوگ بس ہیں صرف ہونے کے لیے، جینے اور مرنے کے لیے۔ سب کچھ اجڑا اجڑا، ٹوٹا پھوٹا، گٹر کھلے ہوئے۔ ان محلوں کے راستے ہیں کہ تالاب ہیں اور پینے کا شفاف پانی بھی میسر نہیں۔ گھنٹوں گھنٹوں بجلی غائب، تیزی سے تاریخ کی شیلف میں پڑتا ہوا یہ میرا سندھ۔

دوسری طرف آج سے لگ بھگ پچیس سال پہلے، پورے دو مہینے کے لیے ہنزہ کی بستی میں اپنی شادی کے فوراً بعد بیوی کے ساتھ رہنے کا موقع ملا تھا۔ علی آباد اور کریم آباد کے دو محلوں پر مشتمل ’’ہنزہ‘‘ ایک ایسی بستی جس کا کوئی بھی وڈیرہ نہیں۔ خواندگی کی شرح سو فیصد اور اوسطاً عمر اسی سال سے بھی اوپر۔ اتنی ہریالی کے شاید ہی پاکستان کے کسی شمالی علاقے میں ہوگی، قدرت نے جو ہنزہ کو حسن دیا وہ تو الگ، جو وہاں کے رہنے والوں کے ہاتھوں نے اسے جِلا بخشی وہ ہے دراصل پیکر ہنزہ کی خوبصورتی کا۔

شاید یہ اس لیے ہے کہ وہاں کوئی وڈیرہ نہیں ہے۔ صاف پانی، چلتے ہوئے سرکاری اسکول و اسپتال۔ وہاں کوئی نجی اسکول و اسپتال نہیں، سب سرکاری۔ اب تو سی پیک cpec)) کی دہلیز بھی وہی ہے۔ اور جہاں یرقان صفر بٹا صفر۔ نہ وہاں ڈاکو، نہ تھانوں کا راج اور نہ پٹواری کی ضرورت۔ سب کچھ شانت و سکون سے ہے وہاں پر۔ بکریوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی گھنٹیاں، مدہم مدہم دبے پاؤں کانوں سے وجود میں اتر جاتی ہے۔ نہ چیخ وچلاہٹ نہ کسی کے چہرے پر غصہ، نہ کوئی غم سے نڈھال محبتوں، کنبوں، مفاد عامہ کا مجموعہ ہے ’’ہنزہ‘‘ کی بستی۔ پرندوںکے مانند جو فضاؤں میں کنبے کی شکل میں اڑتے ہیں، ٹھہرتے ہیں اور چلتے ہیں۔ اپنی آیندہ کی نسلوں کو اپنی میراث دے جاتے ہیں۔ کوئی حلف کوئی قسم و بیاں دے جاتے ہیں۔

سیتا کی بستی ہو یا ہنزہ کی بستی، جاں وری محلہ ہو یا کوئی ہنزہ کا محلہ، ہیں تو یہ سب پاکستان کا حصہ، تو پھر ان دونوں میں تفریق کیوں ہے؟ پاکستان میں اتنا تضاد کیوں ہے؟

بالآخر ’’سوموٹو‘‘ نے بڑے سال کے بعد نوید سنائی۔ میو اسپتال کے دل کے امراض کے غیر معیاری آلات، دواؤں سے شہریوں کو لاحق خطرات پر نوٹس لیا گیا۔ ہمارے سندھ کی عدالتوں نے ایک کمیشن بنادیا، لوگوں کو غیر معیاری و آلودہ پانی کی فراہمی پر۔ ادھر رئیسانی نام کے سرکاری افسر کے گھر سے کروڑوں روپے برآمد ہونے پر بھی قانون کے نام پر مک مکا کرنے کی کوشش ہے اور اگر یہ سب کچھ یونہی چلنے دیا جائے، تو جاں وری محلہ کے انبار لگ جائیں گے۔

ہمارے حکمرانوں نے یہ قسم کھائی ہے کہ ہم ڈھیٹ ہیں۔ افسر شاہی و سندھ کی عوامی نمایندہ حکومت، یوں لگتا ہے کہ انھوں نے عہد کیا ہوا ہے کہ پورے سندھ کو جاں وری محلہ بنا کر ہی رہیں گے۔

میو اسپتال پر سوموٹو کی پوزیشن نہ آتی، نہ آلودہ پانی پر کمیشن بنتا مگر یہاں جو ڈھیٹ بنے ہیں کہ سارا سندھ ایڈوائزر کے نام کی لگی مہر پر چل رہا ہے، تو پھر بھی کورٹ کو بیچ میں آنا پڑا۔ یہ بات بھی اچھی نہیں کہ جوڈیشل ایکٹیوزم سے چیزوں کو سدھارا جائے۔ مگر کیا کیا جائے۔ ہماری جمہوریت بلامداخلت پاکستان میں پہلی بار دس سال پورے کرنے کو جارہی ہے مگر حکمرانی پست سے پست ہوتی جارہی ہے۔

حکمراں دور اندیش بھی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں ترقی کا نام اورنج، بلیو اور گرین ٹرینوں و بسوں کو دینے کا ہے۔ انھیں پینے کا شفاف پانی دینا، پولیو کے ڈراپس پلانا، ہیپاٹائٹس کے ٹیکے لگوانا وغیرہ وغیرہ، ترقی کے تناظر میں نظر نہیں آتے، ہر طرف پٹواریوں کی دوڑ ہے، پنجاب کو پولیس چلاتی ہے، جس طرح انگریز بادشاہ چلاتے تھے۔ سندھ میں وڈیرے اور پولیس کی جوڑی زندہ باد، 80 فیصد اسکول بند ہیں، آدھے سے زیادہ یا تو کاغذوں میں بھرتی ہیں یا پھر طویل چھٹیوں پر ہیں۔

اگر کسی دشمن کو بددعا دینی ہو تو صرف یہ کہہ دیجیے گا کہ ’’اللہ کرے تو سرکاری اسپتال میں داخل ہوجائے‘‘ اتائی ڈاکٹروں کو سزا دینے کے لیے قانون سازی بھی ہوئی مگر قانون پر عمل درآمد کون کروائے، وہی وڈیرہ، پٹواری و تھانیدار؟ گھوسٹ اسکول کون کھلوائے؟ اور گھوسٹ استادوں کو کون پکڑے گا؟

ایجوکیشن افسر و سپروائزر وغیرہ وغیرہ۔ محلے کی صفائی کے لیے جمعدار خود وڈیرے کے اپنے کارندے، یعنی گھوسٹ جمعدار۔ تو جاں وری محلہ کیوں نہ بنے۔ سب کچھ جیسے ٹھیک ہے، لوگ مر رہے ہیں، گٹر کھلے ہوئے ہیں۔ اسپتال و اسکول گھوسٹ ہیں۔ اساتذہ و ڈاکٹر سب ٹھیک ہے۔ بس اس پورے عدم آباد میں دو ادارے بہت خوب چلتے ہیں، ایک وڈیرے کی اوطاق اور تھانیدار کا تھانہ۔ دوائیں جعلی، شراب ہے کہ زہر، اتائی ڈاکٹر کے پاس اگر علاج کے لیے جاؤ تو واپس یرقان لے آؤ، یہ سندھ ہے یا کہ جاں وری محلہ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔